-
تاریخ سے باہر ایک آدمی
دنوںکے گرد آلودہ جھروکے سے
میںاس کو دیکھتا ہوں
چھتکے اوپر
تارپر پھیلے ہوئے کپڑوں کے پیچھے
بےصدا پرچھائیوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے
اورنیچے، اجنبی گلیوں میں
قدموںسے لپٹتی دھول ہے
تاریخچلتی ہے
دھمکسے کہنہ دیواریں لرزتی ہیں
گزرتاوقت سنگ و خشت سے آنکھیں رگڑتا ہے
دنوںکے گرد آلودہ جھروکے سے
کوئیلمحہ، پلستر کا کوئی ٹکڑا اکھڑتا ہے
بدککر اسپ شاہی بھاگ اٹھتا ہے
دریچوںاور دیواروں کی درزوں سے
کئیچیخیں نکلتی ہیں
منڈیریںکانپ جاتی ہیں
دنوںکے گرد آلودہ جھروکے سے
میںاس کو دیکھتا ہوں
سرجھکائے بے خبر چلتے ہوئے
لشکرکے بیچوں بیچ
بوسیدہقبا پہنے
غلاموںکے ہجوم نا مشخص میں ۔
دنوںکے گرد آلودہ جھروکے سے
میںاس کو دیکھتا ہوں
تارکولیراستوں پر
دھوپسے بچنے کی خاطر
ٹینکے چھجوں کے نیچے
یاکبھی شاموں کے کم گہرے اندھیرے میں
کتابوںکی دکانوں پر
٭٭٭