SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 8 of 8

    Thread: آپ بھی باپ ہیں

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      آپ بھی باپ ہیں

      آپ بھی باپ ہیں


      جاوید چوہدری


      فلم شروع ہوئی، دس منٹ بعد تین بزرگ اٹھے اور ہال سے باہر چلے گئے، اگلے دس منٹ میں تین چار اور فیملیز اٹھیں اور وہ بھی باہر چلی گئیں، وقفہ ہوا تو خواتین بھی فلم ادھوری چھوڑ کر گھروں کو روانہ ہو گئیں، ہال میں پیچھے نوجوان مرد حضرات اور میرے جیسے چند کنفیوژڈ لوگ بچ گئے اور تالیاں رہ گئیں، قہقہے رہ گئے اور فحش فقروں اور فحش حرکتوں پر جی اوئے کے فقرے رہ گئے، فلم ختم ہوئی تو میں اور میرا دوست گہرے تاسف اور بھاری دل کے ساتھ سینما سے باہر آ گئے۔
      یہ پاکستانی فلم کراچی سے لاہور تھی، میں نے فلم کی بہت تعریف سنی تھی اور میں اس تعریف سے متاثر ہو کر اپنے دوست کے ساتھ سینما پہنچ گیا، فلم اچھی تھی، اداکاری، کیمرہ ورک، لوکیشنز اور اسٹوری تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ شاندار تھیں اور ساؤنڈ کی کوالٹی بھی اچھی تھی، فلم میں بس ایک خامی تھی اور اس خامی نے اتنی اچھی فلم کا سارا تاثر برباد کر دیا، یہ خامی اس کے فحش مکالمے، ذومعنی فقرے اور چند قابل اعتراض حرکتیں تھیں، فلم کے فحش فقروں کی وجہ سے وہ تمام لوگ جو فیملیز کے ساتھ سینما آئے تھے، وہ شرمندہ بیٹھے تھے، یہ شرمندگی تھوڑی دیر چلی اور اس کے بعد فیملیز، بزرگ اور سمجھ دار لوگوں نے واک آؤٹ کرنا شروع کر دیا۔
      میرے دوست فلموں کے شیدائی ہیں، یہ بچپن سے فلمیں دیکھ رہے ہیں، یہ پاکستانی فلموں کے گولڈن ٹائم میں قمیض اتار کر دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر سینما کا ٹکٹ حاصل کرتے تھے، انھوں نے اپنی آنکھوں سے خاندان بھر کو سینما میں بیٹھتے اور فلموں کو انجوائے کرتے دیکھا، پھر انھوں نے وہ دور بھی دیکھا جب معزز لوگ سینما کے قریب سے گزرتے ہوئے شرمندہ ہو جاتے تھے، انھوں نے اردو فلموں کو پنجابی میں تبدیل ہوتے اور پھر گنڈاسے کو فلم پر قابض ہوتے بھی دیکھا، یہ اس دور کے بھی گواہ ہیں جب اسٹوڈیوز میں الو بولے اور اداکار، صداکار، کیمرہ مین، لائٹ مین اور ایکسٹرا خون تھوک تھوک کر مرے، جب سینما گھروں کی جگہ شاپنگ سینٹر بنے اور اداکاروں اور اداکاراؤں نے کوٹھیاں بیچ بیچ کر اپنا بڑھاپا کاٹا، میرے یہ دوست تھیٹروں کے زوال کے بھی گواہ ہیں، یہ اکثر لاہور کے ایک تھیٹر کا واقعہ سناتے ہیں، تھیٹر میں ایک بار ایک غیر ملکی خاتون آ گئی۔
      لاہوریوں نے خاتون کو تھیٹر شروع ہونے سے پہلے ہی گھور گھور کر بھگا دیا، میرے یہ دوست میری طرح پاکستانی فلم کی واپسی پر خوش تھے، ہم دونوں اکثر چھٹی کے دن فلم دیکھنے چلے جاتے ہیں، ہم جب اس دن باہر نکلے تو میرے دوست نے پیشن گوئی کی ہماری فلم ایک بار پھر فوت ہو جائے گی میں نے وجہ پوچھی تو ان کا جواب تھا ہماری پہلی فلم انڈسٹری کو مولا جٹ کھا گیا اور موجودہ فلم انڈسٹری ذومعنی فقروں اور فحش مکالموں کے ہاتھوں قتل ہو جائے گی میں نے اپنے دوست سے اتفاق کیا کیونکہ کراچی سے لاہور اچھی بھلی فلم تھی لیکن چند فقروں نے ہال میں موجود فیملیز کو اٹھنے پر مجبور کر دیا، یہ فقرے اگر نہ ہوتے تو بھی فلم ٹھیک ٹھاک تھی لیکن فلم ساز نے زیادہ ناظرین کے لالچ میں فلم میں وہ مسالہ ڈال دیا ۔
      جس سے فلمیں تو کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن فلم انڈسٹری تباہ ہو جاتی ہے، پاکستان اور ہندوستان دونوں خاندانی ملک ہیں، ہمارے خطے میں آج بھی خاندان مضبوط ہیں، ہم لوگ خواہ کتنے ہی ماڈرن کیوں نہ ہو جائیں، ہم ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی موجودگی میں فحش فقرہ برداشت نہیں کر سکتے، ہماری زندگی میں بیٹے کی موجودگی میں بھی ذومعنی فقرے اور ننگی حرکتوں کی گنجائش نہیں ہوتی چنانچہ بھارت اور پاکستان میں وہ فلمیں اور ڈرامے ناکام ہو جاتے ہیں جن میں ذرا سی بھی فحاشی اور ذومعنی فقرے ہوتے ہیں، بھارتی سینما دنیا کا سب سے بڑا سینما ہے۔
      بھارت میں ہر سال آٹھ سو سے لے کر ہزار تک فلمیں بنتی ہیں، بھارتی فلم انڈسٹری ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری سمجھی جاتی ہے، وہاں کھرب پتی بزنس فیملیز سے لے کر انڈر ورلڈ کے ڈان تک فلم میں سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن آپ اتنی بڑی انڈسٹری کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں، آپ انڈیا میں ہر اس فلم کو ناکام دیکھیں گے جس میں فحاشی کا عنصر موجود تھا یا پھر اس میں گالی گلوچ اور ذومعنی فقرے تھے، آپ فحاشی کے ہاتھوں ہیوی کاسٹ فلموں تک کو برباد ہوتا دیکھیں گے، آپ ان اداکاروں اور اداکاراؤں کو بھی تباہی کے گڑھے میں اترتا اور معاشرے میں ذلیل ہوتا دیکھیں گے جنہوں نے تالی اور قہقہہ مروانے کے لیے ایک بار اخلاقیات کے تخت سے فرش پر پاؤں رکھ دیا تھا، پاکستان کی فلم اور تھیٹر بھی اس حقیقت کی بدترین مثال ہیں، ہماری انڈسٹری کو فحاشی، لچر پن، گنڈاسے اور مجرے نے تباہ کر دیا تھا، ہم لوگ فنون لطیفہ میں بھارت سے بہت آگے ہیں۔
      آپ خدا کے لیے اور بول جیسی فلمیں دیکھیں، یہ پاکستانی سینما کے زوال کے تیس سال بعد آئیں اور یہ دونوں فلمیں کسی فلم ساز نے نہیں، ٹیلی ویژن کے ایک پروڈیوسر نے بنائی تھیں لیکن ان فلموں نے دنیا کو حیران کر دیا، ہم جب اتنے ٹیلنٹڈ ہیں تو پھر ہمیں فلم کو کامیاب کرنے کے لیے فحاشی کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے۔
      ہمیں فلم میں پٹھان ٹرک ڈرائیور ڈالنے کی کیا مجبوری ہے اور اس کے منہ سے ایسے فقرے ادا کروانے کی کیا حاجت ہے جسے سن کر شریف آدمی کے کان سرخ ہو جائیں اور یہ حرکت صرف ایک فلم میں نہیں ہوئی، میں نے اس نوعیت کے فقرے اور حرکات نامعلوم افراد میں بھی دیکھیں، سنیں اور دوسری پاکستانی فلموں میں بھی۔ آج کل ایک اور فلم کا چرچا ہے جس میں بچے کی مسلمانی کا لمبا سین ہے اور یہ عمل صرف دکھایا نہیں گیا بلکہ منہ سے بھی اس کی اتنی وضاحت کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص ماں بہن کے ساتھ بیٹھ کر یہ فلم نہیں دیکھ سکتا، ہمارے فلم ساز فلموں میں ایسے الفاظ اور وہ فقرے بھی کثرت سے ڈال رہے ہیں جو صرف ممبئی میں بولے جاتے ہیں اور بھارت کی اپنی ریاستیں ان فقروں پر اعتراض کر رہی ہیں۔
      آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے، بھارتی فلم ساز جب اپنی فلمیں مہاراشٹر سے باہر بھجواتے ہیں تو یہ ان سے ممبئی کے سلینگز نکال دیتے ہیں لیکن ہم اپنی فلموں میں ابے بھی ڈال رہے ہیں، بیوڑا بھی، پیٹی بھی، کھوکھا بھی اور کھولی بھی۔ کیا یہ غلط نہیں؟ ہمارے فلم ساز شاید بھارتی فلم سازوں کے پریشر میں ہیں اور یہ اس پریشر میں وہ غلطیاں کر رہے ہیں جن کی آج تک بھارتی فلم ساز بھی جرأت نہیں کر سکے، آپ بھارتی فلم بجرنگی بھائی جان اور کراچی سے لاہور دونوں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھ لیں، آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔
      یہ فرق صرف سلمان خان یا عائشہ عمر کا فرق نہیں، یہ موضوع اور اسکرین پلے کا فرق بھی ہے، چلیے ہم پاکستانی فلم کا بھارتی فلم سے تقابل نہیں کرتے، ہم بول اور کراچی سے لاہور کا موازنہ کرتے ہیں، بول بھی تو پاکستان ہی میں بنی تھی اور اس کے تمام تکنیک کار بھی پاکستانی تھے، یہ فلم اگر فحاشی، عریانی اور ذومعنی فقروں کے بغیر کامیاب ہو سکتی ہے تو پھر باقی فلمیں کیوں نہیں ہو سکتیں؟ میرے خیال میں پاکستانی فلموں کے تمام اداکاروں، اداکاراؤں، ہدایت کاروں، فلم سازوں اور مکالمہ نویسوں کو حقائق کا خیال رکھنا چاہیے، حکومت اور سنسر بورڈ کو بھی توجہ دینی چاہیے، ہماری فلم انڈسٹری تیس سال کی خاموشی اور زوال کے بعد دوبارہ جنم لے رہی ہے، لوگ بڑی مشکل سے سینماؤں کی طرف آ رہے ہیں۔
      یہ اپنے خاندان کو بھی فلم دیکھنے کے لیے لا رہے ہیں، مجھے خطرہ ہے اگر حکومت، سنسر بورڈ اور فلم سازوں نے اس طرف توجہ نہ دی تو خاندان سینماؤں سے واپس چلے جائیں گے اور اسکرین کے سامنے صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو ہر فحش فقرے اور ننگی حرکت پر تالی بجانا، قہقہہ لگانا اور بھنگڑا ڈالنا فرض سمجھتے ہیں اور جس دن یہ ہو گیا، جس دن خواتین اور بزرگ سینما سے اٹھنا شروع ہو گئے۔
      وہ دن ہماری فلم اور سینما کا آخری دن ہو گا، میری فلم سازوں سے درخواست ہے آپ جب بھی فلم بنائیں، آپ بھارتی مزاحیہ اداکار جونی واکر کا یہ فقرہ ضرور ذہن میں رکھ لیں میں فلم میں جب بھی کوئی اخلاق سے گرا فقرہ بولنے لگتا ہوں تو مجھے اپنے بچے یاد آ جاتے ہیں اور میں سوچتا ہوں، یہ فقرہ جب میرے بچے سنیں گے تو وہ اپنے باپ کے بارے میں کیا سوچیں گے، یہ خیال آتے ہی میں اپنی زبان دانتوں تلے دبا لیتا ہوں آپ لوگ بھی فلم بناتے، فلم لکھتے اور مکالمے بولتے وقت ایک لمحے کے لیے اتنا ضرور سوچ لیا کریں، یہ فلم جب آپ کے بچے یا آپ کے بہن بھائی دیکھیں گے تو یہ آپ کے بارے میں کیا سوچیں گے، مجھے یقین ہے، یہ ایک سوال آپ کے ضمیر کو ہزار سوالوں سے بچا لے گا۔
      معذرت: مجھ سے کل کے کالم آپ نے کیا پایا،کیا کمایامیں ایک غلطی سرزد ہو گئی، ڈاکٹر عاصم حسین سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے پوتے نہیں ہیں، یہ ان کے نواسے ہیں، ڈاکٹر عاصم کی والدہ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ ڈاکٹر ضیاء الدین کی صاحبزادی اور والد تجمل حسین داماد ہیں، قارئین تصحیح فرما لیں۔


      Similar Threads:

      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (03-03-2016)

    3. #2
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      158

      Re: آپ بھی باپ ہیں

      Nice Sharing
      Thanks FOr Sharing


    4. #3
      ...."I don't need your attitude. I've my own"..... www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Arosa Hya's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Peace
      Posts
      5,286
      Threads
      972
      Thanks
      973
      Thanked 827 Times in 507 Posts
      Mentioned
      518 Post(s)
      Tagged
      6978 Thread(s)
      Rep Power
      242

      Re: آپ بھی باپ ہیں

      sahi


    5. #4
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      510

      Re: آپ بھی باپ ہیں

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
      آپ بھی باپ ہیں


      جاوید چوہدری


      فلم شروع ہوئی، دس منٹ بعد تین بزرگ اٹھے اور ہال سے باہر چلے گئے، اگلے دس منٹ میں تین چار اور فیملیز اٹھیں اور وہ بھی باہر چلی گئیں، وقفہ ہوا تو خواتین بھی فلم ادھوری چھوڑ کر گھروں کو روانہ ہو گئیں، ہال میں پیچھے نوجوان مرد حضرات اور میرے جیسے چند کنفیوژڈ لوگ بچ گئے اور تالیاں رہ گئیں، قہقہے رہ گئے اور فحش فقروں اور فحش حرکتوں پر ’’جی اوئے‘‘ کے فقرے رہ گئے، فلم ختم ہوئی تو میں اور میرا دوست گہرے تاسف اور بھاری دل کے ساتھ سینما سے باہر آ گئے۔
      یہ پاکستانی فلم ’’کراچی سے لاہور‘‘ تھی، میں نے فلم کی بہت تعریف سنی تھی اور میں اس تعریف سے متاثر ہو کر اپنے دوست کے ساتھ سینما پہنچ گیا، فلم اچھی تھی، اداکاری، کیمرہ ورک، لوکیشنز اور اسٹوری تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ شاندار تھیں اور ساؤنڈ کی کوالٹی بھی اچھی تھی، فلم میں بس ایک خامی تھی اور اس خامی نے اتنی اچھی فلم کا سارا تاثر برباد کر دیا، یہ خامی اس کے فحش مکالمے، ذومعنی فقرے اور چند قابل اعتراض حرکتیں تھیں، فلم کے فحش فقروں کی وجہ سے وہ تمام لوگ جو فیملیز کے ساتھ سینما آئے تھے، وہ شرمندہ بیٹھے تھے، یہ شرمندگی تھوڑی دیر چلی اور اس کے بعد فیملیز، بزرگ اور سمجھ دار لوگوں نے ’’واک آؤٹ‘‘ کرنا شروع کر دیا۔
      میرے دوست فلموں کے شیدائی ہیں، یہ بچپن سے فلمیں دیکھ رہے ہیں، یہ پاکستانی فلموں کے گولڈن ٹائم میں قمیض اتار کر دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر سینما کا ٹکٹ حاصل کرتے تھے، انھوں نے اپنی آنکھوں سے خاندان بھر کو سینما میں بیٹھتے اور فلموں کو انجوائے کرتے دیکھا، پھر انھوں نے وہ دور بھی دیکھا جب معزز لوگ سینما کے قریب سے گزرتے ہوئے شرمندہ ہو جاتے تھے، انھوں نے اردو فلموں کو پنجابی میں تبدیل ہوتے اور پھر گنڈاسے کو فلم پر قابض ہوتے بھی دیکھا، یہ اس دور کے بھی گواہ ہیں جب اسٹوڈیوز میں الو بولے اور اداکار، صداکار، کیمرہ مین، لائٹ مین اور ایکسٹرا خون تھوک تھوک کر مرے، جب سینما گھروں کی جگہ شاپنگ سینٹر بنے اور اداکاروں اور اداکاراؤں نے کوٹھیاں بیچ بیچ کر اپنا بڑھاپا کاٹا، میرے یہ دوست تھیٹروں کے زوال کے بھی گواہ ہیں، یہ اکثر لاہور کے ایک تھیٹر کا واقعہ سناتے ہیں، تھیٹر میں ایک بار ایک غیر ملکی خاتون آ گئی۔
      لاہوریوں نے خاتون کو تھیٹر شروع ہونے سے پہلے ہی گھور گھور کر بھگا دیا، میرے یہ دوست میری طرح پاکستانی فلم کی واپسی پر خوش تھے، ہم دونوں اکثر چھٹی کے دن فلم دیکھنے چلے جاتے ہیں، ہم جب اس دن باہر نکلے تو میرے دوست نے پیشن گوئی کی ’’ہماری فلم ایک بار پھر فوت ہو جائے گی‘‘ میں نے وجہ پوچھی تو ان کا جواب تھا ’’ہماری پہلی فلم انڈسٹری کو مولا جٹ کھا گیا اور موجودہ فلم انڈسٹری ذومعنی فقروں اور فحش مکالموں کے ہاتھوں قتل ہو جائے گی‘‘ میں نے اپنے دوست سے اتفاق کیا کیونکہ کراچی سے لاہور اچھی بھلی فلم تھی لیکن چند فقروں نے ہال میں موجود فیملیز کو اٹھنے پر مجبور کر دیا، یہ فقرے اگر نہ ہوتے تو بھی فلم ٹھیک ٹھاک تھی لیکن فلم ساز نے زیادہ ناظرین کے لالچ میں فلم میں وہ مسالہ ڈال دیا ۔
      جس سے فلمیں تو کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن فلم انڈسٹری تباہ ہو جاتی ہے، پاکستان اور ہندوستان دونوں ’’خاندانی ملک‘‘ ہیں، ہمارے خطے میں آج بھی خاندان مضبوط ہیں، ہم لوگ خواہ کتنے ہی ماڈرن کیوں نہ ہو جائیں، ہم ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی موجودگی میں فحش فقرہ برداشت نہیں کر سکتے، ہماری زندگی میں بیٹے کی موجودگی میں بھی ذومعنی فقرے اور ننگی حرکتوں کی گنجائش نہیں ہوتی چنانچہ بھارت اور پاکستان میں وہ فلمیں اور ڈرامے ناکام ہو جاتے ہیں جن میں ذرا سی بھی فحاشی اور ذومعنی فقرے ہوتے ہیں، بھارتی سینما دنیا کا سب سے بڑا سینما ہے۔
      بھارت میں ہر سال آٹھ سو سے لے کر ہزار تک فلمیں بنتی ہیں، بھارتی فلم انڈسٹری ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری سمجھی جاتی ہے، وہاں کھرب پتی بزنس فیملیز سے لے کر انڈر ورلڈ کے ڈان تک فلم میں سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن آپ اتنی بڑی انڈسٹری کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں، آپ انڈیا میں ہر اس فلم کو ناکام دیکھیں گے جس میں فحاشی کا عنصر موجود تھا یا پھر اس میں گالی گلوچ اور ذومعنی فقرے تھے، آپ فحاشی کے ہاتھوں ہیوی کاسٹ فلموں تک کو برباد ہوتا دیکھیں گے، آپ ان اداکاروں اور اداکاراؤں کو بھی تباہی کے گڑھے میں اترتا اور معاشرے میں ذلیل ہوتا دیکھیں گے جنہوں نے تالی اور قہقہہ مروانے کے لیے ایک بار اخلاقیات کے تخت سے فرش پر پاؤں رکھ دیا تھا، پاکستان کی فلم اور تھیٹر بھی اس حقیقت کی بدترین مثال ہیں، ہماری انڈسٹری کو فحاشی، لچر پن، گنڈاسے اور مجرے نے تباہ کر دیا تھا، ہم لوگ فنون لطیفہ میں بھارت سے بہت آگے ہیں۔
      آپ خدا کے لیے اور بول جیسی فلمیں دیکھیں، یہ پاکستانی سینما کے زوال کے تیس سال بعد آئیں اور یہ دونوں فلمیں کسی فلم ساز نے نہیں، ٹیلی ویژن کے ایک پروڈیوسر نے بنائی تھیں لیکن ان فلموں نے دنیا کو حیران کر دیا، ہم جب اتنے ٹیلنٹڈ ہیں تو پھر ہمیں فلم کو کامیاب کرنے کے لیے فحاشی کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے۔
      ہمیں فلم میں پٹھان ٹرک ڈرائیور ڈالنے کی کیا مجبوری ہے اور اس کے منہ سے ایسے فقرے ادا کروانے کی کیا حاجت ہے جسے سن کر شریف آدمی کے کان سرخ ہو جائیں اور یہ حرکت صرف ایک فلم میں نہیں ہوئی، میں نے اس نوعیت کے فقرے اور حرکات ’’نامعلوم افراد‘‘ میں بھی دیکھیں، سنیں اور دوسری پاکستانی فلموں میں بھی۔ آج کل ایک اور فلم کا چرچا ہے جس میں بچے کی ’’مسلمانی‘‘ کا لمبا سین ہے اور یہ عمل صرف دکھایا نہیں گیا بلکہ منہ سے بھی اس کی اتنی وضاحت کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص ماں بہن کے ساتھ بیٹھ کر یہ فلم نہیں دیکھ سکتا، ہمارے فلم ساز فلموں میں ایسے الفاظ اور وہ فقرے بھی کثرت سے ڈال رہے ہیں جو صرف ممبئی میں بولے جاتے ہیں اور بھارت کی اپنی ریاستیں ان فقروں پر اعتراض کر رہی ہیں۔
      آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے، بھارتی فلم ساز جب اپنی فلمیں مہاراشٹر سے باہر بھجواتے ہیں تو یہ ان سے ممبئی کے ’’سلینگز‘‘ نکال دیتے ہیں لیکن ہم اپنی فلموں میں ابے بھی ڈال رہے ہیں، بیوڑا بھی، پیٹی بھی، کھوکھا بھی اور کھولی بھی۔ کیا یہ غلط نہیں؟ ہمارے فلم ساز شاید بھارتی فلم سازوں کے پریشر میں ہیں اور یہ اس پریشر میں وہ غلطیاں کر رہے ہیں جن کی آج تک بھارتی فلم ساز بھی جرأت نہیں کر سکے، آپ بھارتی فلم بجرنگی بھائی جان اور کراچی سے لاہور دونوں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھ لیں، آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔
      یہ فرق صرف سلمان خان یا عائشہ عمر کا فرق نہیں، یہ موضوع اور اسکرین پلے کا فرق بھی ہے، چلیے ہم پاکستانی فلم کا بھارتی فلم سے تقابل نہیں کرتے، ہم بول اور کراچی سے لاہور کا موازنہ کرتے ہیں، بول بھی تو پاکستان ہی میں بنی تھی اور اس کے تمام تکنیک کار بھی پاکستانی تھے، یہ فلم اگر فحاشی، عریانی اور ذومعنی فقروں کے بغیر کامیاب ہو سکتی ہے تو پھر باقی فلمیں کیوں نہیں ہو سکتیں؟ میرے خیال میں پاکستانی فلموں کے تمام اداکاروں، اداکاراؤں، ہدایت کاروں، فلم سازوں اور مکالمہ نویسوں کو حقائق کا خیال رکھنا چاہیے، حکومت اور سنسر بورڈ کو بھی توجہ دینی چاہیے، ہماری فلم انڈسٹری تیس سال کی خاموشی اور زوال کے بعد دوبارہ جنم لے رہی ہے، لوگ بڑی مشکل سے سینماؤں کی طرف آ رہے ہیں۔
      یہ اپنے خاندان کو بھی فلم دیکھنے کے لیے لا رہے ہیں، مجھے خطرہ ہے اگر حکومت، سنسر بورڈ اور فلم سازوں نے اس طرف توجہ نہ دی تو خاندان سینماؤں سے واپس چلے جائیں گے اور اسکرین کے سامنے صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو ہر فحش فقرے اور ننگی حرکت پر تالی بجانا، قہقہہ لگانا اور بھنگڑا ڈالنا فرض سمجھتے ہیں اور جس دن یہ ہو گیا، جس دن خواتین اور بزرگ سینما سے اٹھنا شروع ہو گئے۔
      وہ دن ہماری فلم اور سینما کا آخری دن ہو گا، میری فلم سازوں سے درخواست ہے آپ جب بھی فلم بنائیں، آپ بھارتی مزاحیہ اداکار جونی واکر کا یہ فقرہ ضرور ذہن میں رکھ لیں ’’میں فلم میں جب بھی کوئی اخلاق سے گرا فقرہ بولنے لگتا ہوں تو مجھے اپنے بچے یاد آ جاتے ہیں اور میں سوچتا ہوں، یہ فقرہ جب میرے بچے سنیں گے تو وہ اپنے باپ کے بارے میں کیا سوچیں گے، یہ خیال آتے ہی میں اپنی زبان دانتوں تلے دبا لیتا ہوں‘‘ آپ لوگ بھی فلم بناتے، فلم لکھتے اور مکالمے بولتے وقت ایک لمحے کے لیے اتنا ضرور سوچ لیا کریں، یہ فلم جب آپ کے بچے یا آپ کے بہن بھائی دیکھیں گے تو یہ آپ کے بارے میں کیا سوچیں گے، مجھے یقین ہے، یہ ایک سوال آپ کے ضمیر کو ہزار سوالوں سے بچا لے گا۔
      معذرت: مجھ سے کل کے کالم ’’آپ نے کیا پایا،کیا کمایا‘‘میں ایک غلطی سرزد ہو گئی، ڈاکٹر عاصم حسین سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے پوتے نہیں ہیں، یہ ان کے نواسے ہیں، ڈاکٹر عاصم کی والدہ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ ڈاکٹر ضیاء الدین کی صاحبزادی اور والد تجمل حسین داماد ہیں، قارئین تصحیح فرما لیں۔
      khoob


    6. The Following 2 Users Say Thank You to Dr Danish For This Useful Post:

      intelligent086 (03-03-2016),Moona (03-03-2016)

    7. #5
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: آپ بھی باپ ہیں

      Quote Originally Posted by UmerAmer View Post
      Nice Sharing
      Thanks FOr Sharing
      Quote Originally Posted by Arosa Hya View Post
      sahi
      Quote Originally Posted by Dr Danish View Post
      khoob
      پسند اور آراء کا بہت بہت شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    8. #6
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: آپ بھی باپ ہیں

      @intelligent086 Thanks for Informative Post

      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    9. The Following User Says Thank You to Moona For This Useful Post:

      intelligent086 (03-03-2016)

    10. #7
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: آپ بھی باپ ہیں

      Quote Originally Posted by Moona View Post
      @intelligent086 Thanks for Informative Post





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    11. #8
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: آپ بھی باپ ہیں

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post




      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •