کبھی تو محیطِ حواس تھا سو نہیں رہا
کبھی تو محیطِ حواس تھا سو نہیں رہا
میں تیرے بغیر اداس تھا سو نہیں رہا
مری وسعتوں کی ہوس کا خانہ خراب ہو
میرا گاؤں شہر کے پاس تھا سو نہیں رہا
تیری دسترس میں تھیں بخششیں سو نہیں رہیں
میرے لب پہ حرف سپاس تھا سو نہیں رہا
مرا عکس مجھ سے الجھ پڑا تو گرہ کھلی
کبھی میں بھی چہرہ شناس تھا سو نہیں رہا
میرے بعد نوحہ بہ لب ہوائیں کہا کریں
وہ جو اک دریدہ لباس تھا سو نہیں رہا
میں شکستہ دل ہوں صفِ عدو کی شکست پر
وہ جو لطفِ خوف و ھراس تھا سو نہیں رہا
***
Re: کبھی تو محیطِ حواس تھا سو نہیں رہا
بہت اچھی اور لاجواب شیئرنگ کا شکریہ
Re: کبھی تو محیطِ حواس تھا سو نہیں رہا
Quote:
Originally Posted by
KhUsHi
بہت اچھی اور لاجواب شیئرنگ کا شکریہ
@KhUsHi
پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ
Re: کبھی تو محیطِ حواس تھا سو نہیں رہا
boht hi kamal ki sharing ki hai share karne ka shukrya