intelligent086 (09-26-2016)
مرزا غالب کی ایک غزل
خود پرستی سے رہے باہم دِگر نا آشنا
بے کسی میری شریکِ آئینہ تیرا آشنا
آتشِ موئے دماغِ شوق ہے تیرا تپاک
ورنہ ہم کس کے ہیں اے داغِ تمنّا، آشنا
جوہرِ آئینہ جز رمزِ سرِ مژگاں نہیں
آشنائی [1] ہم دِگر سمجھے ہے ایما آشنا
ربطِ یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار
سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا
شوق ہے "ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز"
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی، کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہکن "نقّاشِ یک تمثالِ شیریں" تھا اسؔد
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
[1] نسخۂ حمیدیہ میں " آشنا کی" بجائے "آشنائی
Last edited by KhUsHi; 09-25-2016 at 07:00 AM.
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
intelligent086 (09-26-2016)
عمدہ اور خوب صورت انتخاب
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Buhat shukria
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
Great
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks