کھیل سمجھے تھے لڑکپن کو تیرے
بیٹھتے اٹھتے قیامت ہو گئی
Printable View
کھیل سمجھے تھے لڑکپن کو تیرے
بیٹھتے اٹھتے قیامت ہو گئی
اُن کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں*سنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ میں*کچھ نہیں*کہتا
کارواں کی تلاش کیا اے دل
آ کے منزل پہ سب ملیں گے آپ
کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں* یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
مل کے غیروں سے بزم میں یہ کہا
مجھ کو آ کر سبھی سے ملنا تھا
چڑھاؤ پھول میری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا
الٰہی کیوں نہیں* اُٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں* وہ دُشمن کے بیٹھے ہیں
پاؤں* پر اُنکے گِرا میں* تو کہا
دیکھ ہُشیار خبردار یہ کیا
سخت جانی سے مری جان بچے گی کب تک
ایک جب کُند ہوا دوسرا خنجر آیا
گلشن میں ترے لبوں نے گویا
رس چوم لیا کلی کلی کا