ٹیڑھی دیوار منسانہ
فانی مقصود حسنی

زمین کے سب سے بڑے لمبڑ کا اقامتی ایوان بلاشبہ زمین پر اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ جو کوئی بھی وہاں قدم رکھتا سہما سہما تو پہلے ہی ہوتا لیکن ایوان کی شان و شوکت اور اس کی دیواروں سے ٹپکتا جاہ و جلال اسے اور بھی سہہ ما دیتا۔ ایک طرح سے اس پر لرزہ سا طاری ہو جاتا۔ وہ وہاں کے بڑے گولے تو ایک طرف جاروب کشوں سے بھی بڑے ادب اور تمیز سے بات کرتا مبادہ کسی لفظی گستاخی کی شکایت کے بھگتان میں اپنے ملک کی بربادی کا سبب بن جائے یا پھر اپنے ملک کی سیاہی سفیدی کی ملکیت سے محرم ہو کر جہنم رسید نہ ہو جائے۔ وہ انہیں بھی کورنش بجا لاتا محتاط قدموں سے آگے بڑھتا۔
یہ جانتے ہوئے کہ اس کی تعمیر میں اس کے اپنے ملک کے مزدور کی مشقت کی کمائی بھی شامل ہے۔ بڑے لمبڑ کے حضور پیش کر دیے جانے کے بعد پورے جثے پر ادب و احترام طاری کرتے ہوئے نگاہ روبرو رکھتا۔ بہت کچھ کہنے کی آرزوئیں من میں سمیٹ کر لاتا لیکن کہہ نہ پاتا یا کہنے کا موقع ہی نہ دیا جاتا۔ ہاں احکامات کی بوری اس کے سر پر رکھ دی جاتی اور دفع دفان ہونے کا امر صادر کر دیا جاتا۔ یہ وزن جو اس کی بسات سے باہر ہوتا لیکن اس کے لبوں پر رحم کی التجا کے برعکس بڑے لمبڑ کی دریا دلی اور انصاف پروری کا ترانہ رقصاں ہوتا جو اپنے ملک کے کسی گماشتہ لفظ تراش سے لکھوا کر لے گیا ہوتا۔
ایک روز بڑا لمبڑ اپنے دربار سے اقامتی ایوان میں داخل ہوا تو اسے ایوان کی دیواروں میں جلالتی کمی سی محسوس ہوئی۔ وہ سوچنے لگا آج کا یہ معمولی سا نقص آتے کل کو اس کی ارضی خدائی کے زوال کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس نے پیچھے پیچھے آتے ایک جی حضوریے سے کہا کہ ہمارے ایوان کی دیواروں میں ہمارے شایان شان رعب و دبدبہ موجود نہیں۔ جی حضوریا جو کسی غلام ملک کا باشندہ تھا ہاں میں ہاں نہ ملا کر اپنی بےدوسی جان سے کیوں جاتا۔ اس نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر کہا کہ جی حضور آپ سولہ آنے درست فرما رہے ہیں۔ بڑے لمبڑ نے احکامات نوٹ کار سے مخاطب ہو کر بڑی تمکنت سے ارشاد فرمایا کہ محکمہ تعمیرات کے وزیر کو حکم جاری کیا جائے کہ اس بانقص عمارت کو مسمار کرکے فورا سے پہلے ہماری شان و شوکت سے میل کھاتا محل تعمیر کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ پھر کیا تھا بڑے لمبڑی اداروں کو حکم جاری ہوا کہ نئی تعمیر کے لیے روپے پیسے فراہم کرنے کا انتظام کریں۔ کوتاہی کی صورت میں متعلقہ ادارہ انچارج اپنی نوکری سے جائے گا۔
چھینا جھپٹی کے باعث دنیا جہان میں افراتفری کی صورت پیدا ہو گئی۔ وہ اپنے علاقہ کی خوش حالی کا خواہاں تھا دوسرا وہ وہاں کی کسی قسم کی گڑبڑ کے تحت پیدا ہونے والی سردردی مول نہ لینا چاہتا تھا۔ وہاں کے معاملات حیات معمول کے مطابق رہے اور ان کی آگہی محض خبروں تک محدود رہی۔ وہاں یہ بات مشہور کی گئی کہ وہاں کی حکومیتں عوام کے ساتھ ظلم توڑ رہی ہیں۔ گویا ان کے دلوں میں نفرت ہی پیدا کی گئی۔ انسان دوستی اور مظلوموں کی مدد کے نام پر بڑے لمبڑ کی فوجیں اور ہتھیار کام میں لائے گئے۔ عظیم لمبڑداری محل کی تعمیر میں کئی سال لگ گئے۔ جہاں محل کی تعمیر کے لیے خزانے جمع کیے گیے وہاں اداروں کے وڈیروں کی تجوریوں کو بھی کمال کی خوش حالی دستیاب ہوئی۔ پوری دنیا بدحال اور خون میں نہا گئی اسے اس سے کیا غرض تھی۔ ایک فرد بھی باقی نہ رہتا اس کی بلا سے۔ اس کا بےمثل اور بےمثال تعمیر ہونا پہلا اور آخری کاز تھا۔
جب محل تعمیر ہوگیا تو جیبی و اعضائی معذور دنیا کے لوگوں کے امیروں وزیروں کو اپنی وجاہتی دھاک بٹھانے کے لیے بلایا گیا۔ انہیں مزید گرہ میں کرنے کے لیے تحائف لانے کی خریداری کے لیے دل کھول کر قرضے دیے گیے۔ یہ بھی حکم دیا گیا کہ تحائف کی خریدداری اس کے ہاں کی مارکیٹ سے کی جائے۔ اس حکم کے نتیجہ میں وہاں کے تجارتی عمل کو استحقام میسر آیا۔ گویا تجار حضرات کے لیے بھی خوش حالی کا دروازہ کھول کر بہت بڑا پن گرہ میں کیا۔ یہ ہی نہیں ان کی فیور بھی حاصل کر لی۔
محل کے ہال میں یہ لوگ جمع ہوئے۔ محل کے باکمال اور لاجواب ہونے میں کوئی شک ہی نہ تھا۔ سب عش عش کر اٹھے۔ پھر انہیں محسوس ہوا کہ محل لرز رہا ہے۔ اطراف سے انہوں نے ارواح کی خوف ناک چیخ و پکار سنی۔ وہ ڈر اور خوف سے محل کے ہال سے دوڑ دوڑ کر باہر آنے لگے۔ بڑے لمبڑ کی فکر سماعت اور بصارت پر شیطانی قفل پڑا ہوا تھا اس لیے وہ کچھ دیکھ اور محسوس نہ کر پا رہا تھا۔ وہ یہ ہی سمجھ رہا تھا کہ اس کا جاہ و جلال اور شاہی دبدبہ یہ کمی کمین دنیا کے برداشت نہیں کر پا رہے۔ اس کے اور اس کے جھولی چکوں کے قہقہے ہال میں گونج رہے تھے۔ بڑے کو یہ امر یاد تک نہ رہا کہ نمرود شداد اور فرعون بھی اسی طور کے قہقہے لگایا کرتے تھے۔ ایک روز وہ سب ان قہقہوں کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے اور قیامت تک کے لیے عبرتی آثار و نشانات چھوڑ گئے۔