http://dunya.com.pk/news/taza/small_...fb5sql9Rdc.jpg
ایک وقت تھا جب میدان جنگ میں لاکھوں سپاہی خون کے بہہ جانے سے موت کا شکار ہو جاتے تھے لیکن ڈاکٹر چارلس آرڈر یو نے بے شمار جانوں کو اپنے بلڈ بنک کی ایجاد سے بچایا۔ ڈاکٹر چارلس نے تحقیق کے بعد ثابت کیا کہ بلڈ کے اجزاء کو الگ کر کے اور فریز کر کے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اسی تکنیک کو اس نے بلڈ بنک بنانے میں استعمال کیا۔ طب کی تعلیم پا کر ڈاکٹر چارلس جب کولمبیا یونیورسٹی میں بطور محقق تعنیات ہوئے تو انہوں نے خون کے اجزاء کو الگ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ انہوں نے ریڈ بلڈ سے پلازما الگ کر کے فریز کر دئیے۔ ان کی اس ایجاد نے دنیا بھر میں دھوم مچا دی اور انہی دنوں دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی۔ ڈاکٹر چارلس کو میدان جنگ میں طلب کر لیا گیا اور انہوں نے’’ بلڈ فاربرٹش ‘‘نامی پروجیکٹ شروع کیا اور تقریباً 15 ہزارلوگوں سے خون لیکر محفوظ کر لیا۔ اس کامیاب تجربے سے ہی امریکہ میں ریڈ کراس بلڈ بنک کی بنیاد رکھی گئی۔ 1941ء میں امریکن ریڈ کراس نے فیصلہ کیا تھا کہ پورے امریکہ سے زخمی فوجیوں کے لیے پلازما جمع کیا جائے گا۔ اس جنگ کے بعد ڈاکٹر چارلس کو ہاروڈ یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی میں سرجری کے شعبہ کی سربراہی دے دی گئی۔ یہ عظیم ڈاکٹر1950ء میں ایک سڑک کے حادثے میں شدید زخمی ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی موت خون کے زیادہ بہہ جانے سے واقع ہوئی اور انہیں بر وقت نیا خون نہ دیا جا سکا۔ تا ہم اس بات کی صداقت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