CaLmInG MeLoDy (07-05-2017),Dr Danish (07-27-2017)
کپتان شاہراہ قراقرم کے سفر پر عمران خان کی آپ بیتی کا ایک حصہ
جب میں جواں سال تھا تو شاہراہ قراقرم کا رخ کیا کرتا جو بھارت ، پاکستان اور چین کی سرحدوں پر واقع ہے۔ اپنی بہترین چھٹیاں میں نے ان پہاڑی سلسلوں میں بسر کیں۔ کوہ نوردی کے لیے یہ دنیا کے بہترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہاں دنیا کی بلند چوٹیاں ہیں۔ 24,000فٹ سے بھی زیادہ اونچی، ان میں دنیا کا دوسرا سب سے بلند پہاڑ کے ٹو بھی شامل ہے۔ یہی دنیا کی چھت ہے، 9000فٹ کی بلندی پر ڈومل وادی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی خوبصورت جگہ میں نے نہیں دیکھی۔ جہاں فوج والے سرما میں سکینگ کے برف پر پھسلنے کے مقابلے منعقد کراتے ہیں۔ ان بستیوں کے مکین گرم جوش اور بے حد محبت کرنے والے ہیں۔ اب کا حال معلوم نہیں لیکن تب سیاح وہاں نہ جاتے تھے۔ شہروں کے شوروشغب سے دور، ایک دودھیا پانی والی ندی کے دونوں طر ف پھیلی وسعتوں کو سرخ اور سفید پھولوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ ہر صبح جاگ کرمیں نظارہ کیا کرتا اوراپنے آپ سے کہتا: یہی تو جنت ہے۔ خود کو مجھے یقین دلانا پڑتا کہ میں خواب نہیں دیکھ رہا۔ اس علاقہ کے لوگ پرتپاک اور دوستانہ مزاج رکھتے ہیں۔ جدید سیاحت زدہ علاقوں کے تصنع سے پاک۔ ایک سفر کے دوران دوجیپوں میں سے ایک خراب ہوگئی۔ ایک نوجوان نے پیشکش کی کہ شب بسری کے لیے ہم اس کے گائوں چلیں۔ چالیس منٹ کے بعد ہم ایک زمرد یں جھیل کے کنارے صنوبر کے درختوںسے گھرے، ایک گائوں میں پہنچے۔ بہت ہی لذیذ کھانا انہوں نے ہمیں کھلایا، جس میں کھمبیاں (Mushrooms)شامل تھیں۔ آج تک پھرایسا دسترخوان نہ دیکھا۔ چودھویں کے چاند نے جادو سا کر رکھا تھا۔ صنوبر کے درختوں میں ہوا بہتی رہی۔ جھیل کنارے رات بھر ہم جاگتے رہے، اس بے گراں جمال پہ حیران۔ پاکستان کا شمالی علاقہ سوئٹزرلینڈ سے دوگنا بڑا ہے۔ کون جانے، وہاں اس طرح سے کتنے ہی جمیل اور دلکش علاقے اور ہیں۔ میں ہنزہ کی وادیوں میں بھی ایسے ہی تجربات سے گزرا۔ 1967ء میں پہلی بار جب میں اس علاقے میں گیا تو گرم جوش دیہاتی ہمیں آڑو اور خوبانی پیش کرتے۔ اپنے گھروں میں مہمان بنانے کے لیے بے تاب سے ہو جاتے۔ انہی برف زاروں میں نادرونایاب برفانی تیندوا(Snow Leopard) پایاجاتا ہے جس کی آنکھوں میں سبز رنگ کی جھلک ہوتی ہے۔ ایک چرواہا اس تیندوے کے دوبچے اٹھائے سابق ریاست نگر کے میر کوپیش کرنے آیا۔ 1974ء تک گلگت کے جنوب میں واقع وہ اس مختصر سی ریاست کا حکمران رہا تھا۔ یہ گلگت بلتستان کے شمال میں واقع ہے۔ تب ہنزہ دور دراز کاایک مقام تھا۔ پہاڑوں پر پتلی پرانی سڑکیں، زاویہ درزاویہ، ہزاوں فٹ کی بلندی سے خوف زدہ کردینے والے مناظر۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانے کی جیپوں میں بہت مشکل سے یہاں پہنچا جاسکتا۔ کبھی نیچے نگاہ پڑتی تو برباد ہوجانے والی جیپوں کے ڈھانچے نظر آتے۔ پھر قراقرم تعمیر ہوئی، جسے شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے۔ ہزاروں برس اس راہ سے تجارت ہوتی رہی لیکن خطرہ مول لینے والے ہی اس پر سفر کرسکتے تھے۔ اب یہ باقاعدہ سڑک ہے۔ دنیا کا نواں عجوبہ، اس لیے کہ یہ دنیا کی بلندترین شاہراہ ہے۔ کرۂ ارض پر کسی بھی سڑک کی تعمیر اتنی دشوار نہ رہی ہوگی۔ پاکستان اور چین کو اس کام میں بیس برس لگے اور نو سو زندگیاں اس کی نذر ہوئیں۔ یہ دنیا کے حسین ترین پہاڑ ہیں۔ لوگوں کا رویہ اب بھی دوستانہ ہے؛ اگر چہ ترقی کے عمل نے اپنی قیمت وصول کی ہے۔ آبادی میں ہولناک اضافے کے علاوہ ٹمبر مافیا نے بے دردی سے درخت کاٹ کر جنگل ویران کر دیئے ہیں۔ ٭٭٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
CaLmInG MeLoDy (07-05-2017),Dr Danish (07-27-2017)
Hmmmmmmmm. Achi post. Zara bhai and family here in pak. Tabhi me busy. Bas do teen din aur busy
Dr Danish (07-27-2017),intelligent086 (07-06-2017)
Dr Danish (07-27-2017)
Thanks for sharing
intelligent086 (08-01-2017)
رائے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks