-
علمی و ادبی لطائف
http://dunya.com.pk/news/special_fea...1_46465586.jpg
پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ۔ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خاں صاحب کو تقریر کے لئے بلایا ،تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا: ’’ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے؟‘‘ پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے: ’’مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی؟‘‘ اس پر مولانا گڑ بڑا گئے اور بولے: ’’بھئی ،یہی کوئی 75سال ہو گی۔‘‘ پطرس کہنے لگے: ’’ مولانا جب آپ نے 75 سال یہ فرق جانے بغیر گزار دئیے، تو دو چار سال اور گزار لیجئے ‘‘۔ ………… علامہ انور صابری ایک زمانے کے مقبول ترین شعرا میں تھے۔ شاعر انقلاب ان کا لقب تھا اور شاعری بھی بڑی انقلابی تھی۔ تحریک ِآزادی کے ہراوّل میں شامل تھے۔ مشاعروں کی جان تھے۔ بڑے تن توش کے آدمی تھے اوررنگ گہرا سانولا تھا۔ ڈاڑھی سر سید کی ڈاڑھی سے بس انیس بیس تھی اور بہ سبب خضاب شب دیجور کو شرماتی تھی۔ بدیہہ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ ہم نے خود دیکھا بیٹھے بیٹھے بیس تیس شعر کہہ ڈالتے، سامنے پڑے ہوئے کسی بھی کاغذ پر لکھ کر وہیں چھوڑ کر اٹھ جاتے تھے۔ اس وجہ سے نہ جانے کتنا کلام لاپتا اور ضائع ہو گیا۔ نبض ِدوراں کے عنوان سے ان کی کچھ منتخب غزلوں اور نظموں کا ایک مجموعہ شائع ہوا تھا، اب وہ بھی معدوم ہے۔ انور صابری کے لطیفے بھی بہت مشہور ہیں۔ ایک بار وہ پاکستان آئے ہوئے تھے۔ راولپنڈی کے مشاعرہ میں شرکت کے بعد تفریحاً بس سے مری جانے کی ٹھانی اور تنہا ہی نکل کھڑے ہوئے۔ بس میں ان کے ساتھ والی نشست پر انہی کے سے جان جثہ کی ایک بزرگ خاتون آ کر بیٹھ گئیں۔ انور صابری صاحب نے وقت گزاری کے لئے ان خاتون سے پوچھا: ’’آپ کہاں جا رہی ہیں ؟‘‘ خاتون نے کہا: ’’ میں مری جا رہی ہوں‘‘۔ صابری صاحب خاموش بیٹھے رہے۔ اب ان خاتون نے پوچھا: ’’اور بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘ انور صابری صاحب نے بڑی متانت سے جواب دیا:’’ میں مرا جا رہا ہوں !‘‘ ٭…٭…٭