بادہ پھر بادہ ہے زہر بھی پی جاؤں قتیلؔ
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
Printable View
بادہ پھر بادہ ہے زہر بھی پی جاؤں قتیلؔ
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں
کیا خبر کب کسی انسان پہ چھت آن گرے
قریۂ سنگ ہے اور کانچ کی تعمیریں ہیں
لُٹ گئے مفت میں دونوں، تری دولت مرا دل
اے سخی! تیری مری ایک سی تقدیریں ہیں
ہم جو ناخواندہ نہیں ہیں تو چلو آؤ پڑھیں
وہ جو دیوار پہ لکھی ہوئی تحریریں ہیں
ہو نہ ہو یہ کوئی سچ بولنے والا ہے قتیل
جس کے ہاتھوں میں قلم پاؤں میں زنجیریں ہیں
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایا نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
کیا ملا آخر تجھے، سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دلِ ناداں، تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا
اف یہ سناٹا کہ آہٹ تک نہ ہو جو جس میں مخل
زندگی میں اس قدر ہم نے سکوں پایا نہ تھا
خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم
حال دل کہنے کے قابل کوئی ہمسایا نہ تھا