خواب میں آئے بہ دستِ نامہ بر آتی نہیں
شہرِ خوباں سے کوئی اچّھی خبر آتی نہیںچہچہاتی ہیں تمنّاؤں کی چڑیاں چار سُوشب بھی کچھ گہری نہیں لیکن سحر آتی نہیںراہِ فرش و عرش جب ہوتی ہے قدموں کے تلےزندگی میں وہ گھڑی بارِ دگر آتی نہیںدیکھ کر لپکے جو ہونٹوں پر تبسّم کے گلابکوئی تتلی اب سرِ شاخِ نظر آتی نہیں٭٭٭