آئس لینڈ میں ایک مسلمان عالم نے مردوں کے ختنے پر پابندی عائد کیے جانے کے منصوبے کو مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔
آئس لینڈ کے اسلامک کلچرل سنٹر کے امام احمد صدیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ختنوں کا عمل اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اور اسے مجرمانہ فعل قرار دینا سراسر غلط ہے۔ یہودی گروہوں نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ آئس لینڈ کی پارلیمان میں پیش کیے گئے اس قانونی مسودے کے تحت کسی بھی مذہبی یا ثقافتی وجہ سے ختنے کرانے والے کو چھ سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

اس قانون کے حامی اس عمل کا موازنہ خواتین کے ختنے سے کرتے ہیں اور اسے لڑکوں کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے قوانین کے تحت لڑکیوں کے ختنے پر کئی ممالک میں پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ آئس لینڈ کے اسلامک کلچرل سنٹر کے امام احمد صدیق کا کہنا تھا ’دراصل یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔ یہ ہمارے مذہب سے متعلق ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس کی خلاف ورزی ہے۔‘آئس لینڈ مردوں کے ختنے پر پابندی عائد کرنا والا پہلا یورپی ملک ہوگا۔ اس مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر ختنے کرتے ہوئے کوئی انستھیزیا (بے حس کرنے کی دوا) استعمال نہیں کی جاتی اور گھروں پر کیے جانے کی وجہ سے آلات کے جراثیم سے پاک نہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور یہ کام ڈاکٹرز کے بجائے مذہبی رہنما کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں کسی بھی قسم کا انفیکشن مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔بل میں کہا گیا ہے کہ والدین کو حق ہے کہ وہ بچے کو اپنے مذہب کی رہنمائی دیں لیکن ختنے کرانے کا حق بچے کو خود ہونا چاہیے جب وہ اس عمر کو پہنچے اور یہ سمجھے کہ اسے کروانے چاہیئں۔آئس لینڈ کی آبادی 336000 ہے جس میں بہت کم تعداد میں مسلمان اور یہودی رہتے ہیں۔ اندازآً یہاں 250 یہودی اور 1500 مسلمان آباد ہیں۔