سامان ِ روشنی شب ہجراں نہ ہو سکے
سامان ِ روشنی شب ہجراں نہ ہو سکے
پلکوں پہ یہ چراغ فروزاں نہ ہو سکے
اب کے بھی سوگوار رہا موسم بہار
شا خوں پہ پھول اب کے بھی خنداں نہ ہو سکے
کرتے رہے جو چاند ستاروں سے گفتگو
وہ آشنائے عظمت انساں نہ ہو سکے
ہر سمت چاندنی ہمیں ملتی خلوص کی
پورے محبتوں کے یہ ارماں نہ ہو سکے
نقد نظر لٹاتے رہے اہل دل مگر
انساں کی آبرو کے نگہباں نہ ہو سکے
نجمہ نوائے شوق ہے بے کیف بے اثر
گر نغمہ ریز تارِ رگِ جاں نہ ہو سکے
کو الجھنوں میں قادر امکاں نہ ہو سکے
پی کر غم حیات ، گل افشاں نہ ہو سکے
گمنامیوں کے دشت میں گم ہو کے رہ گئے
وہ جو حریفِ گردش دوراں نہ ہو سکے
ایسے ہر ایک گل کو چمن سے نکال دو
جو فصل گل میں چاک گریباں نہ ہو سکے
پیدا نہ جب تلک ہو دل میں خمار عشق
عقدے غم حیات کے آساں نہ ہو سکے
کچھ اہل کارواں بھی تھے بے ذوقَ آرزو
کچھ ہم بھی بے عمل تھے ، حدی خواں نہ ہو سکے
گزرے ہیں نجمہ جان سے ہم جن کی چاہ میں
اپنی جفاﺅں پر وہ پشیماں نہ ہو سکے
Re: سامان ِ روشنی شب ہجراں نہ ہو سکے
Re: سامان ِ روشنی شب ہجراں نہ ہو سکے
Re: سامان ِ روشنی شب ہجراں نہ ہو سکے