چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ میرے گھر
سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گیا
Printable View
چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ میرے گھر
سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گیا
وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مال اندیش
انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا
تم اپنے ساتھ ہی تصویر اپنی لے جاؤ
نکال لیں گے کوئی اور مشغلہ دل کا
اتنا ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا
وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے
تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا
نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
جس نے دل کھویا اسی کو کچھ ملا
فائدہ دیکھا ۔ اسی نقصان میں
سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں
اے حضرت دل !جائیے ۔ میرا بھی خدا ہے
بے آپ کے رہنے کا نہیں کام مرا بند
نہ نکلا کوئی بات کا اپنی پورا
مگر ایک نکلا تو منصور نکلا