نہال ہاشمی کی ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ میں &am
پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے توہینِ عدالت کے مقدمے میں سزایافتہ سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو سزا کی مدت مکمل ہونے کے فوراً بعد ایک مرتبہ پھر عدلیہ مخالف تقریر پر وضاحت کے لیے انھیں بدھ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
نہال ہاشمی کو سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ توہینِ عدالت کے جرم کا مرتکب پاتے ہوئے ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جو 28 فروری کو مکمل ہوئی تھی۔تاہم رہائی کے فوراً بعد نہال ہاشمی کی جانب سے عدلیہ کے لیے ایک مرتبہ پھر انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کو نہال ہاشمی کی جانب سے توہینِ عدالت کے مقدمے میں سنائی گئی سزا کے خلاف نظرِثانی کی اپیل کی سماعت کی۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نہال ہاشمی نے جیل سے رہائی کے بعد ججوں کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کی ہے۔عدالت نے ان کے وکیل کامران مرتضیٰ سے دریافت کیا کہ آیا انھوں نے اپنے موکل کا رہائی کے بعد دیا گیا بیان سنا ہے۔ان کے انکار کے بعد چیف جسٹس کے حکم پر نہال ہاشمی کی ویڈیو چلائی گئی۔اس پر نہال ہاشمی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ ان پر شرمندہ اور معافی کے طلبگار ہیں تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ ان کی معافی کی ضرورت نہیں بلکہ نہال ہاشمی خود آ کر وضاحت کریں۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ نہال ہاشمی نے خود اپنے لیے یہ راستہ چنا ہے، لہٰذا وہ خود ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔بعد ازاں عدالت نے سماعت بدھ سات مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی۔خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کا ہی ازخود نوٹس لیا تھا جس میں انھیں پاناما لیکس کیس میں تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کو دھمکیاں دیتے سنا جا سکتا تھا۔اسی ویڈیو پر انھیں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی اور پانچ برس کے لیے کسی بھی عوامی عہدہ سنبھالنے کے لیے نااہل بھی قرار دیا گیا تھا۔نہال ہاشمی وہ دوسرے رکنِ پارلیمان ہیں جنھیں توہینِ عدالت کے کیس میں سزا سنائی گئی۔ اس سے قبل سنہ 2012 میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی توہینِ عدالت کا مرتکب پایا گیا تھا۔
نہال ہاشمی کون ہیں؟
مسلم لیگ ن میں سینیٹر نہال ہاشمی کی پہچان متوسط طبقے سے تعلق اور نواز شریف کے ساتھ بے لوث وابستگی ہے۔
وہ اس وقت مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے جب سندھ اور بالخصوص کراچی میں ان کی جماعت کے نام لیوا بہت کم تھے اور جو یا تو جیل میں تھے یا جیل جانے سے بچنے کے لیے چھپتے پھرتے تھے۔ایسے وقت میں نہال ہاشمی، جو کہ کراچی میں ذیلی عدالتوں میں وکالت کرتے تھے، طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں نواز شریف کی عدالت حاضری کے وقت ان کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ نہال ہاشمی نواز شریف کے قریب تو بہت تھے لیکن کبھی بھی ان کے سنجیدہ مشاورتی حلقے میں شامل نہیں رہے۔ وجہ اس کی، ان کے مزاج کا سیلانی پن بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ پارٹی میٹنگز میں بھی بعض اوقات ایسی بات کر جاتے جس پر ان کے علاوہ شرکا کو بھی خفت کا سامنا کرنا پڑتا۔یہی جذباتی پن بلآخر ان کے جیل جانے کا باعث بنا۔ گذشتہ سال جب مئی میں انھوں نے پاناما کیس کے دوران اس کیس کی تفتیش کرنے والے جے آئی ٹی اور عدلیہ کے ارکان کے بارے میں توہین اور دھمکی آمیز تقریر کی، تو مسلم لیگ ن نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے سینیٹ سے استعفیٰ طلب کیا۔ انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا اور نواز شریف سے ملاقات کا وقت مانگا جو انھیں نہیں ملا۔کہا جاتا ہے کہ اس کٹھن وقت میں انھیں مسلم لیگ کی صرف ایک خاتون شخصیت کی حمایت حاصل رہ گئی تھی جو اس وقت پارٹی میں دوسری اہم ترین فرد سمجھی جاتی ہیں۔