اپنے ہی شیشے کے گھر کو پتھر مارنے
آزادی مارچ کی طرح عمران خان کا 30نومبر کا جلسہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے اعصاب پر بری طرح سوار ہو چکا ہے۔ عمران خان اور انکے رفقاءاس جلسے کی کامیابی کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں ۔ حکومت اپنے اعلانات اور ممکنہ اقدامات یہی کچھ کررہی ہے ۔ عمران خان کہتے ہیں ”اس مرتبہ کارکن بھیڑوں کی طرح مار نہیں کھائیں گے۔“ گویا بھِڑوں کی طرح لڑ جائینگے۔ پرویز رشید اس پر کہتے ہیں ”عمران نے کچھ کیا توچودھری نثار تیار بیٹھے ہیں 30نومبر کو عمران کی گرفتاری ہو سکتی ہے۔ انتشار پھیلانے والوں کی گردن دبوچ لیں گے۔“پہلے تو پرویز رشید کے سُشتہ سخن کو داد دینی چاہیے،دوسرے وہ راتوں رات اپنا قول بھول گئے۔ ایک روز قبل کہا تھا ”عمران خان کو نہ گرفتار کرنا ہے اور نہ کیا ہے۔“ چودھری نثار علی خان تو دھرنے کے شروع میں بھی بہت کچھ کرنے کو تیار بیٹھے تھے لیکن کچھ نہ کر سکے بلکہ ان کو کچھ کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ اگر وہ اپنی پلاننگ کے تحت دھرنوں کو تتر بتر کرنے کی کوشش کرتے تو دھرنے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے البتہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خود کہاں ہوتے، پرویز رشید کہاں ہوتے اور شریف برادران کہاں ہوتے؟؟؟ اگر کہیں نہ ہوتے تو اقتدار کے ایوانوں میں نہ ہوتے۔ چودھری نثار نے خود کہا ہے کہ ہم نے کارروائی کی تو فون آ گیا۔کہاں سے فون آیا؟ وہیں سے جن کے بندے ن لیگ اور تحریک انصاف کے مابین ہونیوالے مذاکرات کے دو ادوار میں موجود تھے ۔ عمران خان نے انہی لوگوں کو جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنانے کی تجویز دی تو اس پر برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مذاکرات میں فوج کے نمائندوں کو تحریک انصاف تو نہیں لے جا سکتی تھی ۔ جوڈیشل کمیشن میں ججوں کے علاوہ لوگوں کے شامل ہونے کی مثالیں بھی موجود ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن میں جسٹس جاوید اقبال کی سر براہی میں تشکیل دیئے گئے کمیشن کے دیگر ارکان میںلیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم احمد، سابق سفارتکار اشرف جہانگیر قاضی اور خیبر پختونخواہ کے سابق ڈی آئی جی عباس خان شامل تھے۔ نرگس سیٹھی اس کمیشن کی سیکرٹری تھیں۔
عمران خان کی گرفتاری کی باتیں ہو رہی ہیں، آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی تڑی لگائی جا رہی ہے۔ چودھری نثار کو حکومت نے فری ہینڈ دیدیا ہے۔ اگر واقعی انکوفری ہینڈ دیا گیا تو پھر سمجھ لیں کہ اسلام آباد میں جگہ جگہ کنٹینروں کی فصیلیں کھڑی کر دی جائیں گی۔ آنسو گیس کے شیل چلیں گے ۔گولیا برسیں گی۔ جنونیوں کو پولیس نانی یاد کرائے گی اور عمران خان پس زنداں ہونگے ۔ اسکے بعد ضروری نہیں کہ حکومتی چراغوں میں روشنی بھی رہے۔ عمران خان اور انکی پارٹی اب اُس مقام سے بہت آگے اور اس سطح سے بہت اوپر ہے جس پر 30اکتوبر 2011ءکے جلسے کے موقع پر تھی۔ اس روز مینار پاکستان میں تحریک انصاف نے بہت بڑا جلسہ کیا جس کے بعد عمران خان کے قافلے میں لوگ شامل ہوتے گئے، اب یہ واقعی جنونیوں اور سرفروشوں کا کارواں بن چکا ہے۔ اس جلسے پر کروڑوں روپے خرچ کر کے لوگوں کو لایا گیا تھا۔ قصبوں اور دیہات کے ہر عہدیدارکو بسیں کرا کے لوگوں کو لانے کیلئے 60ہزار سے لیکر لاکھوں روپے ادا کئے گئے تھے ۔ اس وقت بھی سوال اٹھا تھا کہ رقم کہاں سے آئی۔30اکتوبر کے ڈیڑھ دو ہفتے بعد دبئی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پی ٹی آئی کے دو نوجوان عہدیداروں نے بتایا کہ دبئی کے ایک ڈونر نے اڑھائی کروڑ روپیہ جلسے کیلئے بھجوایا تھا۔
30اکتوبر 2011ءکو عمران خان کے جلسے میں لوگوں کو لایا گیا تھا۔ اب لوگ خود مختصر نوٹس پر آ رہے ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ ۔ گرفتاری کی صورت میں عمران خان ہیرو تو نہیں بنیں گے البتہ انکے ساتھ لوگ کتنے ہیں یہ ضرور واضح ہو جائیگا۔ دھرنوں اور جلسوں کو دیکھ کر جن حکمرانوں کی ٹانگیں کانپتی ہیں، ان سے عمران خان کو گرفتار کرنے کی توقع کرنا حماقت ہے۔ بالفرض عمران خان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو شیخ رشید کا کم از کم یہ دعویٰ درست ہے کہ وہ ملک میں آگ لگا دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا تو شیخ رشید کو پہلے دھر لیا جائیگا۔ان پر تازہ تازہ ایک کیس درج ہوا ہے۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ننکانہ صاحب رانا نثار احمد کی عدالت میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ میں اشتعال انگیز تقریر، حکومت اور ریاست کیخلاف بغاوت کے الزام میں دائر رٹ پٹیشن پر پولیس تھانہ سٹی ننکانہ صاحب کو قانون کے مطابق مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔ شیخ رشید احمد کیخلاف رٹ پٹیشن مسلم لیگ یوتھ ونگ ضلع ننکانہ صاحب کے صدر چوہدری امتیاز احمد کاہلوں نے اپنے وکیل میاں لیاقت علی کی وساطت سے دائر کی تھی۔ رٹ پٹیشن میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ 12نومبر کو ننکانہ صاحب میں تحریک انصاف کے جلسے میں شیخ رشید احمد نے اپنی تقریر میںجلاﺅ، گھیراﺅ، مرو، مارو کا حکم دے کر عوام میں انتشار پھیلایا اور لوگوں کو خانہ جنگی کی طرف راغب کر کے حکومت اور ملک کےخلاف بغاوت کی ہے۔
عمران خان کے شہر شہر بڑے اجتماعات عمران کی مقبولیت کی گواہی ہے۔ گرفتاری کی صورت میں ہر شہر سے عمران کے حامی نکل پڑے تو ان کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو گا۔ عمران خان اگر مقبولیت کے عروج پر ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم لیگ ن مقبولیت کی پستی میں گر گئی ہے۔ وہ بھی بڑے جلسے کر سکتی ہے۔ پنجاب میں کرےگی تو کہا جائیگا کہ ماسٹر اور پٹواری جمع کر لئے‘ یہ کراچی اور پشاور میں اپنی مقبولیت ثابت کر سکتی ہے۔
نگران دور میں بجلی اور گیس کی قلت کو دو آشتہ کر دیا گیا۔ یہ ایک پلاننگ کے تحت پیپلز پارٹی سے عوام کی نفرتیں دوچند کرنے کی کوشش تھی جس میں منصوبہ ساز کامیاب رہے۔ آج جبکہ عمران خان کے دھرنوں اور جلسوں کا موسم ہے تو بجلی کی سردیوں کے باوجود لوڈ شیڈنگ بڑھا دی گئی ہے۔ دو ماہ قبل اندھا دھند بل بھیجے گئے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ریلیف دینے کےلئے کمیٹی بنائی اب خواجہ آصف کہتے ہیں کہ اوور بلنگ ہوئی ہی نہیں لہٰذا ریلیف کیسا! پنجاب میں 4ماہ کیلئے سی این جی بنداور گھروں میں پریشر کم کر دیا گیا۔ نواز لیگ کھوج لگائے کہ بجلی و گیس کی شدید قلت اس کیخلاف سازش تو نہیں؟جیسی نگرانوں نے کی اور مصدق ملک وزیر اعظم کے مشیر بنے اب ترقی پا کر وزیر اعظم کے ترجمان لگ گئے ہیں۔ کل کی حکومت میں ہو سکتا ہے خواجہ صاحب آج کی بد ترین لوڈ شیڈنگ کی بجلی و پانی کے نگران وزیر کی طرح قیمت وصول کرتے پائے جائیں۔
عمران خان جہاں اور جیسے چاہتے ہیں ان کو جلسہ کرنے دیں۔ ایک خفیہ سول حساس ادارے نے رپورٹ دی یا حکمران پارٹی نے اپنی طرف سے چھوڑ دی ہے کہ 30نومبر کو تحریک انصاف اہم سرکاری عمارتوں کا گھیراﺅکر سکتی ہے۔ اگر واقعتاً یہ اطلاع درست ہے تو بھی انکے جلسے کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ ان عمارتوں کو وہ اٹھا کر نہیں لے جائیں گے۔ ایک لمحہ کیلئے فرض کر لیں کہ تحریک انصاف کے جنونی وزیر اعظم ہاﺅس پارلیمنٹ ہاﺅس سمیت دیگر اہم بلڈنگوں میں گھس جاتے ہیں تو کیا وہ اقتدار پر قابض ہو جائیں گے؟ پی ٹی وی ہیڈکواٹر میں دھرنے والے گُھسے تو اس پر قادری اور عمران خان مبارکبادیں دے اور لے رہے تھے۔ اس قبضے کے مضمرات کو دیکھ کر دونوں نے کہا کہ وہ انکے لوگ نہیں تھے۔ اس اقدام سے انکی اتنی بد نامی ہو چکی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت سرکاری عمارات کی حفاظت کا خود خیال رکھے گی۔
تحریک انصاف کا ایجنڈہ پرامن دھرنوں، جلسوں اور دیگر اقدامات سے پورا نہیں ہو سکتا۔ عمران خان حکومت کو للکار کر مشتعل کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت نے اشتعال میں آ کر کچھ کر بیٹھی تو یہ عمران کے ایجنڈے کے عین مطابق ہو گا۔ عمران خان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے اقتدار کا سورج غروب ہو سکتا ہے۔ حکومت کو عمران خان کی زبانی کلامی اینٹ کا جواب بالکل بھی نہیں دینا چاہئے چہ جائیکہ اسکے ہاکس اور شکرے اینٹ کے جواب میں پتھر اٹھائے پھر رہے ہیں۔ یوں سمجھ لیںکہ حکمران شیشے کے گھر میں بیٹھے ہیں اور اسی پر پتھر مارنے کیلئے سرگرداں ہیں۔
Re: اپنے ہی شیشے کے گھر کو پتھر مارنے
Re: اپنے ہی شیشے کے گھر کو پتھر مارنے
Re: اپنے ہی شیشے کے گھر کو پتھر مارنے
Quote:
Originally Posted by
Moona