اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک
اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک
آشوبِ نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک
تصویر کی سی شمعیں خاموش جلتے ہیں ہم
سوزِ دروں ہمارا آتا نہیں زباں تک
روتے پھریں ہیں لوہو اک عمر اس گلی میں
باغ و بہار ہی ہے جاوے نظر جہاں تک
بے لطف تیرے کیوں کر تجھ تک پہنچ سکیں ہم
ہیں سنگِ راہ اپنے کتنے یہاں سے واں تک
مانند طیرِ نو پر اُٹھے جہاں گئے ہم
دشوار ہے ہمارا آنا پھر آشیاں تک
تن کام میں ہمارے دیتا نہیں وہی کچھ
حاضر ہیں میرؔ ہم کو اپنی طرف سے جاں تک
Re: اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک
Umda Intekhab
sharing ka shukariya:)
Re: اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک
پسند اور خوب صورت آراء کا بہت بہت شکریہ