نقش بنا لے جو بھی خود کو مانی لگتا ہے
جس کا سخن ہو اُس کو وہ، لاثانی لگتا ہےکم کم ایسا ہوتا ہے جب، آگ میں پھول کھلیںمعجزہ ایسا ہو تو وہ، یزدانی لگتا ہےہم تم سارے، خانہ بر دوشوں سے ہیں جن کوجو موسم بھی آئے وہ، بُحرانی لگتا ہےہم کہ جنہیں حبسِ بے جا میں رکھا گیا، ہمیںاپنا سُندر دیس بھی، کالا پانی لگتا ہےجنگ و جدال کو گردانیں بس کھیل تماشا وُہفرعونوں کو اپنا بدن کب، فانی لگتا ہےآج بھی ماجدؔ انسانوں سے انسانوں کا چلنحیوانی لگتا ہے، غیر انسانی لگتا ہے٭٭٭
٭