SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 7 of 7

    Thread: بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائزہ

    1. #1
      UT Poet www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Dr Maqsood Hasni's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      2,263
      Threads
      786
      Thanks
      95
      Thanked 283 Times in 228 Posts
      Mentioned
      73 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      82

      بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائزہ


      بھرتری ہری
      اور
      اس کی شاعری کا تعارفی جائزہ

      آج پرانی کتابوں اور مخطوطوں کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک بھرتری ہری کے کچھ کلام کا ترجمہ ہاتھ لگا۔ یہ تحفہ عکسی نقول کی صورت میں دستیاب ہوا ہے۔ اسے میں نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور کی لائبریری سے دستیاب کتاب کی عکسی نقل کی صورت میں محفوظ کیا تھا۔

      آزاد ترجمہ جے کرشن چودھری نے کیا جون ١٩٥٩ میں جید برقی پریس دہلی نے اسے شائع کیا تھا جب کہ جملہ حقوق بحق ادارہ انیس اردو الہ آباد محفوظ تھے۔ کتاب کا انتساب مہاراجہ سری سوائی تج سنگھ جی بہادر کے نام کیا گیا ہے۔ پیش لفظ جوش ملیح آبادی جب کہ دیباچہ تلوک چند محروم نے تحریر کیا ہے۔ دیگر تفصیلات خود جے کرشن چودھری نے تحریر کی ہیں۔ اس عکسی کتاب کا پہلا صفحہ موجود نہیں اس لیے کتاب کا نام درج نہیں کیا جا سکتا۔

      بھرتری ہری سے متعلق کچھ کچھ جانتا تھا لیکن تفصیلات سے آگاہ نہ تھا۔ اس کتاب کے حوالہ سے بھرتری ہری سے متعلق جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ اس اشتیاق کی وجہ جوش ملیح آبادی کے یہ الفاظ بنے:
      بھرتری ہری کی شخصیت و اہمیت سے ہر وہ شخص واقف ہے جسے فلسفے اور ادب سے لگاؤ ہے۔

      میں ادیب ناسہی ادب سےلگاؤ ضرور رکھتا ہوں۔ جے کرشن چودھری نے بھرتری ہری سے متعلق بڑی اہم معلومات فراہم کر دی ہیں۔ انہیں پڑھ کر بھرتری ہری کے متعلق بہت کچھ ہاتھ لگ جاتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مزید جاننے کا شوق ہرچند بڑھ جاتا ہے۔ مزید جاننے کے لیے میں نے انٹرنیٹ ریسرچ کا سہارا لیا۔ کافی کچھ پڑھنے کو ملا ہے اور اس حوالہ سے بھرتری ہری کو جاننے میں مدد ملی ہے۔ اس مواد کے حوالہ سے ان کی شاعری کو بھی سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے مجھے یہ بھی سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے کہ وہ اپنے عہد کے عظیم بھگت عارف اور صوفی تھے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے شاید آپ بھی اس سے مختلف نہ
      سمجھیں گے۔
      ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی تخلیق کا منتقل کرنا بلاشبہ بڑا مشکل گزار کام ہے۔ اس کے لیے دونوں زبانوں میں مہارت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ باطور خاص شاعری کا ترجمہ اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ شاعر لفظوں کا استعمال عمومی مفاہیم سے ہٹ کر کرتا ہے۔ گویا مترجم کا حسن شعر سے آگاہی ہونا بھی اس ضمن میں ضروری قرار پاتا ہے۔ وہ نزدیک کے مفاہیم تک محدود نہیں رہتا۔ اس نثری ترجمے کے مطالعہ سے یہ امر کھل کر سامنے آتا ہے کہ جے کرشن چوھدری ناصرف دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے تھے بل کہ شاعری سے بھی شغف خاص رکھتے تھے۔ تب ہی تو انہوں نے شعری لوازمات کے لیے ضرورت کے مطابق اردو مترادفات تلاشے ہیں۔ خصوصا تشبیہات کے لیے انہوں نے بڑے عمدہ مترادفات کا استعمال کیا ہے۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحطہ فرما لیں:
      چاند سا خوب صورت مکھڑا
      کنول کو شرمانے والی مخمور آنکھیں
      سونے کی چمک کو ماند کر دینے والا کندن سا جسم
      بھنوروں سے بڑھ کر سیاہ گھنی زلفیں
      طلائی کلس کی طرح چھاتیوں کا ابھار
      ہاتھی کی سونڈ کی طرح خوشنما اور گداز رانیں
      مجموعہ شرنگارشتک

      آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق:
      بھرتری ہری کا زمانہ پہلی صدی عیسوی قبل مسیح کا ہے۔بھرتری ہری کا تعلق شاہی خاندان سے تھا جس کا دارالحکومت اجین تھا ۔۔ راجا بکرماجیت کا بھائی بیان کیا جاتا ہے۔

      ڈاکٹر سلیم خاں کے مطابق:
      بھرتری ہری پہلی صدی عیسوی قبل مسیح میں سنکر تزبان کا شاعر تھا ۔ ریاستِ مالوہ کےاس راجہ کا دارالخلافہ اجین تھا
      کہا جاتا ہے کہ وہ راجہ وکرم مادتیا کا بھائی تھا۔

      چوہدری جے کرشن کے مطابق:
      وہ اجین یا اس کے نواح کے شاہی خاندان سے تعلق رتھتا تھا اور اس نے کچھ عرصہ حکومت بھی کی۔۔۔۔کئی مورخ اسے مہاراجہ بکرماجیت کا جس نے بکری سمت جاری کیا بھائی بتاتے ہیں۔ اس رائے کو درست تسلیم کیا تو وہ پہلی صدی قبل مسیح میں ہیدا ہوا۔ کئی محققین اس کا زنانہ ٦٥٠ء کے قریب بتاتے ہیں۔ جب سلادتیہ دوئم اجین کے تخت پر متمکن تھا۔ اگر مختلف راوئتوں کو درست تسلیم کیا جائے تو پہلی رائے زیادہ جاندار معلوم ہوتی ہے۔

      بھرتری ہری سے منسوب ایک داستان جسے جے کرشن چوھدری نے نقل کیا ہے اور یہ آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا میں بھی ملتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
      بھرتری ہری نے ایک کامیاب دنیا دار کی زندگی کا تجربہ کیا اور دنیاوی آلائشات میں اس حد تک منہمک ہوا کہ فکری اور تخلیقی زندگی کے بہت سے شعبوں سے اس کی توجہ ہٹی رہی۔ اس کی شادی ایک خوبصورت ملکہ پنگلا سے ہوئی۔ وہ بیوی پر اس حد تک فریفتہ تھا کہ اس کی کچھ دیر کی جدائی بھی گوارا نہیں تھی۔ ہر وقت سایے کی طرح اس کے ساتھ رہتا جس سے ریاستی معاملات میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اس کے رویے پر اس کا چھوٹا سوتیلا بھائی وکرما دتیہ معترض تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا بھرتری ہری کو راج نیتی میں زیادہ وقت صرف کرنا چاہئے۔

      اس کے اعتراضات کے نتیجے میں مہارانی پنگلانے اس کے خلاف بھرتری ہری کو بدگمان کرنا شروع کیا اور آخر اسی کے اشارے پر راجہ نے وکرما دتیہ کو شہر سے نکلوادیا۔تاہم زیادہ عرصہ وہ اپنی بیوی کے سحر میں گرفتار نہ رہ سکاکیونکہ اس کی وفادری مشکوک تھی۔

      اس کی بیوی کی بے وفائی سے منسوب حکایت ہےجس کے مطابق بھرتری ہری کو ایک پنڈت نے ایک پھل کا تحفہ دیا جسے کھانے سے زندگی کا دورانیہ بڑھ جاتا تھا۔ اس نے وہ پھل اپنی پتنی مہارانی پنگلا کو دے دیا۔

      مہارانی نے پھل لے لیا لیکن اس سے کہا کہ وہ اسے نہانے کے بعد ہی کھائے گی۔ یہ سن کر راجہ لوٹ گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ مہارانی پنگلا ایک شاہی سائیس کے عشق میں مبتلا تھی۔ اس نے وہ پھل اسی سائیس کو دے دیا۔ وہ سائیس کسی طوائف سے محبت کی پینگیں بڑھائے ہوئے تھا۔ یوں وہ پھل سائیس سے ہوکر طوائف تک پہنچا۔ جب کہ طوائف نے راجہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے یہ تحفہ لاکر بھرتری ہری کو دیا۔ اس پھل کو وہ پہچان گیا اور اس سے بولا کہ وہ پھل اس کے پاس کہاں سے آیا اور یوں اس کے لیے اس بات کا سراغ لگانا زیادہ مشکل ثابت ہوا کہ اس کی بیوی بے وفا تھی۔ راجہ نے وہ پھل اس سے لیا اور فوراً کھالیا۔

      مہارانی کی بے وفائی کا بھرتری ہری کی زندگی پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ سبھی دنیادی آلائشات سے کنارہ کش ہوگیا۔ حتی کہ اس نے شاہی زندگی کو بھی تیاگ دیا اور جنگلوں میں رہائش اختیار کرلی۔

      محمد کاشف علی کا کہنا ہے:
      راجہ بھرتری تو خود راج پاٹ تیج کر، اپنے بھائی وکرم جیت کو تاج و تخت سونپ کر واردِ ٹلہ ہوا جبکہ کے راجہ سلواہن کا بیٹا پورن، گرو گورکھ ناتھ کا بھگت بنا تھا۔ آج بھی سیالکوٹ کی تاریخی اور ثقافتی کہانی تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک پورن بھگت کا قصہ سماعتوں کی گلیوں سے ہو کر نہ گزرے۔ لوک روایات کے بیانیے میں مبالغہ تو ہوسکتا ہے مگر قدیم ہند کی تاریخ نگاری لوک روایات سے ہی اتنی ضخیم ہوئی ہے۔ لوک روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مخصوص سماج کی مشترکہ یاداشت ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے بھلے اس میں جزئیات کی آمیزش ہوتی رہے۔
      یہ مقدس پہاڑ ٹلہ گورکھ ناتھ سے ٹلہ بالناتھ بنا اور پھر عالم میں ٹلہ جوگیاں کا نام پایا،

      مغل بادشاہ اکبر کا وقائع نویس ابوالفضل اسے ٹلہ بالناتھ کے نام سے ہی آئینِ اکبری میں جگہ دیتا ہے اور اسی کے مطابق اکبر نے 1581ء میں اس جوگیوں کے اس مقدس پہاڑ کی یاترا کی۔

      شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی کے وسط میں جرنیلی سڑک سے منسلک دینہ میں قلعہ روہتاس جو بنوا رکھا تھا تو اس کے بعد جب مغل شاہان یہاں سے گزرا کرتے تو یقیناً قیام تو کرتے ہوں گے اور کچھ ٹلہ کی زیارت بھی کرتے ہوں گے، بہر کیف تاریخ میں نورالدین جہانگیر بادشاہ کا ذکر تو مل ہی جاتا ہے کہ وہ ایک بار تو جوگیوں کے مقدس پہاڑ تک آیا۔

      آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق وہ:
      بھرتری ہری قدیم ہندوستان کا سنسکرت کا عظیم فلسفی، ماہر لسانیات ،شاعر اور نجومی تھا۔ راج پاٹ چھوڑ کر جوگی بن گیا۔ وہ جدت پسند نظریہ ساز ہونے کے ساتھ ساتھ پانینی کے بعد سنسکرت کا سب سے اہم ماہر لسانیات بھی تھا۔

      ڈاکٹر نیر عباس نیر نے بڑے کمال کی کہی ہے:
      افلاطون نے یہ بحث Cratylas میں اٹھائی ہے۔ بالعموم یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ زبان اور دنیا کے رشتے پر غور کرنے والا پہلا آدمی افلاطون ہے، جو درست نہیں ہے۔ افلاطون سے کہیں پہلے بھرتری ہری یہ بحث پیش کر چکا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بھرتری ہری اور افلاطون دونوں زبان اور دنیا کے رشتے کو حقیقی اور فطری قرار دیتے ہیں۔

      آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق اس کی چار کتابیں دسیاب ہیں:
      شرنگار شتک: اس شتک میں سو شلوک ہیں اس میں بھرتری ہری نے عشق و محبت کی باتیں کی ہیں۔
      نیتی شتک: کہا جاتا ہے کہ جب بھرتری ہری اجین کا راج کمار تھا تب اس نے نیتی شتک لکھا تھا جس کا مطلب سیاست ہے ، اس شتک میں اس دور کی سیاست کی عکاسی ہے۔
      ویراگیہ شتک : جب بھرتری ہری نے سنیاس لے لیا اور اپنا راج پاٹ چھوڑ کر فقیری اختیار کیا تو اس نے ویراگیہ شتک لکھا اس کا مطلب ہے معرفتِ الہٰی اور فقیری۔
      واکیہ پدیہ صرف نحو کی ایک کتاب شامل ہے۔
      سید یعقوب شمیم کے مطابق:

      1670
      میں اس کی اخلاقی نظموں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا تھا اس کے علاوہ Schiefmer اور Weber نے اس کی نظمیں لاطینی میں ترجمہ کے ساتھ شائع کیں۔ بھرتری ہری کی نظموں کا ترجمہ جرمنی زبان میں Bohler اور Schtz نے کیا ہے۔
      Prof. Tawney کی تصنیف Indian Artiquiary میں ان نظموں کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا گیا

      آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق:
      اقبال بھرتری ہری کے قول وعمل سے بہت متاثر ہیں اور تمام انسانوں کی فلاح کا راستہ بتاتے ہیں ۔ بھرتری ہری کے اس فکر وعمل سے اقبال نے بہت فائدہ اٹھایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ بھرتری ہری کے اس فکر کا اثر اقبال کے کلام میں ہمیں جابجا نظر آتا ہے ۔ اسی لیے علامہ اقبال نے بال ِجبریل کا آغاز اس شعر سے کیا ہے۔
      پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

      مر د ناداں پر کلام ِ نر م و نازک بے اثر
      اقبال بھرتری ہری کی عظمت کے اس قدر قائل تھے کہ بھرتری ہری کو فلک الافلاک پر جگہ دی ہے جس کو ہم جنت الفردوس کے نام سے جانتے ہیں
      اس کی شاعری کے بارے سید یعقوب شمیم کا کہنا ہے:
      آج بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں بالخصوص شمالی ہند کے علاقہ اجین میں بھرتری ہری کے خیالات لوک گیتوں اور لوک نظموں کی صورت میں موجود ہیں

      علامہ کی وسعتِ نظری اور کشادہ دلی نے انہیں سرزمین ہند کے عظیم فلسفی اور شاعر بھرتریہری کا بھی دلدادہ بنا دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی مشہور کتاب بال جبریل کے سر ورق پر بھرتری ہری کے شعرکا ترجمہ لکھا ہے۔ کسی شعری مجموعے کی ابتداء میں کسی دوسرے فلسفی کے شعر کے موجودگی کا منفرد اعزاز کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہوگا ۔

      سید یعقوب شمیم کے مطابق:
      اقبال نے اس کے کلام کا منظوم ترجمہ بھی پیش کیا ہے جنہیں بھگوت گیتا کی تعلیمات کا خلاصہ کہا جاسکتا ہے۔
      ایں خدایان تنک مایہ زسنگ اندو زخشت
      برترے ہست کہ دور است ز دیر و کنشت
      اس کا انتقال ۶۵۱ء میں ہوا تھا

      مواد کی حصولی کے لیے ان ویب سائٹسز سے شکریے کے ساتھ مدد لی گئی ہے۔
      http://www.urdulinks.com/urj/?p=544
      http://humshehrionline.com/?p=9181#sthash.WQShfTkT.dpuf
      http://www.mazameen.microiways.com/L...Sunskreet.aspx
      http://llisaniatortanqeed.blogspot.c...criticism.html
      https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8...81%D8%B1%DB%8C
      https://urdu.siasat.com/news/%D8%A7%...%DB%8C-818856/
      https://www.urduweb.org/mehfil/threa...7%DA%BA.93005/

      بھرتری سے منسوب اس روایت کی مثال اشارتی سہی ان کے کلام میں بھی ملتی ہیں۔ مثلا

      میں ہوں جس کا پریمی
      وہ ہے دوجے مرد کی دوانی
      اور دوجا مرد دوسری
      نار کے دَر کا سیلانی
      پر وہ دوجی نار پیار کی
      ماری مرتی ہے مجھ پر
      سو سو لعنت کام دیو١ پر
      مجھ پر اور اس پر اور اس پر
      ترجمہ تاج قایم خانی
      ١-کام دیو محبت کا دیوتا
      ۔۔۔۔۔

      کیا عورت حقیقت میں کسی شخص سے محبت کرتی ہے
      وہ ۔۔۔بیک وقت۔۔۔ ایک انسان سے باتیں کرتی ہے
      دوسرے کی طرف نگاہ غلط انداز سے دیکھتی ہے
      اور تیسرے کی یاد کو سینے سے لگائے رکھتی ہے
      مجموعہ شرنگارشتک
      ۔۔۔۔۔

