ایسی گلی اک شہرِ اسلام نہیں رکھتا
ایسی گلی اک شہرِ اسلام نہیں رکھتا
جس کُوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا
آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں اے گل
آغاز مرے غم کا انجام نہیں رکھتا
ناکامیِ صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہ
اب جی سے گزر جانا کچھ کام نہیں لگتا
ہو خشک تو بہتر ہے وہ ہاتھ بہاراں میں
مانند نے ِ نرگس جو جام نہیں رکھتا
یوں تو رہ و رسم اس کو اس شہر میں سب سے ہے
اک میرؔ ہی سے خط و پیغام نہیں رکھتا
Re: ایسی گلی اک شہرِ اسلام نہیں رکھتا
Awsome Sharing Keeo It up bro
Re: ایسی گلی اک شہرِ اسلام نہیں رکھتا
Umda intekhab
Share karne ka shukariya :)
Re: ایسی گلی اک شہرِ اسلام نہیں رکھتا
پسند اور خوب صورت آراء کا بہت بہت شکریہ