مَندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
مَندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل
اس مہلتِ دو روزہ میں خطرے ہزار ہیں
اچھا ہے رہ سکو جو خبردار آج کل
اوباشوں ہی کے گھر تجھے پانے لگے ہیں روز
مارا پڑے گا کوئی طلب گار آج کل
ملنے کی رات داخلِ ایام کیا نہیں
برسوں ہوئے کہاں تئیں اے یار آج کل
گلزار ہو رہی ہے مرے دم سے کُوئے یار
اک رنگ پر ہے دیدۂ خوں بار آج کل
کعبے تلک تو سنتے ہیں ویرانہ و خراب
آباد ہے سو خانۂ خمار آج کل
حیران میں ہی حال کی تدبیر میں نہیں
ہر ایک شہر میں ہے یہ آزار آج کل
اچھا نہیں ہے میرؔ کا احوال ان دنوں
غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آج کل
Re: مَندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
Umda Intekhab
sharing ka shukariya:)
Re: مَندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
پسند اور خوب صورت آراء کا بہت بہت شکریہ