Moona (03-22-2016)
اس وقت پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی کرنے اور اقتصادی طور پر مستحکم ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان وژن2025ءمیں متعین کئے گئے اہداف اور اُنکے حصول کیلئے بیان کی گئی حکمت عملی اس بات کی آئینہ دار ہے کہ یہ ملک ترقی کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ بازاروں سے ملنے والے مثبت اشاروں اور نوجوانوں کی روز افزوں آبادی کا تقاضہ ہے کہ پاکستان دنیا کو یہ باور کرائے کہ وہ کاروبار کیلئے کھلا ہے۔ تجارت ،سرمایہ کاری اورکاروبار شروع کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوںکو ختم کرنے سے تجارت کے مواقع بڑھیں گے اور اقتصادی ترقی ہو سکے گی۔
امریکہ ان مقاصد کے حصول میں آپکا ساتھی ہے۔ ہم پائیدار ترقی کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیںاورہم دونوںمل کر ایسے تعلقات قائم کرینگے اور طریقہ کار وضع کرینگے جو ترقی کی خواہش کو حقیقت میں تبدیل کردینگے۔ہمیں فخر ہے کہ امریکہ ایک طرف تو پاکستانی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی ہے تو دوسری طرف پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والوں میں سے ایک ہے۔2013ءمیں دوطرفہ تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر سے زائد تھا۔ یہ رقم اس سال کے دوران میں دنیا کے چالیس ممالک کی خام ملکی پیداوار سے زیادہ تھی۔گذشتہ سات برسوں میںامریکی کمپنیوں نے پاکستان کی معیشت میں ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ تجارت کو مزید فروغ دینے کی غرض سے اکتوبر میں بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئر مین ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اور میں نے اطلاعات ومواصلات ٹیکنالوجی کے واشنگٹن ڈی سی اور سلیکون ویلی کا دورہ کرنیوالے ایک تجارتی وفد کی ایک ایسے وقت میں قیادت کی جبکہ کامیاب نیلامی کے بعد پاکستان میں اطلاعات ومواصلات ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیز رفتار ترقی کی راہ ہموار ہو چکی تھی۔پاکستان میں سفیر کی حیثیت سے یہ دوسرا تجارتی وفد تھا جو میری قیادت میں روانہ ہوا تھا۔گذشتہ برس تیل اور گیس کے تجارتی وفد کا دورہ انتہائی کامیاب رہا تھا اور اس وفد نے پندرہ ملین ڈالر مالیت کے معاہدے کئے تھے۔اس سال اطلاعات ومواصلات ٹیکنالوجی کے تجارتی وفد کے دورے کے کامیاب ہونے کے امکانات اور بھی زیادہ تھے۔یہ تجارتی وفود بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ جب ہم ذاتی اور کاروباری سطحوں پر براہ راست ایسے تعلقات اور روابط استوار کرتے ہیں جو عالمی سیاست کے اُتار چڑھاﺅسے متاثر نہ ہوں،تو ہمارے آپس کے تعلقات ٹھوس بنیادوں پر قائم رہتے ہیں۔
اکتوبر میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور امریکہ کی انڈر سیکریٹری برائے اقتصادی اُمور، توانائی و تجارت کیتھرین نوولی نے اکنامک اینڈ فنانس ورکنگ گروپ میں شرکت کی۔ یہ گروپ پاکستان اور امریکہ کے سٹرٹیجک ڈائیلاگ میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی کے ذریعے ہمارے اقتصادی تعلقات ترتیب پاتے ہیں۔بات چیت کا محور وہ تمام اقدامات تھے جو دونوں ملکوں کے مابین سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ کیلئے ضروری ہیں۔ ہم نے ایک ساتھ2015ءکے اوائل میں ”پاک امریکہ اقتصادی شراکت کا ہفتہ“منانے کا اعلان کیا ہے۔اس دوران میں کاروباری مواقع کے بارے میں کانفرنس منعقد ہوگی۔ اورٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ فریم ورک معاہدہ (ٹی آئی ایف اے)کا اجلاس ہوگا۔ 2014ءکے شروع میں ہم نے ٹی آئی ایف اے کی حکمت عملی وضع کی تھی جس کے تحت دو برسوں میں دوطرفہ تجارت کے حجم میں بہت زیادہ اضافہ ہونا طے کیا گیا تھا۔ ہم حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر اس حکمت عملی پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔
امریکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے اہداف کے حصول میں ایک اور طرح سے بھی مدد کر رہا ہے اور وہ شعبہ ہے بجلی کی کمی کا۔جو پاکستان کی صنعتی پیداوار میں اضافے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اب تک امریکہ بجلی کی پیداوار کے جن منصوبوں کیلئے امداد فراہم کر چکا ہے اُن کے ذریعہ 1400میگاواٹ اضافی بجلی پاکستان کے نیشنل گرڈ میں شامل ہو چکی ہے اورموجودہ منصوبوں کی استعداد کار کو بہتربناکر اور آلودگی سے پاک توانائی کی حامل ٹیکنالوجی بروئے کار لانے سے2018ءتک مزید 2000میگا واٹ بجلی مہیا ہونے لگے گی۔حال ہی میں یو ایس اوور سیز پرائیویٹ انوسٹمنٹ کارپوریشن اور جنرل الیکٹرک نے مل کر صوبہ سندھ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے پانچ منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ان پانچوں منصوبوں کے لئے ٹربائن جنرل الیکٹرک مہیا کرے گی۔آلٹرنیٹ انرجی ڈیولپمینٹ بورڈ کے اندازے کے مطابق اس مشترکہ منصوبے سے2014ءکے آخر تک 256میگا واٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہو جائے گی جبکہ 2015ءمیں اس کی پیداوار 600میگاواٹ تک پہنچ جا ئے گی۔
ہمیں فخر ہے کہ ہم مستقبل کے پاکستان میں اقتصادی شعبے میں جدیدرجحانات متعارف کرانے کی صلاحیت سے مالامال نوجوانوں کی بھی بھرپور اعانت کر رہے ہیں۔چند ہفتے پہلے پاکستان ایسوسی ایشن آف سافٹ وئیر ہاوسز نے ملک میں سب سے بڑا ٹیکنالوجی انکیوبیشن سینٹر قائم کیا ہے۔اسکے قیام میں امریکی حکومت، گوگل اور دوسری نجی کمپنیوں نے تعاون کیا ہے۔ بہت جلد اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ" وی کریٹ سینٹر©" کا افتتاح کریگا۔ یہ سینٹرمحکمہ خارجہ کے آفس آف گلوبل ویمنزایشوزکی مالی اعانت سے بنایا گیا ہے۔وی کریٹ سینٹرمیں تجارت کے شعبے سے منسلک باصلاحیت خواتین کو لیا جائیگا تاکہ انہیں تربیت ،سرپرستی اور کام شروع کرنے کیلئے سرمایہ فراہم کیا جا سکے۔
یہ پاکستان اور امریکہ کے مابین اقتصادی تعاون کے بے شمار پہلوﺅں کی چند جھلکیاں ہیں۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پاکستان کو ابھی سیکورٹی کے حوالے سے بہت سے ضروری اقدامات اُٹھانے ہیں اور اسے انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ کئے گئے اہم معاہدے پر عمل درآمد بھی کرنا ہے۔ ان تمام مرحلوں میں امریکہ پاکستان کے شانہ بہ شانہ رہے گا۔اپنے سرکاری شعبے کی صنعتوں کی ری سٹریکچرنگ، توانائی کی کمی پر قابو پانے ، نجکاری کے جرات مندانہ پروگرام پر عمل درآمداورقواعد و ضوابط کی تشکیل میں ہم پاکستان کی بھر پور حمایت جاری رکھیں گے۔
ہم سرمایہ کاری کے فروغ اور تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کیلئے پاکستان اور امریکہ دونوں ممالک کے نجی شعبوں کے مابین اشتراک کار بڑھانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔پاکستان اور امریکہ کے بہتر تعلقات کی تشکیل میں دونوں حکومتوں کی کارکردگی سے زیادہ اہمیت اس امر کی ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام اور کاروباری طبقے باہمی تعاون سے کس قدر کامیابیاں سمیٹتے ہیں۔
Similar Threads:
Moona (03-22-2016)
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
intelligent086 (03-22-2016)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks