گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی
کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا
چاپ یہ کس کی میری ہر رہگزر میں رہ گئی
گونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
کیا صدا اس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی
آ رہی ہے اب بھی دروازے سے ان ہاتھوں کی باس
جذب ہو کر جن کی ہر دستک ہی در میں رہ گئی
اور تو موسم گزر کر جا چکا وادی کے پار
بس زرا سی برف ہر سوکھے شجر میں رہ گئی
رات در یا میں پھر اک شعلہ سا چکراتا رہا
پھر کوئی جلتی ہوئی کشتی بھنور میں رہ گئی
رات بھر ہوتا رہا ہے کن خزانوں کا نزول
موتیوں کی سی جھلک ہر برگِ تر میں رہ گئی
لوٹ کر آئے نہ کیوں جاتے ہوئے لمحے عدؔیم
کیا کمی میری صدائے بے اثر میں رہ گئی
دل کھنچا رہتا ہے کیوں اس شہر کی جانب عدیم
جانے کیا شے اس کی گلیوں کے سفر میں رہ گئی
جو دیا تو نے ہمیں و ہ صورتِ زر رکھ لیا
تو نے پتھر دے دیا تو ہم نے پتھر ر کھ لیا
سسکیوں نے چار سو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اس کی گود میں سر رکھ لیا
گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
جنگلوں کا مور ہم نے گھر کے اندر رکھ لیا
میرے بالوں پہ سجا دی گرم صحراؤں کی دھول
اپنی آنکھوں کے لیے اس نے سمندر رکھ لیا
درز تک سے اب نہ پھوٹے گی تمنا کی پھوار
چشمۂ خواہش پہ ہم نے دل کا پتھر رکھ لیا
وہ جو اڑ کر جا چکا ہے دور میرے ہاتھ سے
اس کی اک بچھڑی نشانی، طاق میں پر رکھ لیا
دید کی جھولی کہیں خالی نہ رہ جائے عدؔیم
ہم نے آنکھوں میں تیرے جانے کا منظر رکھ لیا
پھینک دیں گلیاں برونِ صحن سب اس نے عدیم
گھر کہ جو مانگا تھا میں نے، وہ پسِ در رکھ لیا
Re: گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
Re: گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
Quote:
Originally Posted by
intelligent086
بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی
کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا
چاپ یہ کس کی میری ہر رہگزر میں رہ گئی
گونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
کیا صدا اس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی
آ رہی ہے اب بھی دروازے سے ان ہاتھوں کی باس
جذب ہو کر جن کی ہر دستک ہی در میں رہ گئی
اور تو موسم گزر کر جا چکا وادی کے پار
بس زرا سی برف ہر سوکھے شجر میں رہ گئی
رات در یا میں پھر اک شعلہ سا چکراتا رہا
پھر کوئی جلتی ہوئی کشتی بھنور میں رہ گئی
رات بھر ہوتا رہا ہے کن خزانوں کا نزول
موتیوں کی سی جھلک ہر برگِ تر میں رہ گئی
لوٹ کر آئے نہ کیوں جاتے ہوئے لمحے عدؔیم
کیا کمی میری صدائے بے اثر میں رہ گئی
دل کھنچا رہتا ہے کیوں اس شہر کی جانب عدیم
جانے کیا شے اس کی گلیوں کے سفر میں رہ گئی
جو دیا تو نے ہمیں و ہ صورتِ زر رکھ لیا
تو نے پتھر دے دیا تو ہم نے پتھر ر کھ لیا
سسکیوں نے چار سو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اس کی گود میں سر رکھ لیا
گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
جنگلوں کا مور ہم نے گھر کے اندر رکھ لیا
میرے بالوں پہ سجا دی گرم صحراؤں کی دھول
اپنی آنکھوں کے لیے اس نے سمندر رکھ لیا
درز تک سے اب نہ پھوٹے گی تمنا کی پھوار
چشمۂ خواہش پہ ہم نے دل کا پتھر رکھ لیا
وہ جو اڑ کر جا چکا ہے دور میرے ہاتھ سے
اس کی اک بچھڑی نشانی، طاق میں پر رکھ لیا
دید کی جھولی کہیں خالی نہ رہ جائے عدؔیم
ہم نے آنکھوں میں تیرے جانے کا منظر رکھ لیا
پھینک دیں گلیاں برونِ صحن سب اس نے عدیم
گھر کہ جو مانگا تھا میں نے، وہ پسِ در رکھ لیا
umda intekhab
thanks
Re: گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
Quote:
Originally Posted by
BDunc
V nice
Quote:
Originally Posted by
Dr Danish
umda intekhab
thanks