جھنگ کا تاریخی ورثہ
http://dunya.com.pk/news/special_fea...Kx9KQt8FrT.jpg
انصر خان
جھنگ شہر سے تقریباً 90 کلومیٹر جنوب کی جانب واقع ایک قصبے میں مشہور تابعی حضرت پیر عبدالرحمن سے منسوب دربار ہے تاہم مزار کے ساتھ واقع تاریخی کھنڈرات اس قصبے کو مزید اہمیت بخشتے ہیں۔یہ کھنڈرات مزار سے ایک فرلانگ مشرق اور دریائے چناب کے مغربی کنارے سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق یہ کھنڈرات دو ہزار اسی فٹ لمبے، گیارہ سو فٹ چوڑے اور ایک سو بیس فٹ بلند ہیں۔ان کے ایک حصے میں ایسی دیوار دریافت ہوئی ہے جس کی چوڑائی 8 فٹ سے بھی زیادہ ہے اور اس میں 14×16 سائز کی اینٹیں لگائی گئی ہیں۔مشہور تاریخ دان اور کتاب ’’تاریخ جھنگ‘‘ کے مصنف بلال زبیری کے مطابق یہاں موجود گہرے غاروں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی دور میں یہ کھنڈرات سانپوں اور اژدھوں کا مرکز رہے ہیں۔ جبکہ یہاں ایک ایسے اژدھے کے آثار بھی ملے ہیں جس کا سر دربار اور دم کھنڈرات میں موجود تھی۔ ان کھنڈرات کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے ایک بات بڑی مشہور ہے کہ آج سے تیرہ سو سال قبل اس وقت کے راجہ سبل نے قلعہ کی تعمیر شروع کروائی جونہی کوئی دیوار بنائی جاتی وہ گر جاتی۔ راجہ کے درباری کاہنوں نے اسے کسی بیوہ کے شیر خوار بچے کو دیوار میں زندہ دفن کرنے کا مشورہ دیا۔ راجہ نے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے بچے کو دیوار میں چنوایا اور قلعے کی تعمیر شروع کر دی۔وہ کہتے ہیں کہ اس بیوہ کی فریاد پر حضرت پیر عبدالرحمن نے مسلمانوں کے ایک لشکر کے ساتھ مل کر راجہ سبل سے لڑائی کی اور اس کے قلعے کو تہس نہس کر دیا۔صدیوں پرانی اس لڑائی اور قلعے کا ذکر تاریخ کی قدیم کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ پنڈت وشوا ناتھ اپنی کتاب’’ارلی ہسٹری آف انڈیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مذکورہ کھنڈرات کا نام پہلے’’قلعہ ذرور‘‘ تھا۔ جسے راجہ سبل کا محفوظ ترین قلعہ تصور کیا جاتا تھا اور لڑائی کے بعد تباہ کر دیا گیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ مزار پیر عبدالرحمن کی قدیم مسجد جسے گرا کر دوبارہ تعمیر کیا گیا اس کی دیواروں میں وہی اینٹیں استعمال کی گئیں جو کھنڈرات سے دریافت ہوئیں۔ 2010ء میں یہاں کھدائی کے دوران سونے اور تانبے کے سکے دریافت ہوئے جن پر ہاتھی اور شیر کے نشانات تھے۔یہ جھنگ بلکہ پاکستان کا ایک تاریخی ورثہ ہیں۔ حکومت کو ان کے تحفظ کے لیے تمام ممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔ ٭…٭…٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