Moona (02-17-2016)
ان ہی دنوں ہم ایک بار الحمرا آرٹ کونسل گئے، تو وہاں ایک نوجوان کو غزل گاتے سن کر بہت جی خوش ہوا۔ بعد میں مسعود اشعر نے ان سے ملاقات کرائی۔ ان کا نام خلیل احمد تھا۔ بہت اچھے اور دلچسپ آدمی تھے اور ان دنوں مسعود اشعر کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔ خلیل احمد کو گلوکار بننے کا شوق تھا۔ ویسے کسی انگریزی کمپنی میں ملازم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ فلم ’’گلنار‘‘ کیلئے میڈم نور جہاں کے ساتھ ایک ڈوئیٹ بھی گا چکے ہیں جو کہ ایک نئے گلوکار کیلئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ خلیل احمد کی آواز میں مِٹھاس اور سریلا پن تھا، مگر وہ گلو کار نہ بن سکے۔ کچھ عرصے بعد موسیقار بن گئے۔ ہماری پہلی فلم ’’کنیز‘‘ کے موسیقار بھی خلیل احمد ہی تھے۔ خلیل احمد اور مسعود اشعر کی دعوت پر ہم ان کے گھر بھی گئے۔ یہ مکان اور فلیٹ کی مِلی جُلی شکل تھی۔ میکلوڈ روڈ پر ایک مکان کی دوسری منزل پر چند کمرے تھے، جن میں یہ رہا کرتے تھے۔ ان کے برابر والے کمرے میں ایک چھوٹے قد کے گول مٹول نوجوان اور ایک سنجیدہ مزاج خان صاحب ساتھ رہتے تھے۔ گول مٹول، نوجوان کا نام قمر زیدی تھا۔ یہ ’’گلنار‘‘ میں امتیاز علی تاج صاحب کے اسسٹنٹ تھے۔ ہم یہ سن کر بہت مرعوب ہوئے۔ وہ ہمیں ’’گلنار‘‘ کے قصے سناتے رہے۔ یہ وہی ببو بیگم ہیں، جن سے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے والد سرشاہ نواز بھٹو نے شادی بھی کی تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ باقاعدہ شادی نہیں تھی، لیکن کافی عرصے تک ببو بیگم ان کے نام سے منسوب ر ہیں اور ان کا تذکرہ بڑے پیار اور احترام سے کیا کرتی تھیں۔ بھٹو صاحب برسراقتدار آئے تو انہوں نے ببو بیگم کو مالی امداد اور زمین بھی دی تھی۔ ببو بیگم اپنی جوانی میں تو حشر سامانیاں کرتی ہی تھیں، مگر جب ہم نے انہیں دیکھا تو ادھیڑ عمر ہو چکی تھیں۔ جسم فربہ ہو گیا تھا ،رنگ سانوالا تھا، مگر نقش و نگار بہت تیکھے اور دلکش تھے۔ وہ بے اولاد تھیں اور زندگی کے آخری سال انہوں نے اپنے جاننے والوں کے گھروں میں کاٹے۔ اگلے وقتوں میں لاکھوں کمائے اور لاکھوں ہی لٹائے۔ کہتے ہیں کلکتہ یا بمبئی کی کسی دکان میں جاتی تھیں، تو ساری دکان خرید لیتی تھیں۔ اس شاہانہ اصراف کا نتیجہ یہ ہوا کہ بڑھاپے کیلئے کچھ بھی بچا کر نہ رکھا۔ آخر وقت تک معاش کیلئے فلموں میں کام کرتی رہیں، جس کسی کے گھر رہتیں اسے اپنے اخراجات کی رقم دینے کی کوشش کرتیں۔ اگر پیسے پاس نہ ہوتے تو گھر کے کام اور دیکھ بھال کر کے اس احسان کو اتارنے کی کوشش کرتیں۔ بڑی وضع دار اور خود دار خاتون تھیں۔ کسی پر بوجھ بننا انہوں نے کبھی پسند نہیں کیا۔ بہت کسمپرسی کے عالم میں ان کا انتقال ہوا۔ ببو بیگم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر وقت ہنستی ہنساتی رہتی تھیں۔ کیا مجال جو کبھی غمگین یا سنجیدہ نظر آجائیں۔ حاضر جوابی اور فقرہ بازی میں ان کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ کسی پر بھی فقرہ کسنے سے باز نہیں رہتی تھیں،تاہم سبھی ان کا لحاظ اور احترام کرتے تھے۔ (فلمی الف لیلہ،از: علی سفیان آفاقی) ٭…٭…٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Moona (02-17-2016)
@intelligent086 Thanks 4 informative sharing
Moona (02-17-2016)
intelligent086 (02-20-2016)
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks