قصہ قوم سبا

(سبا ۱۹-۱۵:۳۴ )
ترجمہ
قوم سبا کے لئے ان کے مسکن میں ہی ایک نشانی موجود تھی۔ اس مسکن کے دائیں، بائیں دو باغ تھے۔ (ہم نے انھیں کہا تھا کہ) اپنے پروردگار کا دیا ہوا رزق کھاؤاور اس کا شکر ادا کرو۔ پاکیزہ اور ستھرا شہر ہے اور معاف فرمانے والا پروردگار۔مگر ان لوگوں نے سرتابی کی تو ہم نے ان پر زور کا سیلاب چھوڑ دیا۔ اور ان کے دونوں باغوں کو دو ایسے باغوں میں بدل دیا جن کے میوے بدمزہ تھے اور ان میں کچھ پیلو کے درخت تھے کچھ جھاؤ کے اور تھوڑی سی بیریاں تھیں۔ہم نے یہ سزا انھیں ان کی ناشکری کی وجہ سے دی تھی اور ہم ناشکروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ہم نے ان کی بستی اور اس بستی کے درمیان جس میں ہم نے برکت رکھی تھی، کھلے راستہ پر کئی بستیاں آباد کردی تھیں اور ان میں چلنے کی منزلیں مقرر کردی تھیں کہ ان میں رات دن بلاخوف و خطر امن سے سفر کرو۔ مگر وہ کہنے لگے: اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر کی مسافتیں دور دور کردے اور (یہ کہہ کر) انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ چنانچہ ہم نے انھیں افسانے بنا دیا اور تتر بتر کر ڈالا۔ اس میں یقینا ہر صابر و شاکر کے لئے کئی نشانیاں ہیں۔
تفصیل و وضاحت
قوم سبا کی علاقہ عرب کا جنوب مغربی علاقہ تھا۔ اور یہی علاقہ آج کل یمن کا علاقہ کہلاتا ہے ۔ سبا دراصل سبا ایک شخص کا نام تھا جس کے دس بیٹے تھے۔ بعد میں یہی دس قیبلے بن گئے انہی میں سے چار بیٹے اپنے خاندان سمیت شام کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ اس قوم کے عروج و زوال کا زمانہ کئی صدیوں پر محیط ہے۔ایک زمانہ تھا جب تہذیب و تمدن کے لحاظ سے اسی قوم کا طوطی بولتا تھا اور روم اور یونان کی تہذیبیں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔ زراعت اور تجارت کے میدان میں ان لوگوں نے خوب ترقی کی۔ ان لوگوں کا آب پاشی کا نظام نہایت عمدہ تھا۔ اس علاقہ کے دو طرف پہاڑی سلسلے تھے۔ جگہ جگہ ان لوگوں سے بارش کا پانی روکنے اور ذخیرہ رکھنے کے لئے بند بنا رکھے تھے۔ ان کا دارالخلافہ مارب تھا اور سب سے اعلیٰ اور بڑا عظیم الشان بند بھی اسی جگہ تعمیر کیا گیا تھا جو سد بارب کے نام سے معروف تھا۔ ان کے علاقہ کے دونوں طرف پہاڑوں کے دامن میں باغات کا سینکڑوں میلوں میں پھیلا ہوا سلسلہ موجود تھا اور انسان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جس جگہ وہ کھڑاہے اس کے دونوں طرف باغات ہی باغات ہیں۔
بارشوں کے لحاظ سے یہ علاقہ کچھ اتنا زرخیز نہیں تھا۔ مگر ان لوگوں کے نظام آبپاشی کے عمدگی کی وجہ سے ملک کے اندر تین سو مربع میل کا علاقہ جنت نظیر بن گیا تھا۔ جس میں انواع و اقسام کے پھلوں کے درخت بھی تھے جن کی خوشبو سے یہ پوری سرزمین معطر بن گئی تھی اور کھیتی بھی خوب پیدا ہوتی تھی۔ اندرون ملک بخورات دارچینی، دارچینی اور کھجور کے نہایت بلند و بان درختوں کے جنگل تھے اور ان سے میٹھی میٹھی خوشبو تمام فضا کو خوشبودار بنا دیتی تھی۔ اور جب ہوا چلتی تو اس خوشبو سے سب لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔ اسی علاقہ کو اللہ تعالیٰ نے بَلَدَۃٌ طَیِّبَۃٌکے الفاظ سے تعبیر فرمایا۔ یعنی سرسبزی۔ زرخیزی فضا کا خوشبو سے ہر وقت معمور رہنا، موسم اور آب و ہوا میں اعتدال، رزق کی فراوانی اور سامان عیش و شرت کی بہتات یہ وہ نعمتیں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی تھیں۔ مارب کے ایک پہاڑی علاقہ میں گنجان درختوں کے درمیان حکمرانوں کے محلات واقع تھے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کر رکھی تھی۔
پھر جب یہ قوم اپنی خوشحالی میں ہی مست ہو کر رہ گئی اور دنیا کے مال و دولت اور اس کی دلفریبیوں میں مستغرق ہو کر اپنے منعم حقیقی کو یکسر بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء مبعوث فرمائے۔ کہتے ہیں وقتاً فوقتاً ان کی طرف ۱۳ انبیاء مبعوث ہوئے تھے۔ لیکن ہر بدمست قوم کی طرف انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ ان کی اس معاشی ترقی اور زرعی ترقی کا اصل سبب تو ہمارا اپنا نظام آب پاشی یا ہماری اپنی ذہانت اور محنت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کیا دخل ہے۔ تو انہوں نے انبیاء کی دعوت کو رد کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں سنبھلنے کی کافی مہلت دی لیکن انہوں نے اس سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ تو آخر ان پر اللہ کی گرفت کا وقت آگیا۔ ان کا سب سے بڑا اور عالیشان بند (ڈیم) مارب میں تھا جس میں بہت سے لوہے کے دروازے لگے ہوئے تھے۔ جنہیں بوقت ضرورت اٹھا لیا جاتا اور پانی چھوڑ دیا جاتا ان دروازوں کا دوسرا بڑا فائدہ یہ تھا کہ وہ جس طرح چاہتے پانی کا رخ موڑ لیتے اور نہروں کے ذریعہ قابل کاشت زمین کو سیراب کر لیتے تھے۔ اسی بند میں نیچے رخنے پڑنے شروع ہوگئے اوپر سے اللہ تعالیٰ نے زور دار بارش برسا دی اور پانی اس قدر وافر مقدار میں آجمع ہوا جس نے اس بند کو توڑ پھوڑ دیا۔ اس کے پانی میں اتنی فراوانی اور بہاؤ میں اتنی شدت تھی جس سے باقی بند بھی از خود ٹوٹتے چلے گئے اور یہ سارا قابل کاشت علاقہ زیر آب آگیا۔ جس سے فصلیں اور کھیتیاں سب کچھ گل سڑ کر تباہ و برباد ہوگئیں۔ جب کچھ مدت بعد زمین خشک ہوئی تو پورے آب پاشی کے نظام کی تباہی کے باعث اس سرزمین میں کوئی چیز بھی بار آور نہ ہوسکتی تھی۔ اب وہی سرزمین جو سونا اگلا کرتی تھی اس سرزمین پر جھاڑ جھنکار، خار دار پودے، تھوہر کے درخت اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں از خود پیدا ہوگئیں۔ جنہیں اکھاڑے بغیر نئی فصل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور یہ خاصا محنت طلب کام تھا آجا کے اگر کوئی کھانے کی چیز وہاں اگی تووہ چند بیریوں کے درخت تھے جن سے وہ کسی حد تک اپنا پیٹ بھرسکتے تھے۔ یہ تھا ان کی زرعی ترقی کا حشر جس پر وہ اس قدر پھولے ہوئے تھے۔
یہ سزا کچھ قوم سبا سے ہی مختص نہ تھی بلکہ جو قوم بھی اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد اپنے محسن حقیقی کو بھول جاتی ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے سرتابی کی راہ اختیار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ اس قوم کو ایسے ہی انجام سے دوچار کر دیتا ہے۔
ان کی ترقی اور خوشحالی کی دوسری وجہ ان کا تجارتی نظام تھا۔ ایسی سرزمین جسے ہم نے برکت دے رکھی ہے کے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان دنوں یہ چار ماہ سفر تھا اور اس تجارتی شاہراہ کو اللہ تعالیٰ نے امام مبین کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے اسی تجارتی شاہراہ پر قریش کے تجارتی قافلے مکہ سے شام تک سفر کرتے تھے۔ یہ تجارتی شاہراہ اس لحاظ سے تھی کہ برلب ِ سڑک اور نزدیک نزدیک آبادیاں موجود تھیں۔ جہاں مسافروں کو کھانا پانی مل سکتا تھا ایک بستی پر انسان پہنچ جائے تو اگلی بستی سامنے نظر آنے لگتی تھی ۔اس شاہراہ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ کوئی شخص جس وقت بھی آرام کرنا چاہتا تو وہ کرسکتا تھا اور آرام کرنے کے لئے اگلی منزل اس کے قریب ہی ہوتی تھی۔ پھر چونکہ اس شاہراہ پر بکثرت آمدروفت رہتی تھی اس لئے لوٹ مار کا بھی اس پر اتنا خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ جتنا کہ عرب کے دوسرے علاقوں میں تھا۔ اس لحاظ سے ان کا یہ تجارتی سفر دوسرے علاقوں کی نسبت بہت آسان بھی تھا اور پرامن بھی۔
جب ان لوگوں کی زرعی معیشت تباہ ہوگئی تو یہی چیز ان کی تجارتی ترقی کی تباہی کا باعث بن گئی۔ جب اپنے مال کی پیداوار ہی ختم ہوجائے تو پھر تجارت کیسی؟ اگر بیرون ملک کی چیزیں ہی خریدی جائیں اور بیرون ملک ہی بیچی جائیں تو ان سے آخر کتنا منافع ہوسکتا ہے۔ اور اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کثیر آبادیاں جو اس شاہراہ کے کنارے آباد تھیں۔ وہاں سے اٹھ کر دوسرے مقامات کی طرف چلی گئیں کیونکہ ان کی معیشت کا انحصار بھی زیادہ تر انہی تجارتی قافلوں کی اشیائے خوردنی کی خرید و فروخت پر تھا۔ اس طرح سبا کی تمام نو آبادیاں تباہ و برباد ہو کر رہ گئیں۔
تذکیری و اخلاقی پہلو
۱۔ خوشحالی کی آزمائش
یہ دنیا اللہ تعالی نے آزمائش کے اصول پر بنائی ہے۔ یہاں کا ملنا بھی آزمائش اور کھونا بھی امتحان۔ جب کسی قوم پر خوشحالی آتی ہے تو اس کے ساتھ ہی وہاں کے لوگ مال و دولت کے نشہ میں مست ہوجاتے ہیں۔آرام طلبی ، عیش پرستی، خدا کی یاد سے غفلت اور دنیا کو حقیقت سمجھ لینا وہ چند مرائض ہیں جو خوشحال اقوام میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ لوگ خود کو عقل کل سمجھ لیتے ہیں۔ ان سب کا نتیجہ مادہ پرستی، بے ایمانی، ہوس زر اور ناشکری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس اخلاقی انحطاط کے نتیجے میں یا تو اللہ کی جانب سے کوئی قدرتی آفت مسلط کرکے اس قوم کی ناک رگڑ سی جاتی ہے یا پھر کوئی دوسری قوم اس پر قبضہ کرکے اس کی جگہ لے لیتی ہے۔
۲۔ قوموں کا عروج وزوال
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اللہ نے فرد کی جزا و سزا آخرت تک مؤخر کی ہے لیکن قوموں کی جزا و سزا اسی دنیا میں ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جو قوم اخلاقی بنیادوں پر محکم ہوتی ہے وہ باقی رہتی ہے جبکہ جو قوم اس پہلو سے روگردانی اختیار
کرتی ہے اسے فنا کردیا جاتا ہے۔
خلاصہ
اللہ کا بندے کو نوازنا اور محروم کرنا، دونوں ہی آزمائش کے طریقے ہںی۔
خوش حالی مںس انسان خود کو عقل کل سمجھ بٹھتا ہے۔
بندے کی نا شکری پر اللہ چاہے تو دناو مںل حساب چکا دے یا صرف آخرت مںس ۔
قوم کی اجتماعی نا شکری کا حساب دنا ہی مں۔ چکا دیا جاتا ہے۔
قوم کی بربادی کی خاطریا تو اسے یکسر ختم کر دیا جاتا ہے یا کسی دوسری قوم کو اس پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔
ترتیب و تحریر : پروفیسر محمد عقیل
نوٹ: اس تحریر کا ترجمہ و وضاحت مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی تفسیر تیسیر القرآن سے لیا گیا ہے



Similar Threads: