اسکے ہونٹوں سے لفظ چنتا رہا
مٰیں زندگی کی نتنئی غزل بنتا رہا
....
تجھ میں گم ہو کہ جینا چاہتا ہوں
دیکھو بھلا یہ میں کیا چاہتا بوں
حسرت ویاس کی مورت بن کے
امرت عشق کا میں پینا چاہتا ہوں
.......
تیرے ہونے نہ ہونے کا, کبھی کبھی اثر نہیں ہوتا
دل ہے کہ تیری یاد سے بھی روٹھ جاتا ہے
....
کون کہتا ہے عشق میں ضابطے نہیں ہوتے
گر تم میں ضبط نہیں تو پھر کوئی عشق نہٰں
....
ماضی کیا مستقبل کیا
چلو آئو ابھی ہاتھ تھامیں
...
وہ ہوتی ہے تو احساس کے ساتھ
وہ جاتی ہے میری سانس کے ساتھ
وہ رہتی ہے میری آس کے ساتھ
وہ مہکتی ہے میری خوش باس کے ساتھ
محبت ہی نہ مانے تو محبت کیا ہوئی
....
پر اس ستم بالائے ستم سے عشق ہی ہوگیا
...
میری بیباکیوں گستاخیوں سے گلہ نہ کر
تجھے خواھش ہے جو اقرار کر اظہار کر
....
سوئی جاگی آنکھوں کے
تیرے میرے رتجگے
تیری سانسوں کی
سرسراھٹیں
راحتوں کی
آھٹیں
اچھی لگنے لگی ہیں
ہاں بہت
اچھی لگنے لگی ہیں ۔۔۔
...
دل کا عارضہ تھا جو بڑھتا ہی گیا
جو سراب تھے سبھی سیلاب ہوئے
....
illusionist
Bookmarks