ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز
غنچے چمن چمن کھلے اس باغ دہر میں
دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز
احوال نامہ بر سے مرا سن کے کہہ اُٹھا
جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجور کیا ہنوز
توڑا تھا کس کا شیشۂ دل تُو نے سنگ دل
ہے دل خراش کُوچے میں تیرے صدا ہنوز
بے بال و پر اسیر ہوں کنجِ قفس میں میرؔ
جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز
Re: ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
Umda Intekhab
sharing ka shukariya:)
Re: ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
پسند اور خوب صورت آراء کا بہت بہت شکریہ