      مجموعہ شرنگارشتک میں موجود کلام عیش کوشی سے تعلق کرتا ہے۔ عورت کے حسن و جمال اور لذت کوشی پر مبنی ہے۔

      تیاگی ہونے سے پہلے وہ عورت کے کس قدر دلداہ تھے اس کا اندازہ ان کی ان دو نظموں سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے:
      وہ زاہد جو عورت کی تحقیر کرتا ہے نہ صرف خود فریبی میں مبتلا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ کیونکہ ریاضت اس لیے کی جاتی ہے کہ بہشت ملے۔ اور بہشت کے حصول سے غرض اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپسراؤں ۔۔۔حوروں۔۔۔۔ کا وصل نصیب ہو۔

      جے کشن چوھدری نے اس خیال سے ملتی خیام کی ایک رباعی بھی درج کی ہے۔
      گویند بہشت وجود عین خواہد بود
      و آنجا مے ناب و انگبین خواہد بود
      گرمائے و معشوق پرستیم رواست
      چوں عاقبت کار ہمیں خواہد بود
      مجموعہ شرنگارشتک
      ۔۔۔۔۔

      ایک حسین عورت کامدیو ۔۔۔۔عشق کا دیوتا۔۔۔ کا آلہءکار ہے۔ جس کے توسط سے دنیا کی سب عیش وعشرت میسر ہے جو احمق عورتوں کا خیال چھوڑ بہشت کے تصور میں محو ہو جاتے ہیں۔ وہ کامدیو کے غم و غصہ کا شکار ہو کر سزا پاتے ہیں۔ جو ان کو مختلف صورتوں میں ملتی ہے۔ کبھی تو کامدیو ان کا لباس اترا لیتا ہے کبھی سرمنڈاوا دیتا ہے۔ کسی کو جٹا دھاری بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور کسی کے ہاتھ میں کشکول دیکر در در کی بھیک منگواتا ہے۔
      مجموعہ شرنگارشتک
      ۔۔۔۔۔

      بھرتری ہری کے کلام میں خوب صورت غزلیاتی تشبیہات کا بھی استعمال ہوا ہے۔ جے کرشن چوھدری نے ان کا ترجمہ کرتے وقت اپنی حس جمالیات کا پوری ذمہ داری سے استعمال کیا ہے۔ مثلا ان کا یہ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
      چاند سا خوب صورت مکھڑا کنول کو شرمانے والی مخمور آنکھیں سونے کی چمک کو ماند کر دینے والا کندن سا جسم بھنوروں سے بڑھ کر سیاہ گھنی زلفیں؛ طلائی کلس کی طرح چھاتیوں کا ۔۔۔ زہد شکن۔۔۔ ابھار ہاتھی کی سونڈ کی طرح خوشنما اور گداز رانیں اور شیرنینی کلام۔ یہ سب جوان دوشیزاؤں کے فطری جوہر ہیں۔ جو انسان کے دل و دماغ کو تسخیر کر لیتے ہیں۔
      مجموعہ شرنگارشتک

      اس نظم کو پڑھ کر شاہ لوگوں کی ذہنیت اور کرتوت کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ اس سے قطعی الگ بات ہے کہ چوری خور مورکھ اسے نبی سے کچھ انچ ہی نیچے رکھتا ہے۔ وہ وہ گن ان میں گنواتا ہے جو ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے ہوتے یا ان سے کبھی اس کی بھولے سے بھی سلام دعا نہیں ہوئی ہوتی۔

      اسی کتاب میں دو نظمیں ایسی بھی درج ہیں جو آفاقی اور عملی زندگی کی عکاس ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
      علم کے علم و فن کا چراغ محض اس وقت تک روشن ہے جب تک کسی دل نواز حسینہ کے دامن حسن کا جھوکا اس تک نہ پہنچے۔
      ۔۔۔۔۔۔

      انسان کو بزرگی فہم و فراست تمیز نیک و بد اور خاندانی وقار کا احساس تب تک رہتا ہے۔ جب تک اس کا جسم آتش عشق کے شعلوں سے محفوظ ہے!
      مجموعہ شرنگارشتک

      حسن زن اور عشق رن سے متعلق دو نظمیں ایسی بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جو زن گرفتنی کی انتہا کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ بھرتری ہری نے اس ضمن میں برہما دیو کو بھی بےدست و پا قرار دے دیا ہے۔ آپ بھی پڑھیں:
      بےانتہا محبت کی گرمجوشی میں عورت جس کام کو شروع کر دیتی ہے۔ اس کو روکنے میں برھما بھی بےدست و پا ہو جاتا ہے۔
      ۔۔۔۔۔۔

      اس دنیا میں ایسے شہزور موجود ہیں جو بدمست ہاتھیوں کے جھنڈ کو خاظر میں نہیں لاتے اور غضب ناک شیروں سے الجھنا ایک کھیل سمجھتے ہیں۔ لیکن مجھے اس بات کے کہنے میں اصرار ہے کہ ایسے بہادر بہت کم ہیں جو کامدیو کی پیدا کی ہوئی مستی کی تاب لا سکیں۔

      اس مضمون سے متعلق ایک شعر مولانا روم کا بھی درج کیا گیا ہے جو جے کرشن چوھدری کے ذوق اور فارسی دانی کا غماز ہے۔
      سہل شیرے واں کہ صفہا بشکند
      شیر آن است آنکہ خود را بشکند
      مجموعہ شرنگارشتک

      ایک نظم جو رنگین طبعتوں کے لیے عنوان لیے ہوئے ہے۔ یہ نظم عورت شوقینی کی جیتی جاگتی ایمجری کا درجہ لیے ہوئے ہے۔
      سب سے قابل نظارہ چیز کون سی ہے
      ایک آہو چشم حسینہ کا محبت سے مسکراتا ہوا چہرا۔!
      سونگھنے کے لئے سب سے عمدہ چیز کون سی ہے
      حسینہ کا تنفس۔!
      سب سے زیادہ سامع نواز چیز کون سی ہے
      حسینہ کی شیریں کلامی۔!
      چھونے کے قابل سب سے زیادہ احساس آفریں چیز کون سی ہے
      حسینہ کا نازک اندام!
      تصور کے لیے سب سے بڑھ کر مسرت خیز چیز کون سی ہے
      حسینہ کا پربہار شباب اور وصال!
      مجموعہ شرنگارشتک

      بھرتری ہری کمال کے سراپا نگار ہیں۔ اس ذیل میں ان کی یہ نظم ملاحظہ فرمائیں:
      نازک اندام حسینہ! تیرے حسن کا کیا کہنا! بال بال میں موتی گندھے ہیں دونوں آنکھیں کانوں کے نزدیک پہنچ گئی ہیں دانت موتیوں کی لڑیوں کی طرح آنکھوں کو خیرہ کئے دیتے ہیں چھاتیوں پر پڑا ہوا موتیوں کا خوشنما ہار اپنی جگہ آب وتاب دیکھا رہا ہے غرضٰکہ تو ان تمام خوبیوں کی حامل ہے جو شرقی١ میں پائی جاتی ہیں۔ تیرا بدن شانتی کا گہوارہ ہے۔ تیرا جسم تمام برتوں۔۔۔ریاضتوں۔۔۔ اور آشرموں٢ کا مسکن ہے۔ لیکن ان سب سے بالاتر تو ایک قابل احترام شکتی۔۔۔طاقت۔۔۔ ہے۔ جس نے مجھے گرویدہ کر رکھا ہے۔
      ١ الہامی کتاب ٢ ہندو عقیدہ کے مطابق زندگی کے چار دور ہیں برہمچریہگرہست بان برستھ اور سنیاس
      نوٹ۔ یہ حواشی جے کرشن چوھدری نے درج کیے ہیں۔
      مجموعہ شرنگارشتک

      بھرتری ہری نے اپنے کلام میں مختلف نوعیت کی تلمیحات کا بھی برمحل اور برجستگی سے استعمال کیا ہے۔ جے کرشن چوھدری نے ترجمہ میں ان کی اس بےساختگی کو مجروع نہیں ہونے دیا۔ چند ایک مثالیں باطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
      وہ زاہد جو عورت کی تحقیر کرتا ہے نہ صرف خود فریبی میں مبتلا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ کیونکہ ریاضت اس لیے کی جاتی ہے کہ بہشت ملے۔ اور بہشت کے حصول سے غرض اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپسراؤں ۔۔۔حوروں۔۔۔۔ کا وصل نصیب ہو۔
      مجموعہ شرنگارشتک

      شرنگارشستک میں کل سو نظمیں ہیں جن میں سے جے کرشن چودھری نے انیس نظموں کا ترجمہ کیا ہے ۔ حقی سچی بات تو یہ ہی ہے کہ جتنا بھی کیا ہے اچھا اور خوب کیا ہے۔ اسے اردو ادب میں خوش گوار اضافے کا نام نہ دینا بہت بڑی بدذوقی ہو گی۔
      جب بھرتری ہری کی دوسری کتاب نیتی شتک پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ وہ ہی عورت کا شوقین راجہ بھرتری ہری ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کوئی استاد بھگت اوتار فلاسفر یا درس کار ہو۔ یہاں اس کا ہر لفظ سچائی کا پرچارک نظر آتا۔ جے کرشن چوھدری نے ترجمہ صاف شستہ اور بلیغ کیا۔ اسے سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ مفہوم نظم پڑھنے کے ساتھ ہی سامنے آ جاتا ہے۔ باطور درس کار ملاحظہ فرمائیں:
      جس انسان کے پاس رحم ہے اسے ڈھال کی کیا ضرورت
      غصہ ہے تو دشمن کی کیا حاجت
      قبیلہ ہے تو آگ کا کیا کام ١
      دوست نزدیک ہے تو نایاب دواؤں کی کیا حاجت
      برے لوگوں کی صحبت ہے تو سانپ کی کیا ضرورت
      اگر علم بےعیب ہے تو دولت کی کیا حاجت
      اگر لاج۔۔۔ عصمت ۔۔۔ ہے تو دوسرے گہنوں سے کیا فائدہ
      اور اگر سخنوری ہے تو اس کے سامنے حکومت کیا ہے
      اس کے بعد تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی درج کر دیا گیا ہے۔
      تحمل ہو طبعیت میں تو جوش کی ضرورت کیا
      غضب پنہاں ہو فطرت میں تو دشمن کی ضرورت کیا
      چغل خوری کے ہوتے آتش سوزاں کی کیا حاجت
      جو ہوں احباب مخلص درد میں درماں کی کیا حاجت
      ضرورت کیا ہے افعی کی اگر موجود ہے دشمن
      تمنا کیوں ہو دولت کی جو دل میں ہو علم کا مخزن
      جہاں شرم و حیا ہیں احتیاج حسن زیور کیا
      کمال شاعری پر آرزوئے تاج قیصر کیا
      ١- انسانی تقسیم بات کو پھلانے والے
      مجموعہ نیتی شتک

      زندگی کی تلخ ترین حقیقت کا طنزیہ اور تلخ انداز میں اظہار ملاحظہ فرمائیں۔ بلاشبہ اس میں ان کا تجربہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عملی زندگی میں دیکھیں یہ ہی کچھ نظر آئے گا۔ :
      غلام کے فرائض بھی کتنے کٹھن ہیں۔ یوگیوں کے لیے بھی ان کا نبھانا مشکل ہے۔!
      دولت ہی تمام صفات کا ملجا و ماوا ہے۔ جو زردار ہے وہی عالی نسب ہے۔ وہی ہنرور؛ مرجع خلائق؛ فصیح الزمان اور دیکھنے کے لائق انسان ہے۔ اور بےزر کا ہر ہنر اور جوہر ایک ناقابل معافی گناہ!
      مجموعہ نیتی شتک

      اس کا منظوم ترجمہ جو تلوک چند محروم نے کیا ہے وہ بھی درج کیا گیا ہے۔
      جو ہے صاحب زر وہی ہے نجیب وہی فاضل دہر ہے اور ادیب
      وہی لائق دید ہے خوش بیان غرض زر میں شامل ہیں تمام خوبیاں
      اسی مضمون کی خیام کی دو رباعیاں بھی درج کی گئی ہیں۔
      در کیسہ زرے ہر کہ مہیا دارد چوں نور بچشم ہمہ کس دارد
      زرگر پسرے دوش چہ نیکو گفتہ
      اشراف کسے کہ اشرافی ہا دارد
      ۔۔۔۔۔
      گویند کہ مرد را ہنر می باید
      بانسبت عالی پدر می باید
      امروز چناں شدہ است در نوبت ما
      کیں باہمہ ہیچ است و زر می باید

      اس کتاب کی ہر نظم قول زریں کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ نہیں اس میں مشاہدہ اور زندگی کا تجربہ بولتا ہے۔ زندگی کا تجزیہ کریں یہ ہی کچھ نظر آئے گا۔ اس نے جیتی جاگتی زندگی کو کاغذ پر منتقل کر دیا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ یہ کہ اکیس سو سال پرانا ہے لیکن آج بھی یہ ہی کچھ عملی زندگی میں نظر آتا ہے۔ یہ نظم دیکھیے:
      غلام اگر چپ رہے تو گونگا بول چال میں چست ہو تو باتونی نزدیک رہے تو ڈھیٹ دور رہے تو بیوقوف قوت برداشت رکھتا ہو تو ڈرپوک اگر نہ رکھتا ہو تو رزیل کہلاتا ہے۔
      مجموعہ نیتی شتک

      اسی مضمون کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں:
      اندریاں۔۔۔۔ حواس۔۔۔۔ وہی نام بھی وہی وہی تیز فہمی اور وہی خوش کلامی۔ لیکن جائے حیرت ہے کہ صرف دولت کے ہاتھ سے چلے جانے کے بعد وہی انسان کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔
      مجموعہ نیتی شتک

      حق سچ اور کھری کھری کو کسی مذہب دھرم شخص یا کسی مخصوص فرقے تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ ناہی ان حوالوں سے اسے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ اسے جو بھی کہے یا کرے گا وہ حق اور سچ ہی کہلائے گا۔ وہ کہا یا کیا قابل تحسین و قابل عمل ہی ہو گا۔ اس سے انحراف سراسر ظلم کے مترادف ہو گا۔ بھرتری ہری کے اس کہے کو دو ہزار سال زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن یہ کہا آج بھی اٹل ہے۔ ابنیاءکرام اور صلاحین بھی تو یہ ہی کہتے آئے ہیں۔ منفی قوتیں ان سے انحراف کرتی رہی ہیں اور آج بھی کرتی ہیں۔ حق سچ سچ کڑوا رہا ہے یہ بھی کہ زبانی کلامی تو بہت سے اسے ماننے کو تیار ہوں گے لیکن عملی طور پر اسے کھوہ کھاتے میں ڈالتے آئے ہیں۔ اب زرا یہ نظم ملاحظہ فرمائیں اور بےشک دھرم مذہب کو بھی بیچ میں لے آئیں۔ کوئی مذہب یا دھرم اس کہے سے انحراف نہیں کرے گاِ۔ جے کرشن چودھری نے ترجمہ کرتے کلام کے فصاحت و بلاغت کو یکسر مجروع نہیں ہونے دیا۔ مفہوم کی ادائیگی میں کوئی کجی باقی نہیں رہنے دی۔
      سیاست دان مذمت کریں یا تحسین دولت رہے یا چلی جائے موت چاہے آج آ جائے یا ایک یگ کے بعد لیکن حوصلہ مند لوگ انصاف کے راستے سے ایک قدم بھی ادھر ادھر نہیں ہوتے۔
      مجموعہ نیتی شتک

      اقبال یا اس سے اور لوگوں کا بھرتری ہری سے متاثر ہونا تعجب خیز نہیں۔ بھرتی ہری نے کہا:
      کنول کی نازک ڈنڈی۔۔۔ شاخ۔۔۔سے ہاتھی کو باندھا جا سکتا ہے ہیرے کو سرسوں کے پھول سے بنیدھا جا سکتا ہے اور شہد کی ایک بوند سے کھارے سمندر کو میٹھا کیا جا سکتا ہے لیکن مرد ناداں کو میٹھی باتوں سے رام کر لینا سعیءلاحاصل ہے۔
      اقبال نے اس کو اپنے ایک شعر میں جو عرف عام میں ہے کچھ یوں باندھا ہے:
      پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
      مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثر
      اسی قسم کے خیال کو بھرتری ہری نے اپنی ایک اور نظم میں یوں نظم کیا ہے:
      مگر مچھ کے جبڑے سے موتی نکال لینا بہت ممکن متلام سمندر کو تیر کر عبور کرنا آسان غضناک سانپ کو سر پر پھول کی طرح رکھ لینا سہل پر یہ ناممکن ہے کہ جاہل کے دل سے جاگزیں کسی خیال کو ہٹایا جا سکے۔
      اس کی تاریخ میں ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
      بےشک یہ رویہ اہل علم حق دوستوں کے لیے تکلیف دہ اور ناقابل برداشت رہا ہے۔ اس ذیل میں بھرتری ہری کا کہنا ہے:
      دشوار گزار پربتوں پر درندوں کی بہتر صحبت بہتر لیکن بیوقوف ۔۔۔ ناہل ۔۔۔ کی صبت راجہ اندر کے محل میں بھی ناقابل برداشت۔!
      جےکرشن چوہدری نے اسی مضمون کے قریب تر تین شعرا کے بھی اشعار درج کیے ہیں جو ان کے شعری ذوق و شعور کا عمدہ نمونہ ہیں:
      تو رہائی جوز ناجنساں بجد
      صحبت ناجنس گورا راست و لحد
      مولانا روم
      خواہی کہ بدانی بیقیں دوزخ را
      دوزخ بہ جہاں صحبت نااہل بود
      خیام
      غربت میں ہے اجنبی مسافر جس طرح
      دانا کا یہی حال ہے نادانوں میں
      حالی
      مجموعہ نیتی شتک

      ایک طنزیہ انداز کی نظم ملاحظہ فرمائیں۔ یہ نظَم ہمارے چلن اور رویے کی عکاس ہے کہ ہم دولت کے کتنے حریص ہوگئے ہیں۔ اس کے حصول اور مزید حصول کے لیے کس سطع پر جا سکتےہیں۔ اس کا شائق کتنا گر سکتا ہے اس کی عکاسی انتہائی تلخ اور دکھ آمیز انداز میں کی گئی ہے۔ کہتے ہیں:
      چاہے قوم قعرمذلت میں گرے اعلی صفات مٹی میں مل جائیں۔ انسانیت پہاڑ سے گر کر چکنا چور ہو جائے خاندانی وقار تباہ ہو جائے اور اپنے پرائے چولھے میں پڑیں لیکن ہمیں صرف دولت سے غرض ہے۔ جس کے بغیر قومی وقار خاندانی وجاہت علم و ہنر عزیز و اقارب ایک تنکے کی طرح حقیر ہیں۔
      مجموعہ نیتی شتک

      بھرتری ہری کی نظم میں سقراط کے اس قول کی عکاسی ملاحظہ فرمائیں
      "میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا"
      اس سے اس کی علم کی بھوک سامنے آتی ہے۔ بہت کچھ جاننے کے باوجود جاننے کی خواہش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ علم جتنا بھی حاصل کر لیا جائے کم نہیں بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ رب زدنی علما یہ ہی تو ہے۔ بھرتری ہری کہتا ہے:
      جب میرا علم کم تھا میں خیال کرتا تھا کہ میں سب کچھ جانتا ہوں اور بدمست ہاتھی کی طرح غرور سے اندھا ہو رہا تھا لیکن جب خوش قسمتی سے جب عارفوں سے ملاقات ہوئی اور ان کی صحبت سے کچھ حاصل ہوا تو حقیقت کا احساس ہوا کہ میرا علم کتنا محدود تھا۔ تب سے میرا غرور بخار کی طرح جاتا رہا۔
      اس مضمون کی انہوں نے خیام کی ایک رباعی بھی درج کی ہے۔
      نابود دلم ز عشق محروم نشد
      کم بود ز اسرار کہ مفہوم نشد
      اکنوں کہ ہمی بنگرم از رد کے خرد
      معلوم شد کہ ہیچ معلوم نشد
      خیام
      مجموعہ نیتی شتک

      انسانی فکر کے لیے رستہ تعین کرنے کا انداز ملاحظہ فرمائیں۔ ایک سچا اور کھرا درویش بھگت صوفی اور معلم اسی طور کی باتیں کرتا ہے۔ اس قسم کا چلن اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
      کسی ذی روح کو مارنے اور کسی غیر کی دولت چھیننے سے پرہیز سچ بولنے اور حسب توفیق خیرات کرنے سے محبت دوسروں کی عورتوں کے متعلق باتیں کرنے سے نفرت لالچ کے طوفان پر قابو پانا۔ گرو کے سامنے عجز کا اظہار خلق خدا سے محبت شاشتروں پر عقیدت اور دوسرے عقیدے کو یکساں طور پر دیکھنا۔۔۔رواداری۔۔۔ یہ چند ایسے رستے ہیں جو ابدی راحت کی منزل کو جاتے ہیں۔
      مجموعہ نیتی شتک

      صحبت صالح صالح کند صحبت طالع طالع کند
      کو کیا خوبی سے تمثیلی انداز دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
      پہلے پہل جب پانی دودھ سے ملتا ہے تو دودھ اسے اپنی تمام خوبیاں ۔۔۔رنگ روپ۔۔۔ دے دیتا ہے ۔۔۔اور دونوں یک جان ہو جاتے ہیں۔۔۔ بعد ازاں جب پانی ملے دودھ کو آگ پر ابالا جاتا ہے تو دودھ کو مصیبت میں دیکھ کر پانی اپنے آپ کو جلا دیتا ہے لیکن اپنے رفیق پر آنچ نہیں آنے دیتا دودھ بھی اپنے ساتھی کو تکلیف میں دیکھ کر جوش و خروش کا اظہار کرتا ہے اور اچھل کر آگ بجھا دینا چاہتا ہے اسے تب چین ملتا ہے جب پانی کے چند چھنٹے نہیں پا لیتا گویا دوست کو ایک بار پھر پا کر مطمن ہو جاتا ہے۔
      اس نظم کو رفاقت کی بےنظیر تمثیل کا عنوان دیا گیا ہے۔
      مجموعہ نیتی شتک

      ویراگ شتک بھرتری ہری کی تیسری شاعری کی کتاب ہے۔ جے کرشن چودھری نے اس کی تنتالیس نظموں کا ترجمہ کیا ہے۔ اس حصہ میں ناصرف ان کا لہجہ بدلا ہے بل کہ بات کرنے کے لیے انداز بھی مختلف اختیار کیے ہیں۔ ان نظموں کے مطالعہ سے اس عہد کی حیات کے اطوار بھی سامنے آتے ہیں۔ کچھ بدلا نہیں آج بھی وہ ہی معاشرتی اور معاشی چلن ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر ویسے ہی چلن اور ویسے ہی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ پیمانے وہ ہی ہیں لیکن لوگ وہ نہیں ہیں ان کا چال چلن ہوبہو وہ ہی ہے۔ آواگون پر یقین نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے اصل فلسفے کی تہ تک پہنچا جا سکتا ہے یا شاید اس خطے کی یہ تاریخی سماجی اور معاشی واراثت کی آواگونی صورت ہے۔ بھرتری ہری کی شاعری کو آئینہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسا آئینہ جس میں منہ دیکھنا دونمبری کو کسی بھی صورت میں خوش نہیں آ سکتا۔

      حصول دولت کے لیے انسان کس طرح مشقت اٹھاتا ہے اس کی بھرتری ہری نے کمال چابکدستی سے عکاسی کی ہے۔ ان کا یہ طنزیہ انداز اپنی اصل میں انسان کی ہوس پر بہت بڑی چوٹ ہے۔ بہت کچھ ہاتھ لگ جانے کے باوجود مزید کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں:
      دولت کی تلاش میں زمین کھود ڈالی پہاڑوں کی دھاتیں پگھلا ڈالیں طوفانی سمندروں کو عبور کیا راجاؤں کو کئی جتنوں سے خوش کیا۔۔۔طاقت اور دولت حاصل کرنے کےلیے۔۔۔ منتروں کا جاپ کرتے ہوئے طویل راتیں شمشان میں گذار دیں۔ لیکن مجھے ایک پھوٹی کوڑی تک نہ ملی۔۔۔یعنی جتنی دولت میں چاہتا تھا اتنی نہ ملی۔۔۔ اور میری خواہشات تشنہءتکمیل رہیں اے لالچ! تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ اب تو مجھے اپنے حال پر چھوڑ دے۔
      جے کرشن چوھدری نے اس مضموں کی خیام رباعیاں بھی درج کی ہیں:
      ایچرخ چہ کردہ ام ترا راست گو
      پیوستہ فگندہءمرا درتگ و پو
      نائم ندہی تانبری کوئے بہ کوئے
      آبہم نہ دہی تانبری آب زرد
      خیام
      مائیم فتادہ روز و شب در تگ و تاز
      ہر کیرہ نہادہ روئے در نشیب و فراز
      نہ ہیچ رہ آورد بجز رجن دگر
      نہ ہیچ پس افگند بجز راہ دراز
      خیام
      چند از پئے حرص و آزائے فرسودہ
      تاچند دوی گرد جہاں بےہودہ
      خیام
      مجموعہ ویراگ شتک

      اسی مضموں کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں:
      میں بےفایئدہ دشوارگزار راستوں اور گھاٹیوں میں پھرتا رہا۔ اپنی اونچی جات کے مان کو چھوڑ میں رذیل لوگوں کی خدمت کرتا پھرا پر کچھ حاصل نہ ہوا۔ غیروں کے گھروں میں عزت و آبرو کھو کر بچے کچھے ٹکروں پر جو ایک کوے کی طرح مجھے پھینکے گئے بسر اوقات کرتا رہا۔ اور اس سے ١ہمکنار نہ ہو سکا۔
      اےلالچ! تیرا برا ہو تو نے مجھے برے کاموں پر آمادہ کیا کیا مجھے اتنا ذلیل کرنے پر بھی تجھے تسلی نہیں ہوئی۔
      تلوک چند محروم نے اس نظم کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔
      پھرا ہوں ایسے ملکوں میں جہاں دشوار تھیں راہیں
      ملا کچھ بھی ثمر مجھ کو نہ اس آوارہ گردی کا
      غرور خانداں کو چھوڑ کر اوروں کی خدمت کی
      ریاضت کی مگر اس سے نہ میں نے کوئی پھل پایا
      بھکاری بن کے میں مانند زاغاں کانپتے ڈرتے
      گھروں میں دوسروں کے جا کے کھاتا بھی رہا کھانا
      مگر! افسوس ہے اے نفس دوں اے بدنہاد ابتک
      تری تسکیں ترے آرام کا پہلو نہیں نکلا
      محروم
      اسی مضمون کی ایک خیام کی رباعی بھی درج کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
      بسیارد دیدم بگرد درد دشت
      یک کار من از دور جہاں راست نگشت
      وز ناخوشیءزمانہ باری عمرم
      گر خوش بگذشت یکدمے خوش نگذشت
      خیام
      ١۔ سیری
      مجموعہ ویراگ شتک

      ہوس لالچ پر گہری چوٹ ہی نہیں کرتے بل کہ دنیا سے محبت کے حوالہ سے جھوٹی امیدوں پر بھی ضرب لگاتے ہیں۔ انسان دنیا کی جھوٹی اور نائیدار خوشیاں حاصل کرنے کے لیے کتنا گر جاتا ہے اس کی عکاسی ملاحظہ فرمائیں:
      میں نے رذیل لوگوں کے تمسخر کو بخندہ پیشانی سنا ابلتے ہوئے آنسوؤں کو دل ہی میں پی گیا اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ ان کو خوش کرنے کے لیے ایک روکھی پھیکی ہنسی ہنسا میں نے اپنے جذبات کو کچل ڈالا اور دل پر پتھر رکھ کر ان احمقوں کے سامنے سر جھکاتا پھرا لیکن یہ سب بےسود تھا۔ اے فریب کار امید ابھی تو کتنے ناچ اور نچائیگی۔
      مجموعہ ویراگ شتک

      زرپرستوں کے منہ پر بھرتری ہری کا طمانچہ ملاحظہ فرمائیں۔ حصولی زر کے لیے شخص کس حد گر سکتا ہے۔ اس نظم کے مطالعے کے بعد باخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ انسان اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور ناہی انہیں اپنے لیے کافی سمجھتا ہے۔ اس کا یہ حیرتیہ انداز ضمیروں کو جھنجھوڑتا ہے۔
      کھانے کے لئے انواع و اقسام کے پھل باافراط ہیں پینے کے لئے شیریں چشمے رواں ہیں رات کی راحت کے لئے زمین کا بستر اور اوڑھنے کے لئے درختوں کی نرم و گداز چھالیں موجود ہیں۔ حیرانی ہے کہ انسان اتنی نعمتوں کو پا کر بھی شراب سے مدہوش اور نئی دولت پائے ہوئے بدمست امیروں کے سامنے ہاتھ پسارتا ہے گڑگڑاتا ہے اور ان کے تمسخر کا نشانہ بن کر اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے۔
      نظم کے آزاد ترجمے کے بعد جے کرشن چودھری نے تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی درج کیا ہے۔
      خدمت گرانسان ہے زمانہ سارا
      ہر ذرہ زمین کا چرخ کا ہر تارا
      راحت کی ہوس میں چھوڑ کر راحت کو
      پھرتا ہے کہاں کہاں یہ مارا مارا
      اس مضمون سے میل کھاتا دو اور شعرا کا کلام بھی درج کیا گیا ہے۔
      دو قرض ناں اگر از گندم است یارجؤ
      دوتائے جامہ اگر کہنہ است یا خودنو
      چہار گوشہءدیوار خود بخاطر جمع
      کہ کس نہ گوید ازیں بخیروآں جارو
      ہزار بار نکوتر بہ نزد ابن یمن
      زفر مملکت کیقابار کیخسرو
      ابن یمن
      درد ہر کہر کہ نیم نانے دارد
      وز بہر نشست آشیانے دارد
      نے خادم کس بود نہ مخدوم کسے
      گو شادی بزی کہ خوش جہانے دارد
      عمر خیام
      مجموعہ ویراگ شتک

      انسان کو فنا کے آگاہ کرکے اچھائی کی طرف مڑنے پر مجبور کرنے کا انداز بھی خوب اختیار کیا ہے۔ انہوں نے فنا کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے زندگی کی ناپائداری کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ انسان مزید کے حصول کے لیے جو حیلے حربے اختیار کرتا ہے بےمعنی اور لایعنی ہیں۔ انسان پر جب نائیداری کا فلسفہ کھلتا ہے تو وہ کانپ کانپ جاتا ہے۔ ہاں ہوس لالچ حرص اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور وہ انسان کو اسی خوف ناک ڈگر پر گامزن رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
      جس گھر میں پہلے بہت سے آدمی رہتے تھے آج وہاں صرف ایک ہے اور جہاں صرف ایک تھا وہاں آج بہت سے ہو گئے۔ ایک وقت آئیگا جب وہاں ایک بھی نہ رہیگا۔ یہ دنیا شطرنج کا تختہ ہے جس پر ہم محض مہروں کی طرح ہیں اور جہاں رات اور دن کے پاسوں کو پھینکتے ہوئے موت کا دیوتا۔۔۔مہاکال۔۔۔اپنی بیوی کے ساتھ کھیل میں مصروف ہے۔۔۔ہم سب موت کے کھیل کا سامان ہیں جنہیں وہ جب اور جہاں چاہتی ہے اٹھا کر رکھ دیتی ہے۔۔۔
      اسی مضمون کی عمر خیام کی رباعی بھی درج کر دی ہے: ۔۔
      مالعبگا نیم و فلک لعبت باز
      از روئے حقیقی و نہ از روئے مجاز
      بازیچہ ہمی کینم نرنطع وجود
      بر دیم بصذوق عدم یک یک باز
      عمر خیام
      مجموعہ ویراگ شتک

      اسی ذیل میں ایک اور بڑی ہی خوب صورت مثال ملاحظہ فرمائیں:
      دنیا کے عیش و آرام۔۔۔ کے اسباب۔۔۔کبھی ختم نہیں ہوتے ہم ہی ختم ہو جاتے ہیں۔۔۔ہم نے انہیں کھایا نہیں بلکہ ہم ہی ان کا نوالہ بن گئے۔۔۔ تپ۔۔۔ریاضتٰں۔۔۔نہ ہوئے جسم ان تپوں کا شکار ہو گئے وقت کا خاتمہ نہیں ہوا۔ ہمارا عرصہءحیات ہی ختم ہو گیا۔۔۔وقت نہیں گیا ہمیں ہی دنیا سے جانا پڑا۔۔۔ خواہشات بوڑھی۔۔۔کمزور۔۔۔نہیں ہوئیں ہم بوڑھے ہو گئے۔
      اس نظم کا منظوم ترجمہ جو تلوک چند محروم کا کیا ہوا ہے بھی درج کر دیا گیا ہے:
      مزے ہم نے لوٹے نہیں لذتوں کے
      ہمیں بلکہ لذتوں نے لوٹ کھایا
      ہمیں وہم تھا ہم نے تپ خوب تاپا
      حقیقت یہ تھی تپ نے ہم کو تپایا
      ہمیں آہ! گزرے چلے جا رہے تھے
      بظاہر زمانے کو گززندہ پایا
      ہوئے پیر ہم کاوربار ہوس میں
      ہوس پہ بڑھاپا نہ زنہار آیا
      تلوک چند محروم
      اس مضمون سے لگا رکھتی عمر خیام کی بھی ایک رباعی درج کر دی گئی ہے:
      افسوس کہ بےفایئدہ فرسودہ شیدیم
      وزطاس سپہر سرنگوں سودہ شیدیم
      درداندا متا کہ تاچشم زدیم
      نابودہ بکام خویش نابودہ شیدیم
      عمر خیام
      مجموعہ ویراگ شتک

      اسی نہج کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں:
      ہر صبح وشام ہماری زندگی کے گنتی کے دنوں کو گھٹاتے رہتے ہیں ہمیں دنیا کے کام دھندوں میں لگے رہنے سے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وقت کب اور کیوں کر گزر گیا۔ پیدائش بڑھاپا مصیبت اور موت کو دیکھ کر بھی انسان کو اپنی حالت کا آحساس نہیں ہوتا۔۔۔معلوم یہ ہوتا ہے کہ۔۔۔دنیا گفلت کی شراب سے مخمور اپنی حقیقت سے بےخبر ہو چکی ہے۔
      اسی مضمون کے دو اور شعر بھی درج کیے گیے ہیں۔
      جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹی ہے
      زندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے
      ۔۔۔۔۔۔۔۔
      ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
      عالم تمام حلقہءدام خیال ہے
      غالب
      مجموعہ ویراگ شتک

      اب ذرا تقابلی اور موازنانی انداز ملاحظہ فرمائیں:
      اے راجہ! تم دولت کے مالک ہو تو ہم جب تک الفاظ میں معنی ہیں زبان کے مالک ہیں تم بہادر ہو تو ہم بھی کٹ حجتی سے لوگوں کے غرور کے بخار کو توڑ دینے کی طاقت رکھتے ہیں اگر دولتمند تمہارے فرما بردار ہیں تو علم و ادب سے شغف رکھنے والے لوگ ہمارے سامنے بھی زانوئے ادب تہ کرتے ہیں۔۔۔اس طرح ہم دونوں ایک ہی حیثیت کے مالک ہیں۔۔۔پھر اگرہم سے تمہاری عقیدت نہیں تو ہم بھی تم سے راہ و رسم کے خواہاں نہیں۔
      اقبال نے بھرتری ہری کا مطالعہ کیا اور وہ اس کا قائل و مائل بھی ہے۔ اس نے اسی مضمون کو کچھ اس طرح سے کہا ہے:
      رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
      ہمیشہ تازہ وشیریں ہے نغمہءخسرو
      اقبال

      مجموعہ ویراگ شتک
      کہا اور کیا باقی رہ جاتا ہے۔ بھرتری ہری کو آج دنیا سے گئے دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کا کہا آج بھی باقی ہے۔ قارون شداد وغیرہم کی دولت اور جاہ و جلال مٹی میں مل چکے ہیں لیکن کہا آج بھی باقی ہے۔ مقتدر کو کوئی نہیں جانتا ملا عمر ابو حمادی کے نام سے لوگ واقف نہیں ہیں لیکن منصور کا کہا کیا آج بھی باقی ہے اور زوال سے پرے پرے ہے۔ بھرتری ہری کی یہ نظم لفظ کی اہمیت و قیمت کو واضح کر رہی ہے۔ لفظ مرتے نہیں زندہ رہتے ہیں۔ بہت سی زبانیں نابود ہو گئیں لیکن ان کے الفاظ دوسری زبانوں میں شامل ہو کر آج بھی معنویت کے حامل ہیں۔ سقراط بلاشبہ بہت بڑا آدمی تھا۔ اس نے کچھ نہیں لکھا لیکن اس کا کہا جو الفاظ پر مشتمل تھا آج بھی زندہ ہے۔ ڈھائی ہزار سال گزر جانے کے باوجود کہا معنویت کا حامل ہے۔
      شاعر سے متعلق عمومی رویے کا بڑی خوب صورتی سے اظہار کیا ہے۔ اس سے وسیب کے تین نمایاں طبقے بےلباس ہو کر سامنے آ جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے گا:
      شاعر کی قدر و منزلت کون کرتا ہے
      عالم حسد کی آگ میں جل اٹھتے ہیں امیر دولت کے غرور میں مست ہو کر بےاعتنائی برتتے ہیں اور عوام جہالت کا شکار ہیں۔ اس لئے روح پرور شاعری کا چشمہ دل ہی میں سوکھ جاتا ہے۔
      اسی مضموں کے تین شعر جوش ملیح آبادی کے بھی درج کر دیے گئے ہیں۔
      شعر کو بہروں میں ممکن ہی نہیں حسن قبول
      شاعر ہندوستان ہے اصل میں جنگل کا پھول
      جس کے گردوپیش رہتا ہے بہام کا ہجوم
      روندتے ہیں جس کو چوپائے جھلستی ہے سموم
      جہل کا دریا ہے اور ناقدریوں کی لہر ہے
      شاعر ہندوستاں ہونا خدا کا قہر ہے
      جوش ملیح آبادی
      مجموعہ ویراگ شتک

      خصیہ سہلا شاعر ناصرف چوپڑی کھاتے آئے ہیں بل کہ انہیں درباری ہونے کے سبب عوامی اور عمومی و خصوصی قدرومنزلت بھی ملتی آئی ہے۔ اس کے برعکس ناصرف بےنام و نشان رہے ہیں بھوک کی آگ کا بھی شکار رہے ہیں۔
      اب ذرا تمثیلی اور حیرتیہ طور ملاحظہ فرمائیں:
      پروانہ تیز جلتی آگ۔۔۔شمع۔۔۔ میں کود پڑتا ہے کیونکہ اسے سمجھ نہیں کہ یہ جلا دیتی ہے نادان مچھلی اپنی لاعلمی کی وجہ سے ماہی گیر کے کانٹے میں گوشت کے ٹکڑے پر لپکتی ہے۔ اور اپنی موت نہیں دیکھتی۔ لیکن کیا جائے حیرت نہیں کہ ہم جو دنیا کے نشیب و فراز سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ دنیاوی خوہشات دکھوں کے جال ہیں ان میں پھنستے ہیں اور بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
      تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی شامل کر دیا گیا ہے:
      پروانہ ہے بےخرد پتنگا ہے شمع پر جل کے جان دیتا
      مچھلی بھی تو عقل سے عاری ہے پھنس جاتی ہے جال میں بچاری
      لیکن ہم صاحب خرد ہیں آگاہ تمیز نیک و بد ہیں
      پھر بھی دام ہوس میں پھنس کر کر لیتے ہیں حال اپنا ابتر

      مجموعہ ویراگ شتک
      جس خوبی سے انہوں نے انسانی فکر کی تربیت کا اہتمام کیا ہے دل کو گھائل کرتا ہے۔ یا پھر سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کسی عمدہ تخلیق کا یہ ہی تو کمال ہے کہ وہ انسان کو غور کی دعوت دیتی ہے۔
      انسانی حیات کی ناپائیداری کو خوب صورت مثالوں سے واضح کرکے انسان کو راستی کی طرف لوٹنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس ذیل میں یہ نظم ملاحظہ فرمائیں:
      دنیا کے عیش وعشرت کے سامان اتنے ناپائیدار ہیں جتنی بجلی جو ایک لمحے کے لئے بادلوں میں کوندتی ہے۔ جوانی کا زمانہ کچھ لمحہ رہنے والی چند پانی کی بوندونکی طرح ہے جو بادلوں سے چمٹی رہتی ہیں اور جنہیں ہوا کے تھپیڑے ادھر سے ادھر بکھیر دیتے ہیں جوانی کی امنگ پہاڑی نالے کی باڑھ کی طرح تند اور تیز ہے اسلئے دانا لوگ ہمت اور حوصلہ سے اپنے من پر قابو پاکر جوگ کرتے ہیں۔
      اسی مضمون کا ایک شعر اقبال کا بھی درج کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
      ہر شے مسافر ہر شے راہی کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی
      مجموعہ ویراگ شتک

      اسی نہج کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں:
      آغاز میں ماں کے بطن میں انسان سکڑا ہوا تکلیف کی حالت میں لٹکا رہتا ہے عالم شباب میں اپنی محبوبہ کی مفارقت میں رنج و غم سے ہمکنار ہوتا ہے بڑھاپے میں جوان اور خوبصورت عورتوں کی بھبتیاں سہتا ہے۔ اے انسان! بتا تو سہی کیا دنیا میں ایسی چیز بھی ہے جو تجھے خوشی دے سکے۔
      اسی مضموں کا ایک شعر غالب کا بھی درج کر دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
      ہے وحشت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجئے
      لئے بیٹھا ہے دوچار جام واژگوں وہ بھی
      مجموعہ ویراگ شتک

      زندگی منفی گزر سکتی ہے مثبت بھی۔ استعمالات درست ہو سکتے ہیں غلط بھی۔ گویا منفی اور مثبت پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ غلط شخص کچھ بھی کر لے اس کے استعمالات درست سمت اختیار نہیں کرتے۔ گویا ضدین کا فلسفہ چلتا رہتا ہے۔ اب شخص پر منحصر ہے کہ وہ کون سی راہ لیتا ہے۔ اس کی پہچان بھی اسی حوالہ سے ہی ترکیب پائے گی۔ بھرتری ہری نے بڑی خوبی سے اس معاملے کو پیش کیا ہے۔ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:
      دنیا میں ہر چیز کا برا استعمال کیا جا سکتا ہے ایک عقلمند آدمی جب علم حاصل کر لیتا ہے تو اس کا غرور اور جہالت مٹ جاتی ہے لیکن وہی علم پا کر بدقماش شخص کا دماغ بگڑ جاتا ہے۔ خداپرست آدمی کیلئے تنہائی ۔۔۔گوشہ نشینی۔۔۔ راہ نجات ہے لیکن ایک زانی کے لیے باعث تسکین نفس۔ !
      مجموعہ ویراگ شتک

      بڑھاپے کی کیا خوب صوتی سے تصویر کشی کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انسانی چلن کو بھی اجاگر کر دیا گیا ہے۔ بھرتری ہری کی اس ذیل میں دو نظمیں ملاحظہ فرمائیں:
      اب جبکہ بڑھاپے نے آ گھیرا ہے نفسانی خوہشات سرد پڑ گئی ہیں جسم کمزور ہو گیا ہے اور خوددار کا احساس جاگتا رہا ہے دوست اور عزیز سدھار گئے ہیں اٹھا نہیں جاتا لاٹھی کے سہارے دوچار قدم چلتے ہیں آنکھوں کی بینائی کم ہو گئی ہے اور کچھ سوجھتا نہیں۔ افسوس! پھر بھی یہ ڈھیٹھ جسم موت کے خیال پر کانپ اٹھتا ہے۔
      تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی نظم کے نثری ترجمے کے بعد درج کر دیا گیا ہے۔ مطالعہ فرمائیں:
      خواہش لذات فانی مر چکی
      دور اپنا ختم عزت کر چکی
      ہمدم و ہم سن جو اپنے دوست تھے
      راہئیے ملک بقا سب ہو گئے
      ہو گیا دشوار اٹھنا بےعضا
      اور آنکھوں میں اندھیرا آ گیا
      کیا کہوں اے جسم بےغیرت تجھے
      موت! بھی ہے باعث حیرت تجھے
      محروم
      اسی مضمون کی ایک رباعی خیام کی بھی پیش کی گئی ہے۔ مطالعہ فرمائیے:
      ایام شباب رفت دخیل دحشمش
      تلخت مرا عیش دلے نے چشمش
      ایں قامت ہمچو تیر من گشتہءکماں
      رہ کردہ ام از عصا و خوش مے کشمش
      عمر خیام
      بڑھاپا ایک خوفناک بھیڑیے کی طرح دروازے کے اندر جھانک رہا ہے بیماریوں نے دشمنوں کی طرح صحت کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا ہے زندگی پانی کی طرح ایک ٹوٹے ہوئے برتن سے آہستہ آہستہ بہہ رہی ہے کیا یہ حیرانی نہیں کہ انسان ان حالات کی روشنی میں بھی برائی ہی کرتا چلا جائے۔
      گویا آدمی کسی بھی حالت میں ہو نفسانی خواہشات سے چھٹکارے کی کوشش نہیں کرتا۔ برائی زندگی سے جھونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے بل کہ انسان ہی اس سے خلاصی پانے کی طرف نہیں آتا۔
      اسی مضمون کا ایک شعر سعدی جب کہ دو اشعار فخرالدین عراقی کے بھی درج کر دیے گیے ہیں: ۔۔
      اے کہ پنجاہ رفت دور خوابی
      شاید ایں پنج روز دریابی سعدی
      افسوس کہ ایام جوانی بگذشت
      سرمایہءعیش جاودانی بگذشت
      تشنہ بکنار جوئے چنداں خفتم
      گر جوئے من آب زندگانی بگذشت فخرالدین عراقی
      مجموعہ ویراگ شتک


      Last edited by Dr Maqsood Hasni; 01-10-2018 at 07:39 PM.

    2. The Following User Says Thank You to Dr Maqsood Hasni For This Useful Post:

      Moona (01-11-2018)

    3. #2
      Moderator Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      Ubaid's Avatar
      Join Date
      Nov 2017
      Location
      Dubai U.A.E
      Posts
      1,250
      Threads
      192
      Thanks
      785
      Thanked 550 Times in 440 Posts
      Mentioned
      409 Post(s)
      Tagged
      67 Thread(s)
      Rep Power
      8

      Re: بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائز¬

      @Dr Maqsood Hasni Sir padnai mai mushkil hai kia ap size ko thoda bada kar saktai hai.


    4. #3
      Moderator Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      Ubaid's Avatar
      Join Date
      Nov 2017
      Location
      Dubai U.A.E
      Posts
      1,250
      Threads
      192
      Thanks
      785
      Thanked 550 Times in 440 Posts
      Mentioned
      409 Post(s)
      Tagged
      67 Thread(s)
      Rep Power
      8

      Re: بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائز¬


      بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائزہمقصود حسنی تاریخ کا اک مخدوش جھروکہ، ٹلہ جوگیاں​بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائزہآج پرانی کتابوں اور مخطوطوں کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک بھرتری ہری کے کچھ کلام کا ترجمہ ہاتھ لگا۔ یہ تحفہ عکسی نقول کی صورت میں دستیاب ہوا ہے۔ اسے میں نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور کی لائبریری سے دستیاب کتاب کی عکسی نقل کی صورت میں محفوظ کیا تھا۔ آزاد ترجمہ جے کرشن چودھری نے کیا جون ١٩٥٩ میں جید برقی پریس دہلی نے اسے شائع کیا تھا جب کہ جملہ حقوق بحق ادارہ انیس اردو الہ آباد محفوظ تھے۔ کتاب کا انتساب مہاراجہ سری سوائی تج سنگھ جی بہادر کے نام کیا گیا ہے۔ پیش لفظ جوش ملیح آبادی جب کہ دیباچہ تلوک چند محروم نے تحریر کیا ہے۔ دیگر تفصیلات خود جے کرشن چودھری نے تحریر کی ہیں۔ اس عکسی کتاب کا پہلا صفحہ موجود نہیں اس لیے کتاب کا نام درج نہیں کیا جا سکتا۔بھرتری ہری سے متعلق کچھ کچھ جانتا تھا لیکن تفصیلات سے آگاہ نہ تھا۔ اس کتاب کے حوالہ سے بھرتری ہری سے متعلق جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ اس اشتیاق کی وجہ جوش ملیح آبادی کے یہ الفاظ بنے: بھرتری ہری کی شخصیت و اہمیت سے ہر وہ شخص واقف ہے جسے فلسفے اور ادب سے لگاؤ ہے۔میں ادیب ناسہی ادب سےلگاؤ ضرور رکھتا ہوں۔ جے کرشن چودھری نے بھرتری ہری سے متعلق بڑی اہم معلومات فراہم کر دی ہیں۔ انہیں پڑھ کر بھرتری ہری کے متعلق بہت کچھ ہاتھ لگ جاتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مزید جاننے کا شوق ہرچند بڑھ جاتا ہے۔ مزید جاننے کے لیے میں نے انٹرنیٹ ریسرچ کا سہارا لیا۔ کافی کچھ پڑھنے کو ملا ہے اور اس حوالہ سے بھرتری ہری کو جاننے میں مدد ملی ہے۔ اس مواد کے حوالہ سے ان کی شاعری کو بھی سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے مجھے یہ بھی سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے کہ وہ اپنے عہد کے عظیم بھگت‘ عارف اور صوفی تھے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے شاید آپ بھی اس سے مختلف نہ سمجھیں گے۔ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی تخلیق کا منتقل کرنا بلاشبہ بڑا مشکل گزار کام ہے۔ اس کے لیے دونوں زبانوں میں مہارت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ باطور خاص شاعری کا ترجمہ اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ شاعر لفظوں کا استعمال عمومی مفاہیم سے ہٹ کر کرتا ہے۔ گویا مترجم کا حسن شعر سے آگاہی ہونا بھی اس ضمن میں ضروری قرار پاتا ہے۔ وہ نزدیک کے مفاہیم تک محدود نہیں رہتا۔ اس نثری ترجمے کے مطالعہ سے یہ امر کھل کر سامنے آتا ہے کہ جے کرشن چوھدری ناصرف دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے تھے بل کہ شاعری سے بھی شغف خاص رکھتے تھے۔ تب ہی تو انہوں نے شعری لوازمات کے لیے ضرورت کے مطابق اردو مترادفات تلاشے ہیں۔ خصوصا تشبیہات کے لیے انہوں نے بڑے عمدہ مترادفات کا استعمال کیا ہے۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحطہ فرما لیں:چاند سا خوب صورت مکھڑا کنول کو شرمانے والی مخمور آنکھیں سونے کی چمک کو ماند کر دینے والا کندن سا جسم بھنوروں سے بڑھ کر سیاہ گھنی زلفیںطلائی کلس کی طرح چھاتیوں کا ابھار ہاتھی کی سونڈ کی طرح خوشنما اور گداز رانیںمجموعہ شرنگارشتک آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق: بھرتری ہری کا زمانہ پہلی صدی عیسوی قبل مسیح کا ہے۔بھرتری ہری کا تعلق شاہی خاندان سے تھا جس کا دارالحکومت اجین تھا ۔۔ راجا بکرماجیت کا بھائی بیان کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر سلیم خاں کے مطابق: بھرتری ہری پہلی صدی عیسوی قبل مسیح میں سنکر تزبان کا شاعر تھا ۔ ریاستِ مالوہ کےاس راجہ کا دارالخلافہ اجین تھاکہا جاتا ہے کہ وہ راجہ وکرم مادتیا کا بھائی تھا۔چوہدری جے کرشن کے مطابق: وہ اجین یا اس کے نواح کے شاہی خاندان سے تعلق رتھتا تھا اور اس نے کچھ عرصہ حکومت بھی کی۔۔۔۔کئی مورخ اسے مہاراجہ بکرماجیت کا‘ جس نے بکری سمت جاری کیا بھائی بتاتے ہیں۔ اس رائے کو درست تسلیم کیا تو وہ پہلی صدی قبل مسیح میں ہیدا ہوا۔ کئی محققین اس کا زنانہ ٦٥٠ء کے قریب بتاتے ہیں۔ جب سلادتیہ دوئم اجین کے تخت پر متمکن تھا۔ اگر مختلف راوئتوں کو درست تسلیم کیا جائے تو پہلی رائے زیادہ جاندار معلوم ہوتی ہے۔بھرتری ہری سے منسوب ایک داستان جسے جے کرشن چوھدری نے نقل کیا ہے اور یہ آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا میں بھی ملتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: بھرتری ہری نے ایک کامیاب دنیا دار کی زندگی کا تجربہ کیا اور دنیاوی آلائشات میں اس حد تک منہمک ہوا کہ فکری اور تخلیقی زندگی کے بہت سے شعبوں سے اس کی توجہ ہٹی رہی۔ اس کی شادی ایک خوبصورت ملکہ پنگلا سے ہوئی۔ وہ بیوی پر اس حد تک فریفتہ تھا کہ اس کی کچھ دیر کی جدائی بھی گوارا نہیں تھی۔ ہر وقت سایے کی طرح اس کے ساتھ رہتا جس سے ریاستی معاملات میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اس کے رویے پر اس کا چھوٹا سوتیلا بھائی وکرما دتیہ معترض تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا بھرتری ہری کو راج نیتی میں زیادہ وقت صرف کرنا چاہئے۔اس کے اعتراضات کے نتیجے میں مہارانی پنگلانے اس کے خلاف بھرتری ہری کو بدگمان کرنا شروع کیا اور آخر اسی کے اشارے پر راجہ نے وکرما دتیہ کو شہر سے نکلوادیا۔تاہم زیادہ عرصہ وہ اپنی بیوی کے سحر میں گرفتار نہ رہ سکاکیونکہ اس کی وفادری مشکوک تھی۔اس کی بیوی کی بے وفائی سے منسوب حکایت ہےجس کے مطابق بھرتری ہری کو ایک پنڈت نے ایک پھل کا تحفہ دیا جسے کھانے سے زندگی کا دورانیہ بڑھ جاتا تھا۔ اس نے وہ پھل اپنی پتنی مہارانی پنگلا کو دے دیا۔مہارانی نے پھل لے لیا لیکن اس سے کہا کہ وہ اسے نہانے کے بعد ہی کھائے گی۔ یہ سن کر راجہ لوٹ گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ مہارانی پنگلا ایک شاہی سائیس کے عشق میں مبتلا تھی۔ اس نے وہ پھل اسی سائیس کو دے دیا۔ وہ سائیس کسی طوائف سے محبت کی پینگیں بڑھائے ہوئے تھا۔ یوں وہ پھل سائیس سے ہوکر طوائف تک پہنچا۔ جب کہ طوائف نے راجہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے یہ تحفہ لاکر بھرتری ہری کو دیا۔ اس پھل کو وہ پہچان گیا اور اس سے بولا کہ وہ پھل اس کے پاس کہاں سے آیا اور یوں اس کے لیے اس بات کا سراغ لگانا زیادہ مشکل ثابت ہوا کہ اس کی بیوی بے وفا تھی۔ راجہ نے وہ پھل اس سے لیا اور فوراً کھالیا۔ مہارانی کی بے وفائی کا بھرتری ہری کی زندگی پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ سبھی دنیادی آلائشات سے کنارہ کش ہوگیا۔ حتی کہ اس نے شاہی زندگی کو بھی تیاگ دیا اور جنگلوں میں رہائش اختیار کرلی۔محمد کاشف علی کا کہنا ہے: راجہ بھرتری تو خود راج پاٹ تیج کر، اپنے بھائی وکرم جیت کو تاج و تخت سونپ کر واردِ ٹلہ ہوا جبکہ کے راجہ سلواہن کا بیٹا پورن، گرو گورکھ ناتھ کا بھگت بنا تھا۔ آج بھی سیالکوٹ کی تاریخی اور ثقافتی کہانی تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک پورن بھگت کا قصہ سماعتوں کی گلیوں سے ہو کر نہ گزرے۔ لوک روایات کے بیانیے میں مبالغہ تو ہوسکتا ہے مگر قدیم ہند کی تاریخ نگاری لوک روایات سے ہی اتنی ضخیم ہوئی ہے۔ لوک روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مخصوص سماج کی مشترکہ یاداشت ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے بھلے اس میں جزئیات کی آمیزش ہوتی رہے۔یہ مقدس پہاڑ ٹلہ گورکھ ناتھ سے ٹلہ بالناتھ بنا اور پھر عالم میں ٹلہ جوگیاں کا نام پایا، مغل بادشاہ اکبر کا وقائع نویس ابوالفضل اسے ٹلہ بالناتھ کے نام سے ہی ’’آئینِ اکبری‘‘ میں جگہ دیتا ہے اور اسی کے مطابق اکبر نے 1581ء میں اس جوگیوں کے اس مقدس پہاڑ کی یاترا کی۔ شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی کے وسط میں جرنیلی سڑک سے منسلک دینہ میں قلعہ روہتاس جو بنوا رکھا تھا تو اس کے بعد جب مغل شاہان یہاں سے گزرا کرتے تو یقیناً قیام تو کرتے ہوں گے اور کچھ ٹلہ کی زیارت بھی کرتے ہوں گے، بہر کیف تاریخ میں نورالدین جہانگیر بادشاہ کا ذکر تو مل ہی جاتا ہے کہ وہ ایک بار تو جوگیوں کے مقدس پہاڑ تک آیا۔آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق وہ: بھرتری ہری قدیم ہندوستان کا سنسکرت کا عظیم فلسفی، ماہر لسانیات ،شاعر اور نجومی تھا۔ راج پاٹ چھوڑ کر جوگی بن گیا۔ وہ جدت پسند نظریہ ساز ہونے کے ساتھ ساتھ پانینی کے بعد سنسکرت کا سب سے اہم ماہر لسانیات بھی تھا۔ڈاکٹر نیر عباس نیر نے بڑے کمال کی کہی ہے:افلاطون نے یہ بحث Cratylas میں اٹھائی ہے۔ بالعموم یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ زبان اور دنیا کے رشتے پر غور کرنے والا پہلا آدمی افلاطون ہے، جو درست نہیں ہے۔ افلاطون سے کہیں پہلے بھرتری ہری یہ بحث پیش کر چکا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بھرتری ہری اور افلاطون دونوں زبان اور دنیا کے رشتے کو حقیقی اور فطری قرار دیتے ہیں۔ آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق اس کی چار کتابیں دسیاب ہیں: شرنگار شتک: اس شتک میں سو شلوک ہیں اس میں بھرتری ہری نے عشق و محبت کی باتیں کی ہیں۔ نیتی شتک: کہا جاتا ہے کہ جب بھرتری ہری اجین کا راج کمار تھا تب اس نے نیتی شتک لکھا تھا جس کا مطلب سیاست ہے ، اس شتک میں اس دور کی سیاست کی عکاسی ہے۔ ویراگیہ شتک : جب بھرتری ہری نے سنیاس لے لیا اور اپنا راج پاٹ چھوڑ کر فقیری اختیار کیا تو اس نے ویراگیہ شتک لکھا اس کا مطلب ہے معرفتِ الہٰی اور فقیری۔واکیہ پدیہ صرف نحو کی ایک کتاب شامل ہے۔ سید یعقوب شمیم کے مطابق: 1670 میں اس کی اخلاقی نظموں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا تھا اس کے علاوہ Schiefmer اور Weber نے اس کی نظمیں لاطینی میں ترجمہ کے ساتھ شائع کیں۔ بھرتری ہری کی نظموں کا ترجمہ جرمنی زبان میں Bohler اور Schtz نے کیا ہے۔ Prof. Tawney کی تصنیف Indian Artiquiary میں ان نظموں کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا گیاآزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق:اقبال بھرتری ہری کے قول وعمل سے بہت متاثر ہیں اور تمام انسانوں کی فلاح کا راستہ بتاتے ہیں ۔ بھرتری ہری کے اس فکر وعمل سے اقبال نے بہت فائدہ اٹھایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ بھرتری ہری کے اس فکر کا اثر اقبال کے کلام میں ہمیں جابجا نظر آتا ہے ۔ اسی لیے علامہ اقبال نے بال ِجبریل کا آغاز اس شعر سے کیا ہے۔پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگرمر د ناداں پر کلام ِ نر م و نازک بے اثراقبال بھرتری ہری کی عظمت کے اس قدر قائل تھے کہ بھرتری ہری کو فلک الافلاک پر جگہ دی ہے جس کو ہم جنت الفردوس کے نام سے جانتے ہیںاس کی شاعری کے بارے سید یعقوب شمیم کا کہنا ہے: آج بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں بالخصوص شمالی ہند کے علاقہ اجین میں بھرتری ہری کے خیالات لوک گیتوں اور لوک نظموں کی صورت میں موجود ہیںعلامہ کی وسعتِ نظری اور کشادہ دلی نے انہیں سرزمین ہند کے عظیم فلسفی اور شاعر بھرتریہری کا بھی دلدادہ بنا دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی مشہور کتاب بال جبریل کے سر ورق پر بھرتری ہری کے شعرکا ترجمہ لکھا ہے۔ کسی شعری مجموعے کی ابتداء میں کسی دوسرے فلسفی کے شعر کے موجودگی کا منفرد اعزاز کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہوگا ۔سید یعقوب شمیم کے مطابق: اقبال نے اس کے کلام کا منظوم ترجمہ بھی پیش کیا ہے جنہیں بھگوت گیتا کی تعلیمات کا خلاصہ کہا جاسکتا ہے۔ایں خدایان تنک مایہ زسنگ اندو زخشتبرترے ہست کہ دور است ز دیر و کنشتاس کا انتقال ۶۵۱ء میں ہوا تھا مواد کی حصولی کے لیے ان ویب سائٹسز سے شکریے کے ساتھ مدد لی گئی ہے۔http://www.urdulinks.com/urj/?p=544http://humshehrionline.com/?p=9181#s...ری سے منسوب اس روایت کی مثال‘ اشارتی سہی ان کے کلام میں بھی ملتی ہیں۔ مثلامیں ہوں جس کا پریمیوہ ہے دوجے مرد کی دوانیاور دوجا مرد دوسرینار کے دَر کا سیلانیپر وہ دوجی نار پیار کیماری مرتی ہے مجھ پرسو سو لعنت کام دیو١ پرمجھ پر اور اس پر اور اس پرترجمہ تاج قایم خانی ١-کام دیو‘ محبت کا دیوتا۔۔۔۔۔کیا عورت حقیقت میں کسی شخص سے محبت کرتی ہےوہ ۔۔۔بیک وقت۔۔۔ ایک انسان سے باتیں کرتی ہےدوسرے کی طرف نگاہ غلط انداز سے دیکھتی ہےاور تیسرے کی یاد کو سینے سے لگائے رکھتی ہےمجموعہ شرنگارشتک ۔۔۔۔۔مجموعہ شرنگارشتک میں موجود کلام عیش کوشی سے تعلق کرتا ہے۔ عورت کے حسن و جمال اور لذت کوشی پر مبنی ہے۔تیاگی ہونے سے پہلے وہ عورت کے کس قدر دلداہ تھے اس کا اندازہ ان کی ان دو نظموں سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے: وہ زاہد جو عورت کی تحقیر کرتا ہے‘ نہ صرف خود فریبی میں مبتلا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ کیونکہ ریاضت اس لیے کی جاتی ہے کہ بہشت ملے۔ اور بہشت کے حصول سے غرض اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپسراؤں ۔۔۔حوروں۔۔۔۔ کا وصل نصیب ہو۔جے کشن چوھدری نے اس خیال سے ملتی خیام کی ایک رباعی بھی درج کی ہے۔گویند بہشت وجود عین خواہد بودو آنجا مے ناب و انگبین خواہد بودگرمائے و معشوق پرستیم رواستچوں عاقبت کار ہمیں خواہد بود مجموعہ شرنگارشتک ۔۔۔۔۔ایک حسین عورت کامدیو ۔۔۔۔عشق کا دیوتا۔۔۔ کا آلہءکار ہے۔ جس کے توسط سے دنیا کی سب عیش وعشرت میسر ہے جو احمق‘ عورتوں کا خیال چھوڑ بہشت کے تصور میں محو ہو جاتے ہیں۔ وہ کامدیو کے غم و غصہ کا شکار ہو کر سزا پاتے ہیں۔ جو ان کو مختلف صورتوں میں ملتی ہے۔ کبھی تو کامدیو ان کا لباس اترا لیتا ہے‘ کبھی سرمنڈاوا دیتا ہے۔ کسی کو جٹا دھاری بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور کسی کے ہاتھ میں کشکول دیکر در در کی بھیک منگواتا ہے۔ مجموعہ شرنگارشتک ۔۔۔۔۔ بھرتری ہری کے کلام میں خوب صورت غزلیاتی تشبیہات کا بھی استعمال ہوا ہے۔ جے کرشن چوھدری نے ان کا ترجمہ کرتے وقت اپنی حس جمالیات کا پوری ذمہ داری سے استعمال کیا ہے۔ مثلا ان کا یہ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: چاند سا خوب صورت مکھڑا کنول کو شرمانے والی مخمور آنکھیں‘ سونے کی چمک کو ماند کر دینے والا کندن سا جسم‘ بھنوروں سے بڑھ کر سیاہ گھنی زلفیں؛ طلائی کلس کی طرح چھاتیوں کا ۔۔۔ زہد شکن۔۔۔ ابھار‘ ہاتھی کی سونڈ کی طرح خوشنما اور گداز رانیں اور شیرنینی کلام۔ یہ سب جوان دوشیزاؤں کے فطری جوہر ہیں۔ جو انسان کے دل و دماغ کو تسخیر کر لیتے ہیں۔مجموعہ شرنگارشتک اس نظم کو پڑھ کر شاہ لوگوں کی ذہنیت اور کرتوت کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ اس سے قطعی الگ بات ہے کہ چوری خور مورکھ اسے نبی سے کچھ انچ ہی نیچے رکھتا ہے۔ وہ وہ گن ان میں گنواتا ہے جو ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے ہوتے یا ان سے کبھی اس کی بھولے سے بھی سلام دعا نہیں ہوئی ہوتی۔اسی کتاب میں دو نظمیں ایسی بھی درج ہیں جو آفاقی اور عملی زندگی کی عکاس ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: علم کے علم و فن کا چراغ محض اس وقت تک روشن ہے‘ جب تک کسی دل نواز حسینہ کے دامن حسن کا جھوکا اس تک نہ پہنچے۔۔۔۔۔۔۔انسان کو بزرگی‘ فہم و فراست‘ تمیز نیک و بد اور خاندانی وقار کا احساس تب تک رہتا ہے۔ جب تک اس کا جسم آتش عشق کے شعلوں سے محفوظ ہے! مجموعہ شرنگارشتک حسن زن اور عشق رن سے متعلق دو نظمیں ایسی بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جو زن گرفتنی کی انتہا کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ بھرتری ہری نے اس ضمن میں برہما دیو کو بھی بےدست و پا قرار دے دیا ہے۔ آپ بھی پڑھیں: بےانتہا محبت کی گرمجوشی میں عورت جس کام کو شروع کر دیتی ہے۔ اس کو روکنے میں برھما بھی بےدست و پا ہو جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔اس دنیا میں ایسے شہزور موجود ہیں جو بدمست ہاتھیوں کے جھنڈ کو خاظر میں نہیں لاتے اور غضب ناک شیروں سے الجھنا ایک کھیل سمجھتے ہیں۔ لیکن مجھے اس بات کے کہنے میں اصرار ہے کہ ایسے بہادر بہت کم ہیں جو کامدیو کی پیدا کی ہوئی مستی کی تاب لا سکیں۔اس مضمون سے متعلق ایک شعر مولانا روم کا بھی درج کیا گیا ہے جو جے کرشن چوھدری کے ذوق اور فارسی دانی کا غماز ہے۔سہل شیرے واں کہ صفہا بشکندشیر آن است آنکہ خود را بشکندمجموعہ شرنگارشتک ایک نظم جو رنگین طبعتوں کے لیے عنوان لیے ہوئے ہے۔ یہ نظم عورت شوقینی کی جیتی جاگتی ایمجری کا درجہ لیے ہوئے ہے۔سب سے قابل نظارہ چیز کون سی ہےایک آہو چشم حسینہ کا محبت سے مسکراتا ہوا چہرا۔! سونگھنے کے لئے سب سے عمدہ چیز کون سی ہےحسینہ کا تنفس۔! سب سے زیادہ سامع نواز چیز کون سی ہےحسینہ کی شیریں کلامی۔! چھونے کے قابل سب سے زیادہ احساس آفریں چیز کون سی ہےحسینہ کا نازک اندام! تصور کے لیے سب سے بڑھ کر مسرت خیز چیز کون سی ہےحسینہ کا پربہار شباب اور وصال! مجموعہ شرنگارشتک بھرتری ہری کمال کے سراپا نگار ہیں۔ اس ذیل میں ان کی یہ نظم ملاحظہ فرمائیں: نازک اندام حسینہ! تیرے حسن کا کیا کہنا! بال بال میں موتی گندھے ہیں‘ دونوں آنکھیں کانوں کے نزدیک پہنچ گئی ہیں‘ دانت موتیوں کی لڑیوں کی طرح آنکھوں کو خیرہ کئے دیتے ہیں‘ چھاتیوں پر پڑا ہوا موتیوں کا خوشنما ہار اپنی جگہ آب وتاب دیکھا رہا ہے غرضٰکہ تو ان تمام خوبیوں کی حامل ہے‘ جو شرقی١ میں پائی جاتی ہیں۔ تیرا بدن شانتی کا گہوارہ ہے۔‘ تیرا جسم تمام برتوں۔۔۔ریاضتوں۔۔۔ اور آشرموں٢ کا مسکن ہے۔ لیکن ان سب سے بالاتر‘ تو ایک قابل احترام شکتی۔۔۔طاقت۔۔۔ ہے۔ جس نے مجھے گرویدہ کر رکھا ہے۔١ الہامی کتاب ٢ ہندو عقیدہ کے مطابق زندگی کے چار دور ہیں‘ برہمچریہ‘گرہست‘ ‘ بان برستھ اور سنیاسنوٹ۔ یہ حواشی جے کرشن چوھدری نے درج کیے ہیں۔مجموعہ شرنگارشتک بھرتری ہری نے اپنے کلام میں مختلف نوعیت کی تلمیحات کا بھی برمحل اور برجستگی سے استعمال کیا ہے۔ جے کرشن چوھدری نے ترجمہ میں ان کی اس بےساختگی کو مجروع نہیں ہونے دیا۔ چند ایک مثالیں باطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں: وہ زاہد جو عورت کی تحقیر کرتا ہے‘ نہ صرف خود فریبی میں مبتلا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ کیونکہ ریاضت اس لیے کی جاتی ہے کہ بہشت ملے۔ اور بہشت کے حصول سے غرض اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپسراؤں ۔۔۔حوروں۔۔۔۔ کا وصل نصیب ہو۔ مجموعہ شرنگارشتک شرنگارشستک میں کل سو نظمیں ہیں جن میں سے جے کرشن چودھری نے انیس نظموں کا ترجمہ کیا ہے ۔ حقی سچی بات تو یہ ہی ہے کہ جتنا بھی کیا ہے اچھا اور خوب کیا ہے۔ اسے اردو ادب میں خوش گوار اضافے کا نام نہ دینا بہت بڑی بدذوقی ہو گی۔جب بھرتری ہری کی دوسری کتاب نیتی شتک پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ وہ ہی عورت کا شوقین راجہ بھرتری ہری ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کوئی استاد‘ بھگت‘ اوتار‘ فلاسفر یا درس کار ہو۔ یہاں اس کا ہر لفظ سچائی کا پرچارک نظر آتا۔ جے کرشن چوھدری نے ترجمہ صاف شستہ اور بلیغ کیا۔ اسے سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ مفہوم نظم پڑھنے کے ساتھ ہی سامنے آ جاتا ہے۔ باطور درس کار ملاحظہ فرمائیں: جس انسان کے پاس رحم ہے اسے ڈھال کی کیا ضرورتغصہ ہے تو دشمن کی کیا حاجتقبیلہ ہے تو آگ کا کیا کام ١دوست نزدیک ہے تو نایاب دواؤں کی کیا حاجت برے لوگوں کی صحبت ہے تو سانپ کی کیا ضرورتاگر علم بےعیب ہے تو دولت کی کیا حاجتاگر لاج۔۔۔ عصمت ۔۔۔ ہے تو دوسرے گہنوں سے کیا فائدہاور اگر سخنوری ہے تو اس کے سامنے حکومت کیا ہےاس کے بعد تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی درج کر دیا گیا ہے۔تحمل ہو طبعیت میں تو جوش کی ضرورت کیاغضب پنہاں ہو فطرت میں تو دشمن کی ضرورت کیاچغل خوری کے ہوتے آتش سوزاں کی کیا حاجتجو ہوں احباب مخلص درد میں درماں کی کیا حاجتضرورت کیا ہے افعی کی‘ اگر موجود ہے دشمنتمنا کیوں ہو دولت کی‘ جو دل میں ہو علم کا مخزنجہاں شرم و حیا ہیں احتیاج حسن زیور کیاکمال شاعری پر آرزوئے تاج قیصر کیا١- انسانی تقسیم‘ بات کو پھلانے والےمجموعہ نیتی شتک زندگی کی تلخ ترین حقیقت کا طنزیہ اور تلخ انداز میں اظہار ملاحظہ فرمائیں۔ بلاشبہ اس میں ان کا تجربہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عملی زندگی میں دیکھیں‘ یہ ہی کچھ نظر آئے گا۔ : غلام کے فرائض بھی کتنے کٹھن ہیں۔ یوگیوں کے لیے بھی ان کا نبھانا مشکل ہے۔! دولت ہی تمام صفات کا ملجا و ماوا ہے۔ جو زردار ہے وہی عالی نسب ہے۔ وہی ہنرور؛ مرجع خلائق؛ فصیح الزمان اور دیکھنے کے لائق انسان ہے۔ اور بےزر کا ہر ہنر اور جوہر ایک ناقابل معافی گناہ! مجموعہ نیتی شتک اس کا منظوم ترجمہ جو تلوک چند محروم نے کیا ہے وہ بھی درج کیا گیا ہے۔جو ہے صاحب زر وہی ہے نجیب وہی فاضل دہر ہے اور ادیبوہی لائق دید ہے خوش بیان غرض زر میں شامل ہیں تمام خوبیاںاسی مضمون کی خیام کی دو رباعیاں بھی درج کی گئی ہیں۔در کیسہ زرے ہر کہ مہیا دارد چوں نور بچشم ہمہ کس داردزرگر پسرے دوش چہ نیکو گفتہ اشراف کسے کہ اشرافی ہا دارد۔۔۔۔۔گویند کہ مرد را ہنر می باید بانسبت عالی پدر می بایدامروز چناں شدہ است در نوبت ما کیں باہمہ ہیچ است و زر می بایداس کتاب کی ہر نظم قول زریں کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ نہیں اس میں مشاہدہ اور زندگی کا تجربہ بولتا ہے۔ زندگی کا تجزیہ کریں‘ یہ ہی کچھ نظر آئے گا۔ اس نے جیتی جاگتی زندگی کو کاغذ پر منتقل کر دیا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ یہ کہ اکیس سو سال پرانا ہے لیکن آج بھی یہ ہی کچھ عملی زندگی میں نظر آتا ہے۔ یہ نظم دیکھیے: غلام اگر چپ رہے تو گونگا‘ بول چال میں چست ہو تو باتونی‘ نزدیک رہے تو ڈھیٹ دور رہے تو بیوقوف قوت برداشت رکھتا ہو تو ڈرپوک اگر نہ رکھتا ہو تو رزیل کہلاتا ہے۔مجموعہ نیتی شتک اسی مضمون کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں: ۔۔اندریاں۔۔۔۔ حواس۔۔۔۔ وہی‘ نام بھی وہی‘ وہی تیز فہمی اور وہی خوش کلامی۔ لیکن جائے حیرت ہے کہ صرف دولت کے ہاتھ سے چلے جانے کے بعد وہی انسان کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔مجموعہ نیتی شتک حق سچ اور کھری کھری کو کسی مذہب دھرم شخص یا کسی مخصوص فرقے تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ ناہی ان حوالوں سے اسے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ اسے جو بھی کہے یا کرے گا وہ حق اور سچ ہی کہلائے گا۔ وہ کہا یا کیا قابل تحسین و قابل عمل ہی ہو گا۔ اس سے انحراف سراسر ظلم کے مترادف ہو گا۔ بھرتری ہری کے اس کہے کو دو ہزار سال زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن یہ کہا آج بھی اٹل ہے۔ ابنیاءکرام اور صلاحین بھی تو یہ ہی کہتے آئے ہیں۔ منفی قوتیں ان سے انحراف کرتی رہی ہیں اور آج بھی کرتی ہیں۔ حق سچ سچ کڑوا رہا ہے یہ بھی کہ زبانی کلامی تو بہت سے اسے ماننے کو تیار ہوں گے لیکن عملی طور پر اسے کھوہ کھاتے میں ڈالتے آئے ہیں۔ اب زرا یہ نظم ملاحظہ فرمائیں اور بےشک دھرم مذہب کو بھی بیچ میں لے آئیں۔ کوئی مذہب یا دھرم اس کہے سے انحراف نہیں کرے گاِ۔ جے کرشن چودھری نے ترجمہ کرتے کلام کے فصاحت و بلاغت کو یکسر مجروع نہیں ہونے دیا۔ مفہوم کی ادائیگی میں کوئی کجی باقی نہیں رہنے دی۔سیاست دان مذمت کریں یا تحسین‘ دولت رہے یا چلی جائے موت چاہے آج آ جائے یا ایک یگ کے بعد‘ لیکن حوصلہ مند لوگ انصاف کے راستے سے ایک قدم بھی ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ترجمہ جے کرشن چوھدری مجموعہ نیتی شتک اقبال یا اس سے اور لوگوں کا بھرتری ہری سے متاثر ہونا تعجب خیز نہیں۔ بھرتی ہری نے کہا: کنول کی نازک ڈنڈی۔۔۔ شاخ۔۔۔سے ہاتھی کو باندھا جا سکتا ہے‘ ہیرے کو سرسوں کے پھول سے بنیدھا جا سکتا ہے اور شہد کی ایک بوند سے کھارے سمندر کو میٹھا کیا جا سکتا ہے‘ لیکن مرد ناداں کو میٹھی باتوں سے رام کر لینا سعیءلاحاصل ہے۔اقبال نے اس کو اپنے ایک شعر میں‘ جو عرف عام میں ہے کچھ یوں باندھا ہے: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگرمرد ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثراسی قسم کے خیال کو بھرتری ہری نے اپنی ایک اور نظم میں یوں نظم کیا ہے: مگر مچھ کے جبڑے سے موتی نکال لینا بہت ممکن‘ متلام سمندر کو تیر کر عبور کرنا آسان‘ غضناک سانپ کو سر پر پھول کی طرح رکھ لینا سہل‘ پر یہ ناممکن ہے کہ جاہل کے دل سے جاگزیں کسی خیال کو ہٹایا جا سکے۔اس کی تاریخ میں ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ایسا ہی ہو رہا ہے۔بےشک یہ رویہ اہل علم حق دوستوں کے لیے تکلیف دہ اور ناقابل برداشت رہا ہے۔ اس ذیل میں بھرتری ہری کا کہنا ہے: دشوار گزار پربتوں پر درندوں کی بہتر صحبت بہتر لیکن بیوقوف ۔۔۔ ناہل ۔۔۔ کی صبت راجہ اندر کے محل میں بھی ناقابل برداشت۔! جےکرشن چوہدری نے اسی مضمون کے قریب تر تین شعرا کے بھی اشعار درج کیے ہیں جو ان کے شعری ذوق و شعور کا عمدہ نمونہ ہیں: تو رہائی جوز ناجنساں بجدصحبت ناجنس گورا راست و لحدمولانا رومخواہی کہ بدانی بیقیں دوزخ رادوزخ بہ جہاں صحبت نااہل بودخیامغربت میں ہے اجنبی مسافر جس طرحدانا کا یہی حال ہے نادانوں میںحالیمجموعہ نیتی شتک ایک طنزیہ انداز کی نظم ملاحظہ فرمائیں۔ یہ نظَم ہمارے چلن اور رویے کی عکاس ہے کہ ہم دولت کے کتنے حریص ہوگئے ہیں۔ اس کے حصول اور مزید حصول کے لیے کس سطع پر جا سکتےہیں۔ اس کا شائق کتنا گر سکتا ہے اس کی عکاسی انتہائی تلخ اور دکھ آمیز انداز میں کی گئی ہے۔ کہتے ہیں: چاہے قوم قعرمذلت میں گرے‘ اعلی صفات مٹی میں مل جائیں۔ انسانیت پہاڑ سے گر کر چکنا چور ہو جائے‘ خاندانی وقار تباہ ہو جائے اور اپنے پرائے چولھے میں پڑیں‘ لیکن ہمیں صرف دولت سے غرض ہے۔ جس کے بغیر قومی وقار‘ خاندانی وجاہت‘ علم و ہنر عزیز و اقارب ایک تنکے کی طرح حقیر ہیں۔مجموعہ نیتی شتک بھرتری ہری کی نظم میں سقراط کے اس قول کی عکاسی ملاحظہ فرمائیں "میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا"اس سے اس کی علم کی بھوک سامنے آتی ہے۔ بہت کچھ جاننے کے باوجود جاننے کی خواہش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ علم جتنا بھی حاصل کر لیا جائے کم نہیں بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ رب زدنی علما‘ یہ ہی تو ہے۔ بھرتری ہری کہتا ہے: جب میرا علم کم تھا میں خیال کرتا تھا کہ میں سب کچھ جانتا ہوں اور بدمست ہاتھی کی طرح غرور سے اندھا ہو رہا تھا‘ لیکن جب خوش قسمتی سے جب عارفوں سے ملاقات ہوئی اور ان کی صحبت سے کچھ حاصل ہوا تو حقیقت کا احساس ہوا کہ میرا علم کتنا محدود تھا۔ تب سے میرا غرور بخار کی طرح جاتا رہا۔ اس مضمون کی انہوں نے خیام کی ایک رباعی بھی درج کی ہے۔نابود دلم ز عشق محروم نشدکم بود ز اسرار کہ مفہوم نشداکنوں کہ ہمی بنگرم از رد کے خرد معلوم شد کہ ہیچ معلوم نشدخیاممجموعہ نیتی شتک انسانی فکر کے لیے رستہ تعین کرنے کا انداز ملاحظہ فرمائیں۔ ایک سچا اور کھرا درویش بھگت صوفی اور معلم اسی طور کی باتیں کرتا ہے۔ اس قسم کا چلن اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔کسی ذی روح کو مارنے اور کسی غیر کی دولت چھیننے سے پرہیز‘ سچ بولنے اور حسب توفیق خیرات کرنے سے محبت‘ دوسروں کی عورتوں کے متعلق باتیں کرنے سے نفرت‘ لالچ کے طوفان پر قابو پانا۔ گرو کے سامنے عجز کا اظہار‘ خلق خدا سے محبت‘ شاشتروں پر عقیدت اور دوسرے عقیدے کو یکساں طور پر دیکھنا۔۔۔رواداری۔۔۔ یہ چند ایسے رستے ہیں جو ابدی راحت کی منزل کو جاتے ہیں۔ مجموعہ نیتی شتک صحبت صالح‘ صالح کند صحبت طالع‘ طالع کند کو کیا خوبی سے تمثیلی انداز دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: پہلے پہل جب پانی دودھ سے ملتا ہے تو دودھ اسے اپنی تمام خوبیاں ۔۔۔رنگ روپ۔۔۔ دے دیتا ہے ۔۔۔اور دونوں یک جان ہو جاتے ہیں۔۔۔ بعد ازاں جب پانی ملے دودھ کو آگ پر ابالا جاتا ہے تو دودھ کو مصیبت میں دیکھ کر پانی اپنے آپ کو جلا دیتا ہے لیکن اپنے رفیق پر آنچ نہیں‘ آنے دیتا‘ دودھ بھی اپنے ساتھی کو تکلیف میں دیکھ کر جوش و خروش کا اظہار کرتا ہے اور اچھل کر آگ بجھا دینا چاہتا ہے اسے تب چین ملتا ہے جب پانی کے چند چھنٹے نہیں پا لیتا گویا دوست کو ایک بار پھر پا کر مطمن ہو جاتا ہے۔اس نظم کو رفاقت کی بےنظیر تمثیل کا عنوان دیا گیا ہے۔مجموعہ نیتی شتک ویراگ شتک بھرتری ہری کی تیسری شاعری کی کتاب ہے۔ جے کرشن چودھری نے اس کی تنتالیس نظموں کا ترجمہ کیا ہے۔ اس حصہ میں ناصرف ان کا لہجہ بدلا ہے بل کہ بات کرنے کے لیے انداز بھی مختلف اختیار کیے ہیں۔ ان نظموں کے مطالعہ سے اس عہد کی حیات کے اطوار بھی سامنے آتے ہیں۔ کچھ بدلا نہیں آج بھی وہ ہی معاشرتی اور معاشی چلن ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر ویسے ہی چلن اور ویسے ہی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ پیمانے وہ ہی ہیں لیکن لوگ وہ نہیں ہیں‘ ان کا چال چلن ہوبہو وہ ہی ہے۔ آواگون پر یقین نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے اصل فلسفے کی تہ تک پہنچا جا سکتا ہے یا شاید اس خطے کی یہ تاریخی سماجی اور معاشی واراثت کی آواگونی صورت ہے۔ بھرتری ہری کی شاعری کو آئینہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسا آئینہ جس میں منہ دیکھنا دونمبری کو کسی بھی صورت میں خوش نہیں آ سکتا۔حصول دولت کے لیے انسان کس طرح مشقت اٹھاتا ہے اس کی بھرتری ہری نے کمال چابکدستی سے عکاسی کی ہے۔ ان کا یہ طنزیہ انداز اپنی اصل میں انسان کی ہوس پر بہت بڑی چوٹ ہے۔ بہت کچھ ہاتھ لگ جانے کے باوجود مزید کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں: دولت کی تلاش میں زمین کھود ڈالی‘ پہاڑوں کی دھاتیں پگھلا ڈالیں‘ طوفانی سمندروں کو عبور کیا‘ راجاؤں کو کئی جتنوں سے خوش کیا۔۔۔طاقت اور دولت حاصل کرنے کےلیے۔۔۔ منتروں کا جاپ کرتے ہوئے طویل راتیں شمشان میں گذار دیں۔ لیکن مجھے ایک پھوٹی کوڑی تک نہ ملی۔۔۔یعنی جتنی دولت میں چاہتا تھا اتنی نہ ملی۔۔۔ اور میری خواہشات تشنہءتکمیل رہیں اے لالچ! تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ اب تو مجھے اپنے حال پر چھوڑ دے۔جے کرشن چوھدری نے اس مضموں کی خیام رباعیاں بھی درج کی ہیں: ایچرخ چہ کردہ ام ترا راست گو پیوستہ فگندہءمرا درتگ و پونائم ندہی تانبری کوئے بہ کوئے آبہم نہ دہی تانبری آب زردخیاممائیم فتادہ روز و شب در تگ و تاز ہر کیرہ نہادہ روئے در نشیب و فرازنہ ہیچ رہ آورد بجز رجن دگر نہ ہیچ پس افگند بجز راہ درازخیامچند از پئے حرص و آزائے فرسودہتاچند دوی گرد جہاں بےہودہخیاممجموعہ ویراگ شتک اسی مضموں کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں: میں بےفایئدہ دشوارگزار راستوں اور گھاٹیوں میں پھرتا رہا۔ اپنی اونچی جات کے مان کو چھوڑ ‘ میں رذیل لوگوں کی خدمت کرتا پھرا پر کچھ حاصل نہ ہوا۔ غیروں کے گھروں میں عزت و آبرو کھو کر‘ بچے کچھے ٹکروں پر جو ایک کوے کی طرح مجھے پھینکے گئے‘ بسر اوقات کرتا رہا۔ اور اس سے ١ہمکنار نہ ہو سکا۔اےلالچ! تیرا برا ہو‘ تو نے مجھے برے کاموں پر آمادہ کیا‘ کیا مجھے اتنا ذلیل کرنے پر بھی تجھے تسلی نہیں ہوئی۔تلوک چند محروم نے اس نظم کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔پھرا ہوں ایسے ملکوں میں جہاں دشوار تھیں راہیںملا کچھ بھی ثمر مجھ کو نہ اس آوارہ گردی کاغرور خانداں کو چھوڑ کر اوروں کی خدمت کیریاضت کی‘ مگر اس سے نہ میں نے کوئی پھل پایابھکاری بن کے میں مانند زاغاں کانپتے ڈرتے گھروں میں دوسروں کے جا کے کھاتا بھی رہا کھانامگر! افسوس ہے اے نفس دوں‘ اے بدنہاد ابتکتری تسکیں‘ ترے آرام کا پہلو نہیں نکلامحروماسی مضمون کی ایک خیام کی رباعی بھی درج کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں : بسیارد دیدم بگرد درد دشت یک کار من از دور جہاں راست نگشتوز ناخوشیءزمانہ باری عمرمگر خوش بگذشت یکدمے خوش نگذشتخیام١۔ سیریمجموعہ ویراگ شتک ہوس‘ لالچ پر گہری چوٹ ہی نہیں کرتے بل کہ دنیا سے محبت کے حوالہ سے جھوٹی امیدوں پر بھی ضرب لگاتے ہیں۔ انسان دنیا کی جھوٹی اور نائیدار خوشیاں حاصل کرنے کے لیے کتنا گر جاتا ہے اس کی عکاسی ملاحظہ فرمائیں: میں نے رذیل لوگوں کے تمسخر کو بخندہ پیشانی سنا‘ ابلتے ہوئے آنسوؤں کو دل ہی میں پی گیا‘ اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ‘ ان کو خوش کرنے کے لیے‘ ایک روکھی پھیکی ہنسی ہنسا‘ میں نے اپنے جذبات کو کچل ڈالا اور دل پر پتھر رکھ کر ان احمقوں کے سامنے سر جھکاتا پھرا‘ لیکن یہ سب بےسود تھا۔ اے فریب کار امید ابھی تو کتنے ناچ اور نچائیگی۔مجموعہ ویراگ شتک زرپرستوں کے منہ پر بھرتری ہری کا طمانچہ ملاحظہ فرمائیں۔ حصولی زر کے لیے شخص کس حد گر سکتا ہے۔ اس نظم کے مطالعے کے بعد باخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ انسان اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور ناہی انہیں اپنے لیے کافی سمجھتا ہے۔ اس کا یہ حیرتیہ انداز ضمیروں کو جھنجھوڑتا ہے۔کھانے کے لئے انواع و اقسام کے پھل باافراط ہیں‘ پینے کے لئے شیریں چشمے رواں ہیں‘ رات کی راحت کے لئے زمین کا بستر اور اوڑھنے کے لئے درختوں کی نرم و گداز چھالیں موجود ہیں۔ حیرانی ہے کہ انسان اتنی نعمتوں کو پا کر بھی شراب سے مدہوش اور نئی دولت پائے ہوئے بدمست امیروں کے سامنے ہاتھ پسارتا ہے‘ گڑگڑاتا ہے اور ان کے تمسخر کا نشانہ بن کر اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے۔نظم کے آزاد ترجمے کے بعد جے کرشن چودھری نے تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی درج کیا ہے۔خدمت گرانسان ہے زمانہ ساراہر ذرہ زمین کا‘ چرخ کا ہر تاراراحت کی ہوس میں چھوڑ کر راحت کوپھرتا ہے کہاں کہاں‘ یہ مارا مارااس مضمون سے میل کھاتا دو اور شعرا کا کلام بھی درج کیا گیا ہے۔دو قرض ناں اگر از گندم است یارجؤدوتائے جامہ اگر کہنہ است یا خودنوچہار گوشہءدیوار خود بخاطر جمعکہ کس نہ گوید ازیں بخیروآں جاروہزار بار نکوتر بہ نزد ابن یمنزفر مملکت کیقابار کیخسروابن یمندرد ہر کہر کہ نیم نانے داردوز بہر نشست آشیانے داردنے خادم کس بود نہ مخدوم کسےگو شادی بزی کہ خوش جہانے داردعمر خیاممجموعہ ویراگ شتک انسان کو فنا کے آگاہ کرکے اچھائی کی طرف مڑنے پر مجبور کرنے کا انداز بھی خوب اختیار کیا ہے۔ انہوں نے فنا کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے زندگی کی ناپائداری کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ انسان مزید کے حصول کے لیے جو حیلے حربے اختیار کرتا ہے بےمعنی اور لایعنی ہیں۔ انسان پر جب نائیداری کا فلسفہ کھلتا ہے تو وہ کانپ کانپ جاتا ہے۔ ہاں ہوس لالچ حرص اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور وہ انسان کو اسی خوف ناک ڈگر پر گامزن رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں: جس گھر میں پہلے بہت سے آدمی رہتے تھے آج وہاں صرف ایک ہے اور جہاں صرف ایک تھا وہاں آج بہت سے ہو گئے۔ ایک وقت آئیگا جب وہاں ایک بھی نہ رہیگا۔ یہ دنیا شطرنج کا تختہ ہے جس پر ہم محض مہروں کی طرح ہیں اور جہاں رات اور دن کے پاسوں کو پھینکتے ہوئے موت کا دیوتا۔۔۔مہاکال۔۔۔اپنی بیوی کے ساتھ کھیل میں مصروف ہے۔۔۔ہم سب موت کے کھیل کا سامان ہیں جنہیں وہ جب اور جہاں چاہتی ہے اٹھا کر رکھ دیتی ہے۔۔۔اسی مضمون کی عمر خیام کی رباعی بھی درج کر دی ہے: ۔۔مالعبگا نیم و فلک لعبت بازاز روئے حقیقی و نہ از روئے مجازبازیچہ ہمی کینم نرنطع وجودبر دیم بصذوق عدم یک یک بازعمر خیاممجموعہ ویراگ شتک اسی ذیل میں ایک اور بڑی ہی خوب صورت مثال ملاحظہ فرمائیں: دنیا کے عیش و آرام۔۔۔ کے اسباب۔۔۔کبھی ختم نہیں ہوتے ہم ہی ختم ہو جاتے ہیں۔۔۔ہم نے انہیں کھایا نہیں بلکہ ہم ہی ان کا نوالہ بن گئے۔۔۔ تپ۔۔۔ریاضتٰں۔۔۔نہ ہوئے جسم ان تپوں کا شکار ہو گئے‘ وقت کا خاتمہ نہیں ہوا۔ ہمارا عرصہءحیات ہی ختم ہو گیا۔۔۔وقت نہیں گیا ہمیں ہی دنیا سے جانا پڑا۔۔۔ خواہشات بوڑھی۔۔۔کمزور۔۔۔نہیں ہوئیں ہم بوڑھے ہو گئے۔اس نظم کا منظوم ترجمہ جو تلوک چند محروم کا کیا ہوا ہے بھی درج کر دیا گیا ہے: مزے ہم نے لوٹے نہیں لذتوں کےہمیں بلکہ لذتوں نے لوٹ کھایاہمیں وہم تھا ہم نے تپ خوب تاپاحقیقت یہ تھی تپ نے ہم کو تپایاہمیں آہ! گزرے چلے جا رہے تھےبظاہر زمانے کو گززندہ پایاہوئے پیر ہم کاوربار ہوس میںہوس پہ بڑھاپا نہ زنہار آیاتلوک چند محروماس مضمون سے لگا رکھتی عمر خیام کی بھی ایک رباعی درج کر دی گئی ہے: افسوس کہ بےفایئدہ فرسودہ شیدیموزطاس سپہر سرنگوں سودہ شیدیمدرداندا متا کہ تاچشم زدیمنابودہ بکام خویش نابودہ شیدیمعمر خیاممجموعہ ویراگ شتک اسی نہج کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں: ہر صبح وشام ہماری زندگی کے گنتی کے دنوں کو گھٹاتے رہتے ہیں ہمیں دنیا کے کام دھندوں میں لگے رہنے سے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وقت کب اور کیوں کر گزر گیا۔ پیدائش بڑھاپا‘ مصیبت اور موت کو دیکھ کر بھی انسان کو اپنی حالت کا آحساس نہیں ہوتا۔۔۔معلوم یہ ہوتا ہے کہ۔۔۔دنیا گفلت کی شراب سے مخمور اپنی حقیقت سے بےخبر ہو چکی ہے۔اسی مضمون کے دو اور شعر بھی درج کیے گیے ہیں۔جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹی ہےزندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدعالم تمام حلقہءدام خیال ہےغالبمجموعہ ویراگ شتک اب ذرا تقابلی اور موازنانی انداز ملاحظہ فرمائیں: اے راجہ! تم دولت کے مالک ہو تو ہم جب تک الفاظ میں معنی ہیں زبان کے مالک ہیں‘ تم بہادر ہو تو ہم بھی کٹ حجتی سے لوگوں کے غرور کے بخار کو توڑ دینے کی طاقت رکھتے ہیں‘ اگر دولتمند تمہارے فرما بردار ہیں تو علم و ادب سے شغف رکھنے والے لوگ ہمارے سامنے بھی زانوئے ادب تہ کرتے ہیں۔۔۔اس طرح ہم دونوں ایک ہی حیثیت کے مالک ہیں۔۔۔پھر اگرہم سے تمہاری عقیدت نہیں تو ہم بھی تم سے راہ و رسم کے خواہاں نہیں۔اقبال نے بھرتری ہری کا مطالعہ کیا اور وہ اس کا قائل و مائل بھی ہے۔ اس نے اسی مضمون کو کچھ اس طرح سے کہا ہے: رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقیہمیشہ تازہ وشیریں ہے نغمہءخسرواقبالمجموعہ ویراگ شتک کہا اور کیا باقی رہ جاتا ہے۔ بھرتری ہری کو آج دنیا سے گئے دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کا کہا آج بھی باقی ہے۔ قارون شداد وغیرہم کی دولت اور جاہ و جلال مٹی میں مل چکے ہیں لیکن کہا آج بھی باقی ہے۔ مقتدر کو کوئی نہیں جانتا ملا عمر ابو حمادی کے نام سے لوگ واقف نہیں ہیں لیکن منصور کا کہا کیا آج بھی باقی ہے اور زوال سے پرے پرے ہے۔ بھرتری ہری کی یہ نظم لفظ کی اہمیت و قیمت کو واضح کر رہی ہے۔ لفظ مرتے نہیں زندہ رہتے ہیں۔ بہت سی زبانیں نابود ہو گئیں لیکن ان کے الفاظ دوسری زبانوں میں شامل ہو کر آج بھی معنویت کے حامل ہیں۔ سقراط بلاشبہ بہت بڑا آدمی تھا۔ اس نے کچھ نہیں لکھا لیکن اس کا کہا جو الفاظ پر مشتمل تھا‘ آج بھی زندہ ہے۔ ڈھائی ہزار سال گزر جانے کے باوجود کہا معنویت کا حامل ہے۔ شاعر سے متعلق عمومی رویے کا بڑی خوب صورتی سے اظہار کیا ہے۔ اس سے وسیب کے تین نمایاں طبقے بےلباس ہو کر سامنے آ جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے گا: شاعر کی قدر و منزلت کون کرتا ہےعالم حسد کی آگ میں جل اٹھتے ہیں‘ امیر دولت کے غرور میں مست ہو کر بےاعتنائی برتتے ہیں اور عوام جہالت کا شکار ہیں۔ اس لئے روح پرور شاعری کا چشمہ دل ہی میں سوکھ جاتا ہے۔اسی مضموں کے تین شعر جوش ملیح آبادی کے بھی درج کر دیے گئے ہیں۔شعر کو‘ بہروں میں ممکن ہی نہیں حسن قبولشاعر ہندوستان ہے اصل میں جنگل کا پھولجس کے گردوپیش رہتا ہے بہام کا ہجومروندتے ہیں جس کو چوپائے جھلستی ہے سمومجہل کا دریا ہے اور ناقدریوں کی لہر ہےشاعر ہندوستاں ہونا خدا کا قہر ہےجوش ملیح آبادیمجموعہ ویراگ شتک خصیہ سہلا شاعر ناصرف چوپڑی کھاتے آئے ہیں بل کہ انہیں درباری ہونے کے سبب عوامی اور عمومی و خصوصی قدرومنزلت بھی ملتی آئی ہے۔ اس کے برعکس ناصرف بےنام و نشان رہے ہیں‘ بھوک کی آگ کا بھی شکار رہے ہیں۔اب ذرا تمثیلی اور حیرتیہ طور ملاحظہ فرمائیں: پروانہ تیز جلتی آگ۔۔۔شمع۔۔۔ میں کود پڑتا ہے کیونکہ اسے سمجھ نہیں کہ یہ جلا دیتی ہے‘ نادان مچھلی اپنی لاعلمی کی وجہ سے ماہی گیر کے کانٹے میں گوشت کے ٹکڑے پر لپکتی ہے۔ اور اپنی موت نہیں دیکھتی۔ لیکن کیا جائے حیرت نہیں کہ ہم جو دنیا کے نشیب و فراز سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ دنیاوی خوہشات دکھوں کے جال ہیں ان میں پھنستے ہیں اور بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی شامل کر دیا گیا ہے: پروانہ ہے بےخرد پتنگا ہے شمع پر جل کے جان دیتامچھلی بھی تو عقل سے عاری ہے پھنس جاتی ہے جال میں بچاریلیکن ہم صاحب خرد ہیں آگاہ تمیز نیک و بد ہیں پھر بھی دام ہوس میں پھنس کر کر لیتے ہیں حال اپنا ابترمجموعہ ویراگ شتک جس خوبی سے انہوں نے انسانی فکر کی تربیت کا اہتمام کیا ہے‘ دل کو گھائل کرتا ہے۔ یا پھر سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کسی عمدہ تخلیق کا یہ ہی تو کمال ہے کہ وہ انسان کو غور کی دعوت دیتی ہے۔انسانی حیات کی ناپائیداری کو خوب صورت مثالوں سے واضح کرکے انسان کو راستی کی طرف لوٹنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس ذیل میں یہ نظم ملاحظہ فرمائیں: دنیا کے عیش وعشرت کے سامان اتنے ناپائیدار ہیں جتنی بجلی جو ایک لمحے کے لئے بادلوں میں کوندتی ہے۔ جوانی کا زمانہ کچھ لمحہ رہنے والی چند پانی کی بوندونکی طرح ہے جو بادلوں سے چمٹی رہتی ہیں اور جنہیں ہوا کے تھپیڑے ادھر سے ادھر بکھیر دیتے ہیں‘ جوانی کی امنگ پہاڑی نالے کی باڑھ کی طرح تند اور تیز ہے اسلئے دانا لوگ ہمت اور حوصلہ سے اپنے من پر قابو پاکر جوگ کرتے ہیں۔اسی مضمون کا ایک شعر اقبال کا بھی درج کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو: ہر شے مسافر ہر شے راہی کیا چاند تارے‘ کیا مرغ و ماہیمجموعہ ویراگ شتک اسی نہج کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں: آغاز میں ماں کے بطن میں انسان سکڑا ہوا تکلیف کی حالت میں لٹکا رہتا ہے‘ عالم شباب میں اپنی محبوبہ کی مفارقت میں رنج و غم سے ہمکنار ہوتا ہے‘ بڑھاپے میں جوان اور خوبصورت عورتوں کی بھبتیاں سہتا ہے۔ اے انسان! بتا تو سہی‘ کیا دنیا میں ایسی چیز بھی ہے جو تجھے خوشی دے سکے۔ اسی مضموں کا ایک شعر غالب کا بھی درج کر دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ہے وحشت کی خواہش ساقی‘ گردوں سے کیا کیجئےلئے بیٹھا ہے دوچار جام واژگوں وہ بھیمجموعہ ویراگ شتک زندگی منفی گزر سکتی ہے مثبت بھی۔ استعمالات درست ہو سکتے ہیں غلط بھی۔ گویا منفی اور مثبت پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ غلط شخص کچھ بھی کر لے اس کے استعمالات درست سمت اختیار نہیں کرتے۔ گویا ضدین کا فلسفہ چلتا رہتا ہے۔ اب شخص پر منحصر ہے کہ وہ کون سی راہ لیتا ہے۔ اس کی پہچان بھی اسی حوالہ سے ہی ترکیب پائے گی۔ بھرتری ہری نے بڑی خوبی سے اس معاملے کو پیش کیا ہے۔ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں: دنیا میں ہر چیز کا برا استعمال کیا جا سکتا ہے ایک عقلمند آدمی جب علم حاصل کر لیتا ہے تو اس کا غرور اور جہالت مٹ جاتی ہے لیکن وہی علم پا کر بدقماش شخص کا دماغ بگڑ جاتا ہے۔ خداپرست آدمی کیلئے تنہائی ۔۔۔گوشہ نشینی۔۔۔ راہ نجات ہے لیکن ایک زانی کے لیے باعث تسکین نفس۔ ! مجموعہ ویراگ شتک بڑھاپے کی کیا خوب صوتی سے تصویر کشی کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انسانی چلن کو بھی اجاگر کر دیا گیا ہے۔ بھرتری ہری کی اس ذیل میں دو نظمیں ملاحظہ فرمائیں: اب جبکہ بڑھاپے نے آ گھیرا ہے‘ نفسانی خوہشات سرد پڑ گئی ہیں‘ جسم کمزور ہو گیا ہے اور خوددار کا احساس جاگتا رہا ہے‘ دوست اور عزیز سدھار گئے ہیں اٹھا نہیں جاتا‘ لاٹھی کے سہارے دوچار قدم چلتے ہیں آنکھوں کی بینائی کم ہو گئی ہے اور کچھ سوجھتا نہیں۔ افسوس! پھر بھی یہ ڈھیٹھ جسم موت کے خیال پر کانپ اٹھتا ہے۔تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی نظم کے نثری ترجمے کے بعد درج کر دیا گیا ہے۔ مطالعہ فرمائیں: خواہش لذات فانی مر چکیدور اپنا ختم عزت کر چکیہمدم و ہم سن جو اپنے دوست تھےراہئیے ملک بقا سب ہو گئےہو گیا دشوار اٹھنا بےعضااور آنکھوں میں اندھیرا آ گیاکیا کہوں اے جسم بےغیرت تجھےموت! بھی ہے باعث حیرت تجھےمحروماسی مضمون کی ایک رباعی خیام کی بھی پیش کی گئی ہے۔ مطالعہ فرمائیے: ایام شباب رفت دخیل دحشمشتلخت مرا عیش دلے نے چشمشایں قامت ہمچو تیر من گشتہءکماںرہ کردہ ام از عصا و خوش مے کشمشعمر خیامبڑھاپا ایک خوفناک بھیڑیے کی طرح دروازے کے اندر جھانک رہا ہے‘ بیماریوں نے دشمنوں کی طرح صحت کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا ہے‘ زندگی پانی کی طرح ایک ٹوٹے ہوئے برتن سے آہستہ آہستہ بہہ رہی ہے کیا یہ حیرانی نہیں کہ انسان‘ ان حالات کی روشنی میں بھی برائی ہی کرتا چلا جائے۔گویا آدمی کسی بھی حالت میں ہو نفسانی خواہشات سے چھٹکارے کی کوشش نہیں کرتا۔ برائی زندگی سے جھونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے بل کہ انسان ہی اس سے خلاصی پانے کی طرف نہیں آتا۔اسی مضمون کا ایک شعر سعدی جب کہ دو اشعار فخرالدین عراقی کے بھی درج کر دیے گیے ہیں: ۔۔اے کہ پنجاہ رفت دور خوابی شاید ایں پنج روز دریابی سعدیافسوس کہ ایام جوانی بگذشتسرمایہءعیش جاودانی بگذشتتشنہ بکنار جوئے چنداں خفتمگر جوئے من آب زندگانی بگذشت فخرالدین عراقیمجموعہ ویراگ شتک



