لمحے بوجھل قدموں، ٹھٹھرے سالوں جیسے
کام مرے، کانٹوں میں اُلجھے بالوں جیسےمچھلیوں جیسی سادہ منش امیدیں اپنیعیّاروں کے ہتھکنڈے ہیں جالوں جیسےدھُند سے کیونکر نکلے پار مسافت اُن کیرہبر جنہیں میّسر ہوں نقالوں جیسےاپنے یہاں کے حبس کی بپتا بس اتنی ہےآنکھوں آنکھوں اشک ہیں ماجد چھالوں جیسے٭٭٭