صحنِ امروز میں بچپن کا اُجالا مانگوں
تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں
Printable View
صحنِ امروز میں بچپن کا اُجالا مانگوں
تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں
بہرِ عرفان، عطا زیست مکّرر ہو اگر
میں جو مانگوں تو فقط دیدۂ بینا مانگوں
ہونٹ مانگوں وہ تپش جن سے، سخن کی جھلکے
اور درونِ رگِ جاں، خون مچلتا مانگوں
حرفِ حق منہ پہ جو ہے، اُس کی پذیرائی کو
پیشِ فرعون، خدا سے یدِ بیضا مانگوں
جس نے دی عمر مجھے، وام ہی، چاہے دی ہے
وہ سخی مدِّ مقابل ہو تو کیا کیا مانگوں
جس پہ ٹھہرے نہ کوئی چشمِ تماشا ماجدؔ
لفظ در لفظ وہ معنی کا اُجالا مانگوں
جو بھی دیکھے اُسے صنّاع مرا، یاد آئے
میں سرِ خاک بس ایسا قدِ بالا مانگوں
غیر پر اتنا اعتبار نہ کر
یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر
گل پریشاں ہوا مہک کھو کر
حالِ دل تو بھی آشکار نہ کر
میں گیا وقت جا چکا ہوں، مرے
لوٹ آنے کا انتظار نہ کر