کیوں کے نکلا جائے بحرِ غم سے مجھ بیدل کے پاس
کیوں کے نکلا جائے بحرِ غم سے مجھ بیدل کے پاس
آ کے ڈوبی جاتی ہے کشتی مری ساحل کے پاس
ہے پریشاں دشت میں کس کا غبارِ ناتواں
گرد کچھ گستاخ آتی ہے چلی محمل کے پاس
بوئے خوں آتی ہے بادِ صبح گاہی سے مجھے
نکلی ہے بے درد شاید ہو کسو گھائل کے پاس
آہ نالے مت کیا کر اس قدر بے تاب ہو
اے ستم کش میرؔ ظالم ہے جگر بھی دل کے پاس
Re: کیوں کے نکلا جائے بحرِ غم سے مجھ بیدل کے پا
Umda Intekhab
sharing ka shukariya:)
Re: کیوں کے نکلا جائے بحرِ غم سے مجھ بیدل کے پا
پسند اور خوب صورت آراء کا بہت بہت شکریہ