Originally Posted by
intelligent086
عبد القادر کے نام
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط
اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں
اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق
سنگ امروز کو آئینۂ فردا کر دیں
جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو
تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں
اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
رخت جاں بت کدۂ چیں سے اٹھا لیں اپنا
سب کو محو رخ سعدی و سلیمی کر دیں
دیکھ! یثرب میں ہوا ناقۂ لیلی بیکار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
بادۂ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں
گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ
چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں
شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں
خود جلیں ، دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں
''ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع
سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع''