ٹھہراؤ کہیں صورتِ سیماب نہ آئے
کیوں چَین تجھے اے دلِ بے تاب! نہ آئےشکوہ جو سرِ اشک ہے لفظوں میں نہ ڈھالوکائی کہ جو تہہ میں ہے، سرِ آب نہ آئےکیا لفظ تھے ہم اور غلط العام ہوئے کیاکوئی بھی لگانے جِنہیں اعراب نہ آئےوہ غار نشیں ہم ہیں تصوّر میں بھی جن کےبہروپ میں جگنو کے بھی مہتاب نہ آئےرفعت جو ذرا سر کے جھکانے سے دلائیںماجد تمہی اب تک، وہی آداب نہ آئے٭٭٭