کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
اسے کہنا دسمبر آگیا ہے
اسے کہنا
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گُپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں
اور زندگی کُہرے کی دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں پہ سو رہے ہیں
اور ان پہ برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنااگر سورج نہ نکلے گا تو کیسے برف پگھلے گی
!اسے کہنا کہ لوٹ آئے۔۔۔۔
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
Ainee (12-14-2015),intelligent086 (12-26-2015)
یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
تجھ سے ملے بغیر دسمبر گذر گیا
جو بات معتبر تھی،وہ سر سےگزر گئی
جو حرف سرسری تھا وہ دل میں اُتر گیا
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
Ainee (12-14-2015),intelligent086 (12-30-2015)
“December jab bhi aata hai”,
Wo pagli phir se beete mousam ko,
Yaad kerti hai,
Puraane cards parhiti hai,
k jis main us ne likha tha,
Main Lotoonga December main..
Naye kapre banaati hai,
Wo saara ghar sajaati hai,
December k her ik din ko
Wo gin gin ker bitaati hai..
Joonhi 15 guzarti hai
Wo kuch kuch toot jaati hai
Magar phir bhi,
Puraane albums khol ker,
Maazi ko bulaati hai.
Nahin maloom ye us ko,
k beete waqt ki khushiyaan’
Buhat takleef deti hain!
Mehiz dil ko jalaati hain..
Yun hi din beet jaate hain..!
December lot jaata hai.
Magar wo khush-feham larki,
dubaara se calender main
December k maheene k safhay ko mor ker phir se
December k sehar main doob jaati hai..!!
k aakhir us ne kaha tha,,
“Main lotoonga December main..!!”
Ainee (12-14-2015)
آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کےبکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے
ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی
کٹ گیا ہوگا
(امجد اسلام امجد)
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks