-
نقوش کی ابتداء
http://dunya.com.pk/news/special_fea...4FscOME6D3.jpg
محمد طفیل
جب ہاجرہ مسرور ہندوستان سے واردِ پاکستان ہوئیں، تو میری رفاقت میں’’ نقوش‘‘ کا ڈول ڈالا گیا۔ منصوبہ احمد ندیم قاسمی نے بنایا چنانچہ اپنے اپنے حصے کا کام تینوں نے بانٹ لیا۔ ’’نقوش‘‘ کے ابتدائی شمارے بڑے اچھے نکلے، اُٹھان مرعُوب کن تھی۔ پھر ایکا ایکی ’’نقوش‘‘ اپنی ادبی ڈگر سے ہٹ کر سیاست کا موڑ مُڑ گیا۔ میں نے دبے لفظوں میں احتجاج کیا۔ اُدھر دوووٹ تھے۔ اِدھر اکیلا، بالآخر ندیم صاحب نے فرمایا، ہم اپنی روش کو ترک نہیں کر سکتے جب خیالات میں ہم آہنگی نہ رہی، تو نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ نقوش‘‘ کچھ عرصے کے لیے بند ہو گیا۔ بعد میں ندیم صاحب ہی کے مشورے سے ’’ نقوش‘‘ کاسید وقار عظیم کی ادارت میں پھرا جرا ہوا، تو وہ بھی صرف ایک ہی سال تک ساتھ دے سکے۔ وہ موڑ ایسا تھا کہ ’’نقوش‘‘ اگر ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا، تو بھی کچھ عجب نہ ہوتا۔ اس لیے کہ اس کے مالی خسارے اتنے تھے کہ جو ایک چھوٹے سے ادارہ کے لیے نا قابلِ برداشت تھے۔ یکم مارچ1948ء کو ’’ نقوش‘‘ کا پہلا شمارہ نکلاتھا۔ یکم مئی 1951ء کو میں نے اس کی ادارت سنبھالی۔ اس وقت میں نے طے یہ کیا تھا کہ کشتیوں کو آگ لگادُوں تا کہ واپسی کی گنجائش نہ رہے، یعنی میں نے اپنا سارا سرمایہ اور اپنی ساری توانائیاں دائو پہ لگا دیں۔ اپنے پاس سرمایہ ہی کیا تھا کہ جس پر ناز ہوتا، لے دے کے ایک جذبہ ہی تھا، جس کی بدولت ادب کے سمندر میں کود گیا تھا۔ اس وقت سب یہی کہتے تھے کہ میرا قدم خودکشی کے مترادف ہے، لیکن میں یہ سوچتا تھا کہ اگر خود کشی ہی میرے خوابوں کا مقدر ہے، تو مجھے خود کشی بھی کر کے دیکھنا چاہیے۔ ’’نقوش‘‘ میرے لیے کیا کچھ ہے یا اس کے لیے میں نے کیا کچھ کیا، اس کی تفصیل خوش کن نہیں، تکلیف دہ ہے۔ وہ رسالہ جس کی پاک و ہند میں دھوم ہے، جس کا کوئی مثل نہیں، میرے لیے دو روٹیوں کا بھی بندوبست نہ کر سکا۔ اس کے باوجود میں نے اس کی رفاقت سے منہ نہ موڑا۔ جوانی اس کی نذر کر دی۔ صندلیں بدنوں میں بھی ترغیب تھی، مگر میں نے نظر اٹھا کے دیکھنے کو بھی، اپنے مقصد سے دوری جانا، یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی دھن میں بہت کچھ کر ڈالا۔ اگر کوئی میری کاوشوں کو ’’بہت کچھ‘‘ نہیں کہہ سکتا، تو پھر وہ بہت کچھ کر کے دکھلادے۔ زبانی ڈینگیں میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، پھر بات یہ بھی نہیں کہ میں اس کلمے کو کسی غرور کے ماتحت لکھ رہا ہوں۔ غرور کا زور تو اسی دن ٹوٹ گیا تھا، جس دن میں نے ’’ نقوش‘‘ سے یارانہ گانٹھا تھا۔ جس دن سے میں ادارتی کرسی پہ جلوہ افروزہوا ہوں۔ اس دن سے لے کر آج کے دن تک، میرے لیے یہ مسئلہ ادب کی پل صراط سے گزرنے کے مترادف رہا ہے۔ نہ تن کا ہوش نہ من کا اور نہ ہی دھن کا،جس دن میں نے اس کام کے لیے قلم اُٹھایا تھا۔ اس دن میرے ذہن میں اس کام کا ایک خاکہ بھی تھا، جس میں، میں بعد کے برسوں میں رنگ بھرتا رہا۔ میں نے ابھی، اپنی ادبی مسافت کا پورا سفر طے نہیں کیا، لیکن منزل کی جانب رواں دواں ضرور ہوں، پھر یہ بھی کہ جس جوش و خروش کے ساتھ میرا پہلا قدم اٹھا تھا۔ اسی ولولے کے ساتھ آج بھی سر گرم سفر ہوں۔ وسائل نے قدم پکڑے ہوں تو پکڑے ہوں، جذبہ نے ہار نہیں مانی،جو کام اب تک ہو چکے ہیں، ان پہ خوش تو ہوں، لیکن ان پہ فخر نہیں۔ فخر تو اس امر پہ ہوگا کہ زندگی کا آخری لمحہ بھی ’’نقوش‘‘ کی گود میں گزرے۔بہر حال میری ادبی کارگزاریوں اور اس کی قیادت کا اندازہ آج نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کا تعین تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ ٭…٭…٭
-
Re: نقوش کی ابتداء
Nice Sharing
Thanks for sharing