boht umda sharing
جب ہمارا جہاز دہلی ائیر پورٹ پر لینڈ کر رہا تھا تو میرے احساسات کچھ ایسے تھے کہ جنہیںبیان کرنا ممکن نہیں۔مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں اپنے گھر میں آگئی ہوں‘چونکہ میری پیدائش ہندوستان کی ہے اسی لیے یہ کشش فطری تھی اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت بھی ہے کہ جو انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے وہ جگہ کسی مقناطیس کی مانند اُسے اپنی جانب کھینچتی رہتی ہے۔ دہلی میں قدم رکھتے ہی اپنے آباؤ اجداد کے گھر کو دیکھنے کی تمنا دل میں مچلنے لگی تھی ۔جب میں پاکستان سے روانہ ہونے لگی تھی تو اپنی پھپھوکو بتاد یا تھا کہ میں دِلّی جاکر وہاں اپنا آبائی گھر دیکھنے جاؤں گی۔میری خواہش کا علم ہوتے ہی اُنہوں نے کہا‘ضرور جانا اور میں تمہیں راستہ بتاتی ہوں۔اجمیری گیٹ سے اندر جا کر الٹے ہاتھ کو مڑجانا‘ بس وہی ’’گلی شاہ تارا‘‘ ہے۔پھپھونے اُس وقت یہ نہیں بتایا تھا کہ جس گلی میں ہمارا گھر واقع تھا اُس کا نام میرے داد ا سے منسوب ’’گلی میر فیض الحسن ‘‘ تھا۔ مجھے دِلّی شہر کی سب سے بڑی خوبصورتی وہاں پر تین زبانوں (اردو‘ہندی‘انگلش )میں لکھے سائن بورڈز لگے کیونکہ اس کی مدد سے راستہ ڈھونڈنے والوں کو کوئی خاص دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ میں جب اجمیری گیٹ کے قریب پہنچی تو سوچ میں پڑ گئی کہ گھر کا پتہ کس سے اور کیسے پوچھوں ؟ چونکہ میرا وہاں پر کوئی بھی جاننے والا نہیں تھا۔ننھیال ‘ددھیال کے سارے افراد تقسیم ہند کے دوران ہی پاکستان آگئے تھے‘ شاید دادا کے زمانے کے چند مسلم و غیر مسلم دوست احباب باقی بچے ہوں۔ دادا اور ببّا زندہ ہوتے تو مجھے ضروربتاتے‘ خیر میں نے وہاں کے ایک مکین سے گلی شاہ تارا کے بارے میں دریافت کیا۔وہ میری بات سنتے ہی بولے کہ آپ گلی شاہ تارا کے عین سامنے کھڑی ہیں۔یہ سنتے ہی میں خوشی کے مارے دیوانی ہو گئی اورجلدی جلدی گلی کے اندر گھس گئی۔گلی شاہ تارا میں کچھ نوجوان لڑکے بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے ۔میں اُن کے پا س جا پہنچی اور اُن میں سے ایک لڑکے سے میر فیض الحسن کے گھر کے بارے میں پوچھا تو اُس نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو آج کے دور کے لڑکے بالے ہیں‘ہاںگلی کی نکڑ پر جو حلوائی کی دکان ہے آپ اُن سے جا کر پوچھ لیجئے‘وہ بڑی عمر کے بزرگ ہیں شایدآپ کی کچھ مدد کر سکیں ۔یہ سنتے ہی میں تیز تیز قدم اٹھاتی حلوائی کے پاس جا پہنچی۔ وہ حلوہ پوریاں تل رہے تھے ۔جب میں نے اُن کے سامنے اپنے دادا کا نام لیا تو وہ کہنے لگے کہ :’’وہ تو پاکستان چلے گئے تھے اور سنا ہے کہ وہیں پر ہی انتقال کر گئے ‘‘۔ میں نے کہا ‘جی ہاں وہ اب حیات نہیں رہے ‘ وہ میرے دادا تھے اورمیں اپنے آبائی گھر کو دیکھنے کیلئے پاکستان سے یہاں آئی ہوں۔میری بات سنتے ہی حلوائی نے جلدی سے ایک لڑکے کو آواز دے کر اپنے پاس بلوایا اور اُسے ہدایت کی کہ وہ مجھے ساتھ لے جاکر میر فیض الحسن صاحب کا گھر دکھاآئیں۔حلوائی کی زبان کا لہجہ اگرچہ دو ٹوک تھا مگر ا س میں مجھے اندرون دِ لّی کی زبان کی چاشنی کی جھلک محسوس ہوئی ۔یہی چاشنی اندرون دِلّی کے مکینوں کا خاصا تھی۔ کہتے ہیں کہ دہلی کے اندر پیدا ہونا بھی ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ دِلّی والے اپنی نشست و برخاست‘ آداب و گفتار کے معاملے میں بہت محتاط تھے اورہر شخص سے بلا تفریق مذہب و ملت اُس کی عمر اور مرتبے کے اعتبار سے گفتگو کیا کرتے تھے۔گفتگو کے دوران اس بات کاخاص خیال رکھا جاتا تھا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔اگر کسی نے طعن و تشنیع کی یا کوئی ایسی بات کہہ دی جو تحقیر کے زمرے میں آئے تو دِلّی والے فوراًبھانپ لیا کرتے کہ اس بندے کا تعلق دِلّی سے ہرگز نہیں ہے۔ بیسویں صدی کے معروف شاعر اُستاد رفیق رساؔ دہلوی تو قلعے کی فصیل کے باہر رہنے والوں کو غیر ملکی سمجھتے تھے۔بزرگوں سے سنا ہے کہ دِلّی کے لوگ اکثر روز مرہ و محاوروں میں باتیں کرنا پسند کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعدپاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے خاندانوں میں سے کچھ دِلّی کے ماحول میں رچ بس گئے اور کچھ نے دِلّی کو اپنے ہی رنگوں میں ڈھال لیا۔دوسری طرف دلّی کے اصل مکینوں(قلعہ معلی کی زبان بولنے والوں) پر جو گزری سو گزری مگر اس کا کچھ کچھ خمیازہ دِلّی کو ضرور بھگتنا پڑا ۔کہاں تقسیم سے پہلے کی شاندار دِ لّی‘اُس کی ثقافت اور اُس کا ادبی منظر نامہ کہ جب آغا حشر‘علامہ راشد الخیری‘شاہد احمد دہلوی‘شان الحق حقی‘علامہ مضحک اور اخلاق احمد دہلوی جیسی عظیم ہستیاں ادبی محفلیں برپا کیا کرتی تھیں اور کہاں آج کی دِلّی کہ جس کے سینے پر کھڑے ہو کر میں اپنے آبائواجداد کی روایات اور اقدار کھوجنے نکل کھڑی ہوئی تھی۔ (عظمیٰ گیلانی کی خودنوشت سے اقتباس)
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
boht umda sharing
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
Thanks for sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks