اُس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا
اُس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا
مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا
پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو
اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا
تاچرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا
کرنے سے اب دعا کے میں ہاتھ ہی اُٹھایا
آخر کو مر گئے ہیں اُس کی ہی جستجو میں
جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اُسے نہ پایا
لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں
اک روگ میں بِساہا جی کو کہاں لگایا
Re: اُس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا
Awsome Sharing Keeo It up bro
Re: اُس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا
پسند اور خوب صورت آراء کا بہت بہت شکریہ