Thanks for great sharing
دونوں بچے ایک ہی سمے پیدا ہوئے۔ لیکن ایک کو آرام دہ پالنے میں جگہ ملی اور دوسرے کو میلے پھٹے ہوئے چھیتھڑوں میں! مالدار والدین کے لاڈلے بچے کے ساتھ کھیلنے کے لیے ہمجولی کی ضرورت ہوئی۔ اور اس اعزاز کے لئے اس غریب بچے کو منتخب کیا گیا۔ غریب والدین ہنسی خوشی راضی ہوگئے۔ انہوں نے سمجھا اچھا ہی ہے،اسی بہانے دو تین روپے ہاتھ آجائیں گے، تھوڑا روٹی کا سہارا ہی سہی! آخر یہ غریب بچہ اس خدمت پر مامور ہوگیا۔ جب ننھے میاں دودھ میں چُور ہوکر بسکٹ اُڑاتے ہوتے تو وہ ان کی مکھیاں اُڑایا کرتا اور جب انہیں شہسواری کی سوجھتی تو یہی گھوڑا بھی بنتا۔ جب یہ غریب اپنی کمزور ٹانگوں سے کودتا تو وہ خوش ہوکر قہقہے لگاتے اماں کو مخاطب کرکے کہتے۔ ’’اماں دیکھا ہمارا گھوڑا‘‘ میاں:’’ بیٹا دیکھنا خاص عربی گھوڑا ہے۔‘‘ اور اگر وہ کبھی تھک کر گر پڑتاتو اس پر لاتوں اور گھونسوں کی مار پڑتی۔ مردود نے بچہ کو گرا دیا۔ حرامی، پھول سے بچے کو نہیں اٹھا سکتا۔ کام چور، کھانے کو تو کھاجائے ڈھائی ٹٹو کا راتب۔ کبھی کبھی اس قصور میں اُسے فاقے کی سزا بھی برداشت کرنا پڑتی۔ ان تمام کاموں کے علاوہ جب ننھے میاں مکتب جاتے تو وہ پیچھے بستہ اٹھا کر چلتا۔ دوات کی مری ہوئی مکھیاں نکالنا، تختی اور سلیٹ کی صفائی وغیرہ بھی اسی کے ذمہ تھی۔ جب ماسٹر صاحب ننھے کو پڑھاتے تو وہ اکثر ان کی آنکھ بچا کر کھڑا ہوجاتا اور سبق کو بہت شوق سے سنتا۔ ننھے میاں کے سبق کی بہت سی باتیں اس کے ذہن نشین ہوگئی تھیں۔ جیسے پانچ تئے پندرہ ہوتے ہیں۔ دِلی ہندوستان کی راج دھانی ہے۔ پنجاب کے پانچ مشہور دریا ہیں۔ ایک روز ننھے میاں کے کان اینٹھے جارہے تھے اور وہ یہ نہ بتا سکے کہ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ کون سا ہے، کان میں پڑی ہوئی بات یاد آگئی۔ بتانے کے لیے دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔ بہت ضبط کیا لیکن نہ ہوسکا۔ زبان سے ایک دم نکل ہی گیا۔ ’’ہمالیہ‘‘ ماسٹر صاحب نے اس کو اس طرح گھور کر دیکھا جیسے کھا جائیں گے اور ساتھ ہی ننھے میاں کو بھی بہت شرمندہ کیا جن کے احساسِ برتری کو پہلے ہی صدمہ پہنچ چکا تھا۔ چھٹی کے بعد ماں سے اس کی کوئی چغلی کھا کر بیچارے کو پٹوایا اور فاقے کی سزا دلوائی۔ رات کو وہ بھوکا ہی سویا، آدھی رات کو بھوک سے آنکھ کھل گئی۔ اس کو نعمت خانہ میں رکھے ہوئے کھانوں کا خیال آیا۔ سب سو رہے تھے۔ وہ دبے پائوں اُٹھا، چپکے چپکے نعمت خانے تک پہنچا۔ دروازہ کھولاہی تھا کہ ماما کی آنکھ کھل گئی جس نے اُس کے اُسی وقت دو دھپ لگائے۔ ’’لے کم بخت چوری کرے گا۔ دیکھ صبح کو بیگم صاحبہ سے کیا مرمت بنواتی ہوں۔‘‘ وہ رات بھر بیگم صاحبہ کی مار کی ڈر سے سو نہ سکا۔ صبح سویرے کہیں کھسک گیا۔ اس کے دماغ اور پیٹ کی اشتہا کا یہ حشر ہوا! دن نکلتے ہی اس کی تلاش شروع ہوئی۔ کہاں گیا، کیا ہوا، دیکھو اپنے گھر تو نہیں گیا۔ دھونے کو برتن پڑے ہوئے ہیں۔ ننھے میاں کو مکتب جانا ہے، کہاں بھاگ گیا۔ اُس کے ماں باپ اپنی غریبی کی طرح اس واقعہ کو بھی کسی آسمانی طاقت کے سر تھوپ کر رو دھوکر بیٹھ رہے۔ ایک دو روز کے بعد اس کی ماں پچھلے مہینے کی تنخواہ مانگنے آئی۔ تنخواہ کس منہ سے مانگتی ہے۔ بیٹا جو ہیرے کی لونگ لے کر بھاگ گیا۔ اس کو نہیں کہتی کچھ! دکھیا ماں کانپ گئی۔ ہیرے کی لونگ! وہ ذہین تھا لیکن اس کے علم و عمل کے لئے سماج یا ریاست نے کوئی راہ تو سوچی نہیں۔ اب دیکھئے وہ اپنے لئے خود کون سی راہ نکالتا ہے، بھرے ہوئے دریا کے بہائو کے لئے اگر کوئی راستہ نہ ملے تو وہ پشتوں اور بندھنوں کو توڑ کر بہہ نکلتا ہے۔ اس کے ماہ باپ رو دھو کر چپ ہوگئے۔ سماج کو اپنے مخصوص معاشرتی اور سماجی مسئلوں سے زبانی ہمدردی کی بھی مہلت نہ ملی، ننھے میاں کے گھر والے تھوڑی دند پکار کے بعد پھر ان کی تعلیم میں لگ گئے۔ ننھے میاں روپے اور سفارشوں کی وجہ سے ایم اے تک پہنچ گئے۔ آئی سی ایس میں دو مرتبہ کی ناکامی کے بعد تیسری مرتبہ کامیاب ہوہی گئے۔ ولایت گئے، خوبصورت شہر دیکھے اور خوبصورت شہر والیاں دیکھیں، ناچ رنگ کی محفلوں میں شریک ہوئے، خوب کمایا، خوب پیا، ناچے، گائے اور حاکم قوم میں رہ کر حاکم بن کر لوٹے۔ ان کے سامنے روز مقدمہ کے لئے پیش ہونے والے جرائم پیشہ لوگ بھی ہوتے اور قرض خواہوں اور سود خوروں کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسان بھی، زمینداروں کے باقی وار کاشتکار بھی بھرتے اور سپاہی ملزم بھی، وہ جرائم پیشہ طبقے کی نفسی ترکیب، قرضداروں اور غریب کاشتکاروں کی مجبوری، سیاسی ملزموں کے جذبات کا احترام کئے بغیر رٹی ہوئی دفعات کے زیرتحت چھ مہینے، سال بھر، دو سال اور تین سال یا اس سے بھی زیادہ جرم کی نوعیت کے مطابق فیصلے سناتے رہے، اگر کوئی خوش قسمت ان قانونی دفعات کی زد سے بچ ہی نکلا تو خیر… ضلع پرتاپ گڑھ میں ان کے تبادلہ کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ پورا علاقہ چوری، ڈکیتی اور نقب زنی کی وارداتوں سے گونج اٹھا۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد گرفتار ہوا۔ مقدمہ عدالت میں آیا۔ مجسٹریٹ کے سامنے گروہ کا سرغنہ پابجولاں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا تھا…یہ دونوں کبھی بچے تھے اور ایک ہی سمے پیدا ہوئے تھے۔ (اکتوبر 1941ء میں’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور میں شایع ہوا) - See more at:
@CaLmInG MeLoDy
Similar Threads:
Thanks for great sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
اتنی خوبصورت شیئرنگ پر آپکا شکریہ
Nice Sharing
Thanks For Sharing
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks