SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: وزیراعظم نوازشریف کی بڑھتی ہوئی مشکلات

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      وزیراعظم نوازشریف کی بڑھتی ہوئی مشکلات

      وزیراعظم نوازشریف کی بڑھتی ہوئی مشکلات


      سید ظفر ہاشمی
      دھرنا سیاست دھیرے دھیرے اپنا سفرطے کرتے ہوئے دنوں کے حساب سے نصف سنچری مکمل کر چکی ہے ۔اس سیاست کا یہ سفر کب مکمل ہونا ہے، اس بارے میںفی الحال کچھ کہنا ممکن نہیں ۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کے اثرات چار سو گہرے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے اس سے اٹھنے والی آوازیں شایدقوم کی آواز بنتی جا رہی ہوں،یہ صورتِ حال یقینا حکمرانوںکے لیے خوش کن قرار نہیں دی جاسکتی ۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے رویوں سے پریشانی اور بے بسی عیاں ہے کیوں کہ جہاں جاتے ہیں گو نواز گو کے نعرے سننے کو ملتے ہیں۔ ملک کے اپنے شہر ہوں یا بیرونی دنیا کی نامانوس فضائیں...... اس نعرے نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیاہے ۔چناں چہ وہ جو یہ کہتے تھے کہ وہ چند ہزار لوگوں کے کہنے پر استعفیٰ کیسے دے سکتے ہیں، ان کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ کیا یہ واقعی چند ہزار لوگ ہیں ؟ دھرنا دینے والی جماعتوں پر تنقید اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ان سے ملک کو بے پناہ اقتصادی اور معاشی نقصان ہوا ہے اور عوام کو بھی بے حدتکا لیف اٹھانا پڑی ہیں لیکن ان دھرنوں نے عوام کو جس طرح متحرک کیا ہے، اس کو توان کے مخالفین بھی تسلیم کر رہے ہیں ۔ عمران خان کو کراچی کے جلسے نے جو حوصلہ دیا تھا، لاہور کے جلسے نے اس حوصلے کونئی جلا بخشی ہے ۔ ملک کے ان دونوں بڑے شہروں سے پی ٹی آئی کو ملنے والے رسپانس نے لمحہ بھر کے لیے تو حکومت کو ضرور جھٹکا دیا ہوگا اور اس اندیشے سے بھی ضرور دوچار کیا ہو گا کہ اگر باقی شہروں میں بھی جلسے کے حاضرین کی تعداد یہی رہی تو اس کے اثرات اور دبائو سے خود کو بچاناکس طرح ممکن ہو گا ؟ اور تو اور اب تو پیپلز پارٹی نے بھی وزیر اعظم کو درمیانی مدت کے انتخابات کا مشورہ دے کر اس دبائو میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شا ہ کا مشورہ کچھ بھی ہو مگر ان کی جانب سے وہ مطالبہ آہی گیا جس کا تذکرہ اب تک خود دھرنا دینے والی جماعتوں نے بھی کھل کر نہیں کیا تھا ۔ان حالات میں قائد حزب اختلاف کی طرف سے یہ تجویز اس بات کی غماز ہے کہ انہوں نے صورتِ حال کو بھانپ لیا ہے اور وہ سمجھ چکے ہیں کہ امپائر کے رویے سے مایوس ہونے کے بعد عمران خان جس راستے پر چل پڑے ہیں، وہ حکومت کو کس طرف لے کر جائے گا ۔چناں چہ انھوں نے بروقت یہ تجویز دے کر میاں صاحب کو نہ صرف ملک کو بحران سے نکالنے کا رستہ دکھا یا ہے بلکہ خودا ن کو بھی اس مسئلے سے جان چھڑانے کی راہ دکھائی ہے۔ دوسری جانب یہ محسوس ہوتا ہے کہ جلسوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت دیکھ کر پیپلز پارٹی نے بھی یہ طے کر لیا ہے کہ وہ اب خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرے گی بلکہ کھل کر سیاست کرے گی ۔ بلاول بھٹو کا سیاست میں متحرک ہو نا اور ناراض کارکنوں سے معافی مانگنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ اپنی کھوئی قوت کو مجتمع کر کے سیاست میں اپنا کردار ادا کرے گی ورنہ ایسا نہ ہو کہ کہیں بہت دیر ہو جائے ۔ پیپلز پارٹی نے خودکو سیاست میں متحرک کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے ، اگرچہ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملک میںجمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنا اور اسے کسی اندھیرے کنوئیں میں گرنے سے بچانا بھی اس کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے ۔ خورشید شاہ کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ بندوق اور ڈنڈے کے زور پر کوئی مطالبہ ماننا ملکی مفاد میں نہیں ہو گا اور نہ ہی ایسا کیا جا سکتا ہے لیکن ایسے میں رضاکارانہ طور پر قربانی دینے کا راستہ تو ہر وقت کھلا رہتا ہے ۔ اگر وزیر اعظم یہ نہیں کرنا چاہتے تو پھر انھیںا ور ان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ میدان میں آئے اور اپنے مخالف کا اس طرح مقابلہ کرے جس طرح ان کا مخالف ان پر حملے کر رہا ہے، وہ ان الزامات کا جواب دیں جو عمران خا ن کی جانب سے ان کی ذات اور ان کی حکومت پر لگائے جا رہے ہیں ۔ عمران خان اپنے مؤقف کے باعث حکومت پر حاوی دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے الزامات کا جواب نہ آنا حکومت کی کمزوری کی دلیل ہے ۔دوسری جانب تحریکِ انصاف نے دھرنوں میں لوگوں کی کم شرکت کے باعث ہونے والی تنقید پر جلسوں کے ذریعے حکومت پر دبائو بڑھانے کا فیصلہ کیا جس میں وہ کامیاب رہی ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر لیا ہے اور فوج کو ثالث بنانے کے حوالے سے ایک بیان کو بنیاد بناتے ہوئے وزیراعظم کو جھوٹا قرار دلوانے کے حوالے سے نااہلی کا ریفرنس عدالت عظمیٰ میںدائر کر دیا ہے جس پر ان دنوں سماعت جاری ہے۔ مزید برآں مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین بھی اسی الزام میں وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے ہیں ۔ ان کا مؤقف ہے کہ اسمبلی کے فلور پر جھوٹ بولنے کے بعد میاں نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے، چناں چہ انھیں نا اہل قرار دیا جائے ۔اگرچہ لاہور ہائیکورٹ قبل ازیں نہ صرف اس نوعیت کی درخواستوں کو مسترد کر چکی ہے بلکہ اپنے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی خارج کر چکی ہے۔ عمران خان کی یہ کوشش اور خواہش بھی ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن میں دھاندلی کے واقعات کا نوٹس لے ۔ان کے خیال میں اگرسپریم کورٹ دھاندلی کا نوٹس لے لے تو حکومت کے خاتمے کی راہ نکل سکتی ہے۔ ادھر ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اسلام آباد کے حکم پر وزیراعظم، وزیر اعلی پنجاب سمیت گیارہ افراد کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں اقدامِ قتل اور دہشت گردی کی دفعات پر مشتمل مقدمہ درج کیا جا چکا ہے ۔یہ مقدمہ 30 اور31اگست کی درمیانی شب وزیر اعظم ہاوس کی جانب مارچ کر نے والے پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں پر ہونے والی فائرنگ اور ہلاکتوں کے نتیجے میں درج کیا گیا ہے ۔ بہ ظاہر عمران خان حکومت پر جلسوں کے ذریعے دبائو بڑھا کر نتائج کے حصول کی کوشش کے علاوہ اب عدلیہ سے توقع لگا چکے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امپائر نے تو ان کا ساتھ نہیں دیا لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ عدلیہ کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کر پائیں۔ اس کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی طاقت کے اظہار میں بھی مصروف ہو گئے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیںکہ جس جد و جہد کا وہ آغاز کر چکے ہیں، اس میں وہ اکیلے نہیں ہیںبلکہ اس ملک کے کروڑوں عوام بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ ٭٭٭


      Similar Threads:

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (05-09-2016)

    3. #2
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: وزیراعظم نوازشریف کی بڑھتی ہوئی مشکلات

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
      وزیراعظم نوازشریف کی بڑھتی ہوئی مشکلات




      سید ظفر ہاشمی
      دھرنا سیاست دھیرے دھیرے اپنا سفرطے کرتے ہوئے دنوں کے حساب سے نصف سنچری مکمل کر چکی ہے ۔اس سیاست کا یہ سفر کب مکمل ہونا ہے، اس بارے میںفی الحال کچھ کہنا ممکن نہیں ۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کے اثرات چار سو گہرے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے اس سے اٹھنے والی آوازیں شایدقوم کی آواز بنتی جا رہی ہوں،یہ صورتِ حال یقینا حکمرانوںکے لیے خوش کن قرار نہیں دی جاسکتی ۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے رویوں سے پریشانی اور بے بسی عیاں ہے کیوں کہ جہاں جاتے ہیں’’ گو نواز گو‘‘ کے نعرے سننے کو ملتے ہیں۔ ملک کے اپنے شہر ہوں یا بیرونی دنیا کی نامانوس فضائیں...... اس نعرے نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیاہے ۔چناں چہ وہ جو یہ کہتے تھے کہ وہ چند ہزار لوگوں کے کہنے پر استعفیٰ کیسے دے سکتے ہیں، ان کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ کیا یہ واقعی چند ہزار لوگ ہیں ؟ دھرنا دینے والی جماعتوں پر تنقید اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ان سے ملک کو بے پناہ اقتصادی اور معاشی نقصان ہوا ہے اور عوام کو بھی بے حدتکا لیف اٹھانا پڑی ہیں لیکن ان دھرنوں نے عوام کو جس طرح متحرک کیا ہے، اس کو توان کے مخالفین بھی تسلیم کر رہے ہیں ۔ عمران خان کو کراچی کے جلسے نے جو حوصلہ دیا تھا، لاہور کے جلسے نے اس حوصلے کونئی جلا بخشی ہے ۔ ملک کے ان دونوں بڑے شہروں سے پی ٹی آئی کو ملنے والے رسپانس نے لمحہ بھر کے لیے تو حکومت کو ضرور جھٹکا دیا ہوگا اور اس اندیشے سے بھی ضرور دوچار کیا ہو گا کہ اگر باقی شہروں میں بھی جلسے کے حاضرین کی تعداد یہی رہی تو اس کے اثرات اور دبائو سے خود کو بچاناکس طرح ممکن ہو گا ؟ اور تو اور اب تو پیپلز پارٹی نے بھی وزیر اعظم کو درمیانی مدت کے انتخابات کا مشورہ دے کر اس دبائو میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شا ہ کا مشورہ کچھ بھی ہو مگر ان کی جانب سے وہ مطالبہ آہی گیا جس کا تذکرہ اب تک خود دھرنا دینے والی جماعتوں نے بھی کھل کر نہیں کیا تھا ۔ان حالات میں قائد حزب اختلاف کی طرف سے یہ تجویز اس بات کی غماز ہے کہ انہوں نے صورتِ حال کو بھانپ لیا ہے اور وہ سمجھ چکے ہیں کہ امپائر کے رویے سے مایوس ہونے کے بعد عمران خان جس راستے پر چل پڑے ہیں، وہ حکومت کو کس طرف لے کر جائے گا ۔چناں چہ انھوں نے بروقت یہ تجویز دے کر میاں صاحب کو نہ صرف ملک کو بحران سے نکالنے کا رستہ دکھا یا ہے بلکہ خودا ن کو بھی اس مسئلے سے جان چھڑانے کی راہ دکھائی ہے۔ دوسری جانب یہ محسوس ہوتا ہے کہ جلسوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت دیکھ کر پیپلز پارٹی نے بھی یہ طے کر لیا ہے کہ وہ اب خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرے گی بلکہ کھل کر سیاست کرے گی ۔ بلاول بھٹو کا سیاست میں متحرک ہو نا اور ناراض کارکنوں سے معافی مانگنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ اپنی کھوئی قوت کو مجتمع کر کے سیاست میں اپنا کردار ادا کرے گی ورنہ ایسا نہ ہو کہ کہیں بہت دیر ہو جائے ۔ پیپلز پارٹی نے خودکو سیاست میں متحرک کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے ، اگرچہ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملک میںجمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنا اور اسے کسی اندھیرے کنوئیں میں گرنے سے بچانا بھی اس کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے ۔ خورشید شاہ کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ بندوق اور ڈنڈے کے زور پر کوئی مطالبہ ماننا ملکی مفاد میں نہیں ہو گا اور نہ ہی ایسا کیا جا سکتا ہے لیکن ایسے میں رضاکارانہ طور پر قربانی دینے کا راستہ تو ہر وقت کھلا رہتا ہے ۔ اگر وزیر اعظم یہ نہیں کرنا چاہتے تو پھر انھیںا ور ان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ میدان میں آئے اور اپنے مخالف کا اس طرح مقابلہ کرے جس طرح ان کا مخالف ان پر حملے کر رہا ہے، وہ ان الزامات کا جواب دیں جو عمران خا ن کی جانب سے ان کی ذات اور ان کی حکومت پر لگائے جا رہے ہیں ۔ عمران خان اپنے مؤقف کے باعث حکومت پر حاوی دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے الزامات کا جواب نہ آنا حکومت کی کمزوری کی دلیل ہے ۔دوسری جانب تحریکِ انصاف نے دھرنوں میں لوگوں کی کم شرکت کے باعث ہونے والی تنقید پر جلسوں کے ذریعے حکومت پر دبائو بڑھانے کا فیصلہ کیا جس میں وہ کامیاب رہی ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر لیا ہے اور فوج کو ثالث بنانے کے حوالے سے ایک بیان کو بنیاد بناتے ہوئے وزیراعظم کو جھوٹا قرار دلوانے کے حوالے سے نااہلی کا ریفرنس عدالت عظمیٰ میںدائر کر دیا ہے جس پر ان دنوں سماعت جاری ہے۔ مزید برآں مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین بھی اسی الزام میں وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے ہیں ۔ ان کا مؤقف ہے کہ اسمبلی کے فلور پر جھوٹ بولنے کے بعد میاں نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے، چناں چہ انھیں نا اہل قرار دیا جائے ۔اگرچہ لاہور ہائیکورٹ قبل ازیں نہ صرف اس نوعیت کی درخواستوں کو مسترد کر چکی ہے بلکہ اپنے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی خارج کر چکی ہے۔ عمران خان کی یہ کوشش اور خواہش بھی ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن میں دھاندلی کے واقعات کا نوٹس لے ۔ان کے خیال میں اگرسپریم کورٹ دھاندلی کا نوٹس لے لے تو حکومت کے خاتمے کی راہ نکل سکتی ہے۔ ادھر ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اسلام آباد کے حکم پر وزیراعظم، وزیر اعلی پنجاب سمیت گیارہ افراد کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں اقدامِ قتل اور دہشت گردی کی دفعات پر مشتمل مقدمہ درج کیا جا چکا ہے ۔یہ مقدمہ 30 اور31اگست کی درمیانی شب وزیر اعظم ہاوس کی جانب مارچ کر نے والے پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں پر ہونے والی فائرنگ اور ہلاکتوں کے نتیجے میں درج کیا گیا ہے ۔ بہ ظاہر عمران خان حکومت پر جلسوں کے ذریعے دبائو بڑھا کر نتائج کے حصول کی کوشش کے علاوہ اب عدلیہ سے توقع لگا چکے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امپائر نے تو ان کا ساتھ نہیں دیا لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ عدلیہ کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کر پائیں۔ اس کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی طاقت کے اظہار میں بھی مصروف ہو گئے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیںکہ جس جد و جہد کا وہ آغاز کر چکے ہیں، اس میں وہ اکیلے نہیں ہیںبلکہ اس ملک کے کروڑوں عوام بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ ٭…٭…٭



      @intelligent086 Thanks 4 informative sharing


      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •