SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: اعصاب پہ گھوڑا ہے سوار

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      اعصاب پہ گھوڑا ہے سوار



      علامہ اقبال نے ان شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس کھایا ہے جن کے اعصاب پہ عورت سوار ہے۔ مگر ہمارے حبیب لبیب اور ممدوح بشارت فاروقی ان بدنصیبوں میں سے تھے جن کی بے داغ جوانی اس شاعر کے کلام کی طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اور لطف دونوں سے پاک ہے! بشارت کی ٹریجیڈی شاعروں، آرٹسٹوں اور افسانہ نویسوں سے کہیں زیادہ گھور گھمبیر تھی۔ اس لیے کہ دُکھیا کے اعصاب پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی سوار رہا، سوائے عورت کے۔ اس دور میں جسے ناحق جوانی دیوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان کے اعصاب پر بالترتیب ملا، ناصح، بزرگ، ماسٹر فاخر حسین، ممتحن، مولوی مظفر، داغ دہلوی، سیگل اور خسرِ بزرگوار سوار رہے۔ خدا خدا کرکے وہ اسی ترتیب سے ان پر سے اترے تو گھوڑا سوار ہوگیا۔ وہ سبز قدم ان کے خواب، ذہنی سکون اور گھریلو بجٹ پر جھاڑو پھیر گیا۔ روز روز کے چالان، جرمانے اور رشوت سے وہ اتنے عاجز آچکے تھے کہ اکثر کہتے کہ اگر مجھے چوائس دی جائے کہ تم گھوڑا بننا پسند کرو گے یا اس کا مالک یا کوچوان تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے SPCAکا انسپکٹر بننا پسند کروں گا جو ان تینوں کا چالان کرتا ہے۔ سنگین غلطی کرنے کے بعد پس بینی (hingsight)کا مظاہرہ کرنے والوں کی طرح وہ اس زمانے میں چوائس کی بہت بات کرتے تھے۔ مگرچوائس ہے کہاں؟ مہاتما بدھ نے تو دو ٹوک بات کہہ دی کہ اگر چوائس دی جاتی تو وہ پیدا ہونے سے ہی انکار کر دیتے۔ لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ گھوڑے کو اگر چوائس دی جاتی تو وہ اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی بننا پسند کرے گا۔ مہاتما بدھ بننا ہرگز پسند نہیں کرے گا کیوں کہ وہ گھوڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا جیسا گوتم بدھ نے یشودھرا کے ساتھ کیا۔ یعنی انہیں غافل سوتا چھوڑ کر بیابان کو نکل جائے یا کسی جاکی کے ساتھ بھاگ جائے۔ گھوڑا کبھی اپنے گھوڑے پن سے شرمندہ نہیں ہوتا۔ نہ کبھی اس غریب کو فلکِ کج رفتار سے شکوہ ہوگا۔ نہ اپنے سوارِ گردوں رکاب سے کوئی شکایت۔ نہ تن بہ تدبیر، بسیار جو مادائوں کے ہرجائی پن کا کوئی گلہ۔ یہ تو آدمی ہی ہے جو ہر دم اپنے آدمی پن سے نادم و نالاں رہتا ہے اور اس فکر میں غلطاں ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا گھوڑا تانگہ رکھبت اور اسے ٹھکانے لگانے کے بعد بشارت میں بہ ظاہر دو متضاد تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پہلی تو یہ کہ گھوڑے اور اس کے دور و نزدیک کے تمام متعلقات سے ہمیشہ کے لیے نفرت ہوگئی۔ تنہا ایک لنگڑے گھوڑے نے انہیں جتنا نقصان پہنچایا‘ اتنا تمام ہاتھیوں نے مل کر پورس کو نہیں پہنچایا ہوگا۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ سواری کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ آدمی کو ایک دفعہ سواری کی عادت پڑجائے تو پھر اپنی ٹانگوں سے ان کا فطری کام لینے میں توہین کے علاوہ نقاہت بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کی لکڑی کی بزنس اب کافی پھیل گئی تھی جسے وہ کبھی دوڑ دھوپ کا پھل اور کبھی اپنے والد بزرگوار کی جوتیوں کا طفیل بتاتے تھے، جب کہ خود بزرگوار اسے بھاگوان گھوڑے کے قدموں کی برکت پر محمول کرتے تھے۔ بہرصورت، قابلِ غور بات یہ کہ ان کی ترقی کا محرک اور سبب کبھی پیروں اور جوتیوں کی سطح سے اوپر نہیں گیا۔ کسی نے بلکہ خود انہوں نے بھی ذہانت اور فراست کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا۔ لکڑی کی بِکری بڑھی تو دفتروں کے چکر بھی بڑھے۔ اسی قدر سواری کی ضرورت میں اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں کمپنیوں میں رشوت نہیں چلتی تھی۔ لہٰذا کام نکالنے میں کہیں زیادہ ذلت و خواری ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں ایمان دار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی، خوردہ گیر اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمان داری سے عاجز نہ کردے، وہ اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ بے ایمان افسر سے بزنس مین باآسانی نمٹ سکتا ہے، ایمان دار افسر سے اسے ہول آتا ہے۔ چنانچہ صورت یہ تھی کہ کمپنی سے لکڑی اور کھوکھوں کا آرڈر لینے کے لیے پانچ چکر لگائیں تو بل کی وصولی کے لیے دس چکر لگانے پڑتے تھے۔ جب سے کمپنیاں لیچڑ ہوئیں، انہوں نے دس پھیروں کا کرایہ اور محنت بھی لاگت میں شامل کرکے قیمتیں برھا دیں۔ ادھر کمپنیوں نے ان کی نئی قیمتوں کو لُٹس قرار دے کر دس فی صد کٹوتی شروع کردی۔ بات وہیں کی وہیں رہی۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ ہر دو فریق ایک کو لالچی، کائیاں اور چور سمجھ کر لین دین کرنے لگے۔ اور یہ چوکس اور کامیاب بزنس کا بنیادی اصول ہے۔ ( ’’آبِ گم‘‘ میں شامل مضمون’’کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…٭


      Similar Threads:

    2. #2
      UT Poet www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Dr Maqsood Hasni's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      2,263
      Threads
      786
      Thanks
      95
      Thanked 283 Times in 228 Posts
      Mentioned
      73 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      82

      Re: اعصاب پہ گھوڑا ہے سوار

      achi aur rawaan dawaan tehreer hai


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: اعصاب پہ گھوڑا ہے سوار

      Quote Originally Posted by Dr Maqsood Hasni View Post
      achi aur rawaan dawaan tehreer hai





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •