حُقوق اللہ اور حُقوق العباد
دین کی بنیاد ان کی ادائیگی پر معاشرے کی فلاح اور آخرت میں نجات کا دارومدار ہے
اسلام ایک کامل دین اور ابدی ضابطہ حیات ہے۔ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے عبارت ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ تمام حقوق دراصل اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ چوں کہ دنیوی زندگی میں انسان کو ایک دوسرے کی ضرورت پیش آتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان ضرورتوں کا لحاظ فرما کر ہر انسان کو ایک دوسرے کے افعال کے انتظام کا ایک حد تک اختیار عطا فرما دیا اور انہیں ادا کرنے کے لیے ہدایت و رہنمائی بہم پہنچا دی ہے۔ ایک انسان کے دوسرے انسان سے تعلق کی نوعیت کے پیش نظر ہر دو انسانوں کے حقوق و فرائض واضح طور پر متعین کردیے ہیں۔تمام مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق جسے اللہ کا نائب اور خلیفہ ہونے کا شرف حاصل ہوا، وہ انسان ہے اور انسان میں سب سے افضل انسان انبیائے کرامّ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے بعد دوسرا بڑا حق انبیائے کرامّ کا ہے۔ اسی طرح یہ حقوق کا سلسلہ ایک انسان کے دوسرے سے تربیت اور تعلق کی بدولت درجہ بندی کی صورت اختیار کرکے جاری و ساری ہے۔ اسی طرح انسانوں کے بعد حیوانات، نباتات اور جمادات کے حقوق ہیں۔ ان میں سے حیوانات انسان سے قریب تر ہیں، کیوں کہ اگر انسان میں صفت علم نہ ہوتی تو وہ بھی حیوان ہی ہوتا۔ حیوانات کے بعد نباتات بھی چوں کہ جان دار ہیں، لہٰذا ان کا اور پھر جمادات کا۔ گویا بندگی حقوق و فرائض کی ادائیگی ہی کا نام ہے۔ اگر حقوق و فرائض کا سلسلہ بندگی سے نکال دیا جائے تو باقی صفر بچے گا۔ انسانی حیات کے سیاسی، عمرانی، معاشی اور قانونی گویا جملہ پہلوؤں میں حقوق و فرائض کا عمل دخل ہوتا ہے، ان ہر دو میں سے کسی ایک کو نظر انداز کردینے سے بندگی، بندگی نہیں رہتی۔ بلکہ موت سے بھی بدترین جاتی ہے۔ اس کے بغیر انفرادی اور اجتماعی سطح پر صورت حال بد سے بد ہوتی چلی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر حقوق کی دو قسمیں ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد۔
حقوق اللہ:۔ یہ وہ قسم ہے جن کا تعلق خاص طور اللہ تعالیٰ سے ہے۔ جسے عام طور پر عبادات کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔
حقوق العباد:۔ انسانوں کے آپس کے معاملات کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ اسلامی تعلمیات کی رد سے یہ بھی حقوق اللہ ہی کی ایک قسم ہے، تاہم اللہ تعالیٰ نے انسان کی دنیوی زندگی کی ضرورتوں کے پیش نظر یہ حق واضح احکام و رہنمائی کے ساتھ اسے سونپ دیا ہے اور واضح کردیا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان حقوق کو پورا کرنا گویا حقوق اللہ ہی کو پورا کرنا ہے۔ بلکہ بعض مخصوص صورتوں میں اس خاص حق کو حقوق اللہ (عبادات) پر بھی ترجیح دی گئی ہے۔ اس کا انحصار معاملے کی نوعیت پر ہے۔
حقوق العباد کی اہمیت کیا ہے اور حقوق العباد حقوق اللہ یا عبادات کے زمرے میں کیسے شمار ہوتے ہیں۔ اس امر کی مختصر سی وضاحت ذیل میں دی جارہی ہے۔ قرآن مجید میں انسان کی بندگی کا مقصد بیان کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ: ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا۔اسلام میں عبادات کا مفہوم بڑا وسیع ہے مسلمان کا ہر کام عبادت ہوسکتا ہے، اگر وہ عبادت کی نیت سے کیا جائے۔ حدوداللہ کے اندر رہتے ہوئے انجام دیا جائے اور اس طرح حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی عبادت کے دائرہ کار میں آجاتے ہیں۔ حقوق اللہ کے مقابلے میں حقوق العباد کی اہمیت زیادہ ہے۔ ہر مسلمان کو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی لازمی پورے کرنے ہیں۔ اس لیے کہ اسلامی تعلیمات میں گوشہ نشنی کی زندگی گزارنے کی ممانعت ہے، بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے صراط مستقیم (سیدھی راہ) پر چلنے کی کوشش کرنے کی ہدایت ہے۔ حقوق العباد سے کنارہ کشی اختیار کرنا درست نہیں ہے، اس لیے آں حضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: قیامت کے دن سب سے پہلے حقوق العباد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ کسی بھی معاشرے کی خوش حالی کا دارومدار حقوق العباد کے ادا کرنے پر ہے، حقوق العباد کی صحیح ادائیگی پر معاشرے کی فلاح اور نجات کا دارومدار ہے۔بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں حقوق العباد کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کا تقاضا اسلام ہم سے کرتا ہے، چنانچہ آج ہماری اخلاقی اور تہذیبی اقدار کے زوال کی بڑی وجہ حقوق العباد کو فراموش کردینا ہے۔ حقوق العباد میں سب سے بنیادی حق والدین اور والدین میں سب سے زیادہ اور بنیادی حق ماں کا ہے۔ لیکن آج والدین کی اطاعت و فرماں برداری دور کی بات ایسے بھی واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ جس میں اولاد والدین کی نافرمانی ہی نہیں کرتی، بلکہ انہیں نعوذباللہ گالی دیتی، ان سے زبان درازی کرتی بسا اوقات انہیں زدوکوب کرتی نظر آتی ہے۔ ایسے بھی افسوس ناک واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ نافرمان اولاد نے اپنی ماں یا باپ کو قتل کردیا۔ یاد رکھیے اللہ تعالیٰ نے بندے کو والدین سے حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔ ان کی نافرمانی یہاں تک کہ انہیں اف تک کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ والدین کی نافرمانی کو گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا ہے۔ حقوق العباد میں درج بندی ہے۔ والدین کے حقوق ، عزیزواقارب کے حقوق، معاشرے کے دیگر افراد کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، خواتین کے حقوق، بوڑھوں اور بزرگوں کے حقوق، بچوں کے حقوق اس طرح حقوق و فرائض کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس میں ہر حق او ہر فرض کی بنیادی اہمیت حاصل ہے، مختصر یہ کہ اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی اور بجا آوری کا نام ہے، جس طرح بندے کے ذمے اس کے رب کی اطاعت، اس کی بندگی اور اس کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے، اسی طرح حقوق العباد کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے، اسلام نے حقوق العباد کو بنیادی اہمیت دی ہے، یہ حقوق اس لحاظ سے اہم ہیں کہ اللہ ہمارا رب اور مالک و مختار ہے، وہ اپنے حقوق اپنی شان کریمی اور رحم وکرم کی بدولت معاف کرنے پر قادر ہے، وہ رحمن و رحیم ہے، اس کی صفت ہی رحم کرنا ہے، وہ بہت زیادہ معاف کرنے اور درگزر کرنے والا ہے، لیکن حقوق العباد کا معاملہ بالکل مختلف ہے، یہ اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے جب تک کہ بندے اپنے حقوق خود معاف نہ کردیں، لہٰذا اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: عبدالاحد حقانی
Similar Threads:
bht he umdAH thread
bilkul sahi
Jazak ALLAH
ALLAH Ta'ala hmain ache treeqy se ada krny ki tofeeq de
bht hi umda khoobsurt sharing Jazak Allah khair
V good MAsha Allah
jazak Allah....very nice....
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks