جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
ہر زخمِ جگر داورِ محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
صد موسمِگل ہم کو تہِ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
اس رنگ سے چمکے ہے پلک پر کہ کہے تو
ٹکڑا ہے مرا اشک عقیقِ جگری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا
*****
Re: جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
Awsome Sharing Keeo It up bro
Re: جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
Umda Intekhab
sharing ka shukariya:)
Re: جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا