دیدہء حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا
ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا
حوصلہ کیا، کیا نہ کیا، کیا کیا
آنکھ لگنے سے سب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیامرگئے اس کے لب جاں بخش پر
ہم نے علاج آپ ہی اپنا کیابجھ گئی اک آہ میں شمعِ حیات
مجھ کو دمِ سرد نے ٹھنڈا کیاغیر عیادت سے برا مانتے
قتل کیا آن کے اچھا کیاان سے پری وش کو نہ دیکھیے کوئی
مجھ کو مری شرم نے رسوا کیازندگی ہجر بھی اک موت تھی
مرگ نے کیا کارِ مسیحا کیاپان میں یہ رنگ کہا آپ نے
آپ مرے خون کا دعویٰ کیاجور کا شکوہ نہ کروں ظلم ہے
راز مرا صبر نے افشا کیاکچھ بن آتی نہیں کیا کیجیے
اس کے بگڑنے نے کچھ ایسا کیاجائے تھی تیری مرے دل میں سو ہے
غیر سے کیوں شکوہء بے جا کیارحمِ فلک اور مرے حال پر
تو نے کرم اے ستم آرا کیاسچ ہی سہی آپ کا پیماں ولے
مرگ نے کب وعدہء فردا کیادعویِٰ تکلیف سے جلاد نے
روزِ جزا قتل پھر اپنا کیامرگ نے ہجراں میں چھپایا ہے منہ
لو منہ اسی پردہ نشیں کا کیادشمنِ مومن ہی رہے بت سدا
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا