Moona (03-23-2016)
ایک عربی اخبار گلف نیوز نے نہایت خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عمران نیا پاکستان نہیں بنا رہے بلکہ وہ گزشتہ چار ماہ سے جاری احتجاجی سیاست اور دھرنے دے کر پاکستان کو اپاہج ضرور بنا رہے ہیں۔ یہ تبصرہ ایک ایسے غیر جانبدار اخبار کا ہے جس کو نہ تو حکومت سے کوئی مفاد ہے اور نہ ہی اسے پاکستان کی سیاست سے کوئی دلچسپی ہے لیکن اس کی بات سو فیصد درست ہے کیونکہ گزشتہ چار ماہ کے دوران دھرنوں جلسوںاور احتجاجی سیاست کی وجہ سے پاکستان کی صنعت، تجارت اور معیشت کو ساڑھے 8 ارب کا نقصان پہنچ چکا ہے، یہ بات کراچی چیمبر ز آف کامرس کے صدر افتخار احمدنے ایک نیوز کانفرنس میں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ بزنس کیمونٹی عمران کی احتجاجی سیاست کو سختی سے نہ صرف مسترد کرتی ہے بلکہ شہروں کو بند کرنے کے اعلان کی بھی مذمت کرتی ہے ۔ اگر زبردستی کاروباری ادارے اور دکانیں بند کروانے کی کوشش کی گئی تو بزنس کمیونٹی کے لوگ اس کی مزاحمت کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتجاجی سیاست سے نہ صرف تاجروں اور صنعتکاروں کو شدید نقصان پہنچا ہے بلکہ دیہاڑی دار لوگوں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت پہنچ چکی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کی بات میں سو فیصد سچائی ہے کیونکہ عمران کی میں ناں مانوںکی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف اندرون ملک کساد بازاری، بے روزگاری اور معیشت زوال پذیر ہوئی ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار جو پاکستان میں بجلی گیس معدنیات کی تلاش، ریلوے اور شاہراہوںکی تعمیر میں دلچسپی رکھتے تھے انہوں نے بھی سیاسی رسہ کشی کے ماحول سے تنگ آ کر مالی تعاون کا ہاتھ کھینچ لیا ہے اس سے بڑی بے عزتی کی بات اور کیا ہو گی کہ وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف نے جرمن چانسلر سے ملاقات میں جرمن سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی درخواست کی تو چانسلر نے پریس کے سامنے یہ کہہ کر پاکستان کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب پاکستان پُرامن ملک بن جائے گا تو جرمن سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ لگانے سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے ہر دلعزیز صدر نے دھرنوں کی وجہ سے اپنا دورہ پاکستان ملتوی کر دیا تھا اس دورے میں 32 ارب ڈالر کے نہ صرف معاہدوں پر دستخط ہونے تھے بلکہ چینی صدر نے کاشغر سے گوادر تک موٹر ویز کے منصوبے کا افتتاح کے ساتھ ساتھ بجلی کے کئی منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھنا تھا۔ چین ہمارا قابل اعتماد دوست ہے لیکن عمران اور قادری کی احتجاجی سیاست کے نتیجے میں موٹر ویز جیسے کثیر المقاصد منصوبے سمیت بجلی کے تمام منصوبوںکا افتتاح بروقت نہیں ہو سکا۔ پاکستان کا دورہ ملتوی کرنے کے بعد چینی صدر نے بھارت پہنچ کر اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ یہ تو الگ بات ہے کہ چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے حالات کچھ بھی ہوں وہ پاکستان کا ساتھ نہیں چھوڑتا اگر ایسا نہ ہوتا تو یقیناً پاکستانی صرف اور صرف عمران اور قادری کے دھرنے کی وجہ سے ایک قابل اعتماد دوست کو ہمیشہ کے لیے کھو دیتے۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت فرشتوں کی نہیں ہے بطور خاص اقربا پروری کے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے لیکن حکومتی سطح پر کرپشن کی کہانیاں بہت کم سُننے کو مل رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن 1995ءکے بعدکم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اب پاکستان 175 ممالک میں سے126 نمبر پر آ گیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف نے اگر کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن کرپشن بھی نہیںہونے دی۔ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 26 روپے کمی کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے اگر واپڈا اور اپنے انتظامی اخراجات کو کم کر کے بجلی کے ریٹ بھی کم کر دے تو عمران کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اس میں شک نہیں کہ ملک اس وقت دھینگا مشتی اور سیاسی بے چینی کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ بدترین معیشت، غیر ملکی بھاری قرضوں، حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی اور گیس کے نرخوں اور لوڈشیڈنگ نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا کے رکھ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران، شیخ رشید (شیخ چلی) جیسے دوستوںکے نرغے سے باہر نکل کر احتجاجی سیاست کو ختم کریں اور شہروں کو بند کرنے جیسے اعلانات سے اجتناب کرتے ہوئے حقیقی اور جائز مطالبات پر کھلے دل سے مذاکرات کریں۔ اپنی احتجاجی تحریک کو سڑکوں کی بجائے پارلیمنٹ تک محدود کر دیں اور خیبر پی کے میں کرپشن کو ہر سطح پر ختم کر کے پولیس سمیت انتظامیہ کو اس قدر عوام کا خادم بنا دیں کہ دیگر صوبوںکے لوگ بھی اسے مثال بنا کر عمران کو الیکشن میں ووٹ دینے پر مجبور ہو جائیں لیکن حالیہ گیلپ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق عمران کی مقبولیت میں قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں کوئی قابل ذکر کمی واقع ہوئی ہے۔ سروے کے مطابق اگر اب بھی نئے الیکشن کروا دیئے جائیں تو انتخابی نتائج مئی 2013ءسے مختلف نہیں ہوں گے۔ اس لمحے یہ خوش آئند بات ہے کہ شاہ محمود قریشی جیسے دھیمے لہجے میں بات کرنے والے سمجھ دار شخص نے مذاکرات شروع ہونے پر احتجاجی تحریک کو فی الوقت ملتوی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں شہروں کو بند کرنے کی دھمکیاں دینے، ریاست کیخلاف بغاوت کرنے، ٹیکسوں اور بجلی گیس کے بلوں کی عدم ادائیگی کی ترغیب دینے کی بجائے عمران کو غیرجانبدار الیکشن کمیشن کے قیام، بجلی کے نرخوں میں پچاس فیصد کمی، کرپشن کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کی طرح حکومتی اثر و رسوخ سے مبرا بااختیار غیر جانبدار ادارہ قائم کر کے گزشتہ 25 سال کا ہر سرکاری محکمے کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروانے، غریبوں کے لیے آٹا، گھی، چاول، تیل اور دالیں نصف ریٹ پر ڈپو کے ذریعے فراہم کرنے جیسے مطالبات پر اصرار کر کے انہیں منوانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے جس سے ملک اور عوام کو بھی کچھ فائدہ ہو۔
Similar Threads:
Moona (03-23-2016)
Bohat Khoob
@intelligent086 Thanks 4 informative sharing
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
intelligent086 (03-23-2016)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks