جگر وہ حسن یکسوئی کا منظر یاد ہے اب تک
نگاہوں کا سمٹنا اور ہجوم نور ہو جانا
Printable View
جگر وہ حسن یکسوئی کا منظر یاد ہے اب تک
نگاہوں کا سمٹنا اور ہجوم نور ہو جانا
تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی
کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں
پھر ایسی چشم توجہ کوئی ہوئی نہ ہوئی
فسردہ خاطری عشق اے معاذ اللہ
خیال یار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی
تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا
اذیتوں میں نہ ہوئی تہی کچھ کمی نہ ہوئی
صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی
گئے تھے ہم بھی جگر جلوہ گاہِ جاناں میں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی
ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
بس اک دل کی خاطر یہ تیاریاں ہیں