    5. The Following 2 Users Say Thank You to Ubaid For This Useful Post:

      Dr Maqsood Hasni (01-10-2018),Moona (01-11-2018)

    6. #4
      Moderator Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      Ubaid's Avatar
      Join Date
      Nov 2017
      Location
      Dubai U.A.E
      Posts
      1,250
      Threads
      192
      Thanks
      785
      Thanked 550 Times in 440 Posts
      Mentioned
      409 Post(s)
      Tagged
      67 Thread(s)
      Rep Power
      8

      Re: بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائز&


      بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائزہمقصود حسنی تاریخ کا اک مخدوش جھروکہ، ٹلہ جوگیاں​بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائزہآج پرانی کتابوں اور مخطوطوں کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک بھرتری ہری کے کچھ کلام کا ترجمہ ہاتھ لگا۔ یہ تحفہ عکسی نقول کی صورت میں دستیاب ہوا ہے۔ اسے میں نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور کی لائبریری سے دستیاب کتاب کی عکسی نقل کی صورت میں محفوظ کیا تھا۔ آزاد ترجمہ جے کرشن چودھری نے کیا جون ١٩٥٩ میں جید برقی پریس دہلی نے اسے شائع کیا تھا جب کہ جملہ حقوق بحق ادارہ انیس اردو الہ آباد محفوظ تھے۔ کتاب کا انتساب مہاراجہ سری سوائی تج سنگھ جی بہادر کے نام کیا گیا ہے۔ پیش لفظ جوش ملیح آبادی جب کہ دیباچہ تلوک چند محروم نے تحریر کیا ہے۔ دیگر تفصیلات خود جے کرشن چودھری نے تحریر کی ہیں۔ اس عکسی کتاب کا پہلا صفحہ موجود نہیں اس لیے کتاب کا نام درج نہیں کیا جا سکتا۔بھرتری ہری سے متعلق کچھ کچھ جانتا تھا لیکن تفصیلات سے آگاہ نہ تھا۔ اس کتاب کے حوالہ سے بھرتری ہری سے متعلق جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ اس اشتیاق کی وجہ جوش ملیح آبادی کے یہ الفاظ بنے: بھرتری ہری کی شخصیت و اہمیت سے ہر وہ شخص واقف ہے جسے فلسفے اور ادب سے لگاؤ ہے۔میں ادیب ناسہی ادب سےلگاؤ ضرور رکھتا ہوں۔ جے کرشن چودھری نے بھرتری ہری سے متعلق بڑی اہم معلومات فراہم کر دی ہیں۔ انہیں پڑھ کر بھرتری ہری کے متعلق بہت کچھ ہاتھ لگ جاتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مزید جاننے کا شوق ہرچند بڑھ جاتا ہے۔ مزید جاننے کے لیے میں نے انٹرنیٹ ریسرچ کا سہارا لیا۔ کافی کچھ پڑھنے کو ملا ہے اور اس حوالہ سے بھرتری ہری کو جاننے میں مدد ملی ہے۔ اس مواد کے حوالہ سے ان کی شاعری کو بھی سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے مجھے یہ بھی سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے کہ وہ اپنے عہد کے عظیم بھگت‘ عارف اور صوفی تھے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے شاید آپ بھی اس سے مختلف نہ سمجھیں گے۔ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی تخلیق کا منتقل کرنا بلاشبہ بڑا مشکل گزار کام ہے۔ اس کے لیے دونوں زبانوں میں مہارت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ باطور خاص شاعری کا ترجمہ اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ شاعر لفظوں کا استعمال عمومی مفاہیم سے ہٹ کر کرتا ہے۔ گویا مترجم کا حسن شعر سے آگاہی ہونا بھی اس ضمن میں ضروری قرار پاتا ہے۔ وہ نزدیک کے مفاہیم تک محدود نہیں رہتا۔ اس نثری ترجمے کے مطالعہ سے یہ امر کھل کر سامنے آتا ہے کہ جے کرشن چوھدری ناصرف دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے تھے بل کہ شاعری سے بھی شغف خاص رکھتے تھے۔ تب ہی تو انہوں نے شعری لوازمات کے لیے ضرورت کے مطابق اردو مترادفات تلاشے ہیں۔ خصوصا تشبیہات کے لیے انہوں نے بڑے عمدہ مترادفات کا استعمال کیا ہے۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحطہ فرما لیں:چاند سا خوب صورت مکھڑا کنول کو شرمانے والی مخمور آنکھیں سونے کی چمک کو ماند کر دینے والا کندن سا جسم بھنوروں سے بڑھ کر سیاہ گھنی زلفیںطلائی کلس کی طرح چھاتیوں کا ابھار ہاتھی کی سونڈ کی طرح خوشنما اور گداز رانیںمجموعہ شرنگارشتک آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق: بھرتری ہری کا زمانہ پہلی صدی عیسوی قبل مسیح کا ہے۔بھرتری ہری کا تعلق شاہی خاندان سے تھا جس کا دارالحکومت اجین تھا ۔۔ راجا بکرماجیت کا بھائی بیان کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر سلیم خاں کے مطابق: بھرتری ہری پہلی صدی عیسوی قبل مسیح میں سنکر تزبان کا شاعر تھا ۔ ریاستِ مالوہ کےاس راجہ کا دارالخلافہ اجین تھاکہا جاتا ہے کہ وہ راجہ وکرم مادتیا کا بھائی تھا۔چوہدری جے کرشن کے مطابق: وہ اجین یا اس کے نواح کے شاہی خاندان سے تعلق رتھتا تھا اور اس نے کچھ عرصہ حکومت بھی کی۔۔۔۔کئی مورخ اسے مہاراجہ بکرماجیت کا‘ جس نے بکری سمت جاری کیا بھائی بتاتے ہیں۔ اس رائے کو درست تسلیم کیا تو وہ پہلی صدی قبل مسیح میں ہیدا ہوا۔ کئی محققین اس کا زنانہ ٦٥٠ء کے قریب بتاتے ہیں۔ جب سلادتیہ دوئم اجین کے تخت پر متمکن تھا۔ اگر مختلف راوئتوں کو درست تسلیم کیا جائے تو پہلی رائے زیادہ جاندار معلوم ہوتی ہے۔بھرتری ہری سے منسوب ایک داستان جسے جے کرشن چوھدری نے نقل کیا ہے اور یہ آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا میں بھی ملتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: بھرتری ہری نے ایک کامیاب دنیا دار کی زندگی کا تجربہ کیا اور دنیاوی آلائشات میں اس حد تک منہمک ہوا کہ فکری اور تخلیقی زندگی کے بہت سے شعبوں سے اس کی توجہ ہٹی رہی۔ اس کی شادی ایک خوبصورت ملکہ پنگلا سے ہوئی۔ وہ بیوی پر اس حد تک فریفتہ تھا کہ اس کی کچھ دیر کی جدائی بھی گوارا نہیں تھی۔ ہر وقت سایے کی طرح اس کے ساتھ رہتا جس سے ریاستی معاملات میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اس کے رویے پر اس کا چھوٹا سوتیلا بھائی وکرما دتیہ معترض تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا بھرتری ہری کو راج نیتی میں زیادہ وقت صرف کرنا چاہئے۔اس کے اعتراضات کے نتیجے میں مہارانی پنگلانے اس کے خلاف بھرتری ہری کو بدگمان کرنا شروع کیا اور آخر اسی کے اشارے پر راجہ نے وکرما دتیہ کو شہر سے نکلوادیا۔تاہم زیادہ عرصہ وہ اپنی بیوی کے سحر میں گرفتار نہ رہ سکاکیونکہ اس کی وفادری مشکوک تھی۔اس کی بیوی کی بے وفائی سے منسوب حکایت ہےجس کے مطابق بھرتری ہری کو ایک پنڈت نے ایک پھل کا تحفہ دیا جسے کھانے سے زندگی کا دورانیہ بڑھ جاتا تھا۔ اس نے وہ پھل اپنی پتنی مہارانی پنگلا کو دے دیا۔مہارانی نے پھل لے لیا لیکن اس سے کہا کہ وہ اسے نہانے کے بعد ہی کھائے گی۔ یہ سن کر راجہ لوٹ گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ مہارانی پنگلا ایک شاہی سائیس کے عشق میں مبتلا تھی۔ اس نے وہ پھل اسی سائیس کو دے دیا۔ وہ سائیس کسی طوائف سے محبت کی پینگیں بڑھائے ہوئے تھا۔ یوں وہ پھل سائیس سے ہوکر طوائف تک پہنچا۔ جب کہ طوائف نے راجہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے یہ تحفہ لاکر بھرتری ہری کو دیا۔ اس پھل کو وہ پہچان گیا اور اس سے بولا کہ وہ پھل اس کے پاس کہاں سے آیا اور یوں اس کے لیے اس بات کا سراغ لگانا زیادہ مشکل ثابت ہوا کہ اس کی بیوی بے وفا تھی۔ راجہ نے وہ پھل اس سے لیا اور فوراً کھالیا۔ مہارانی کی بے وفائی کا بھرتری ہری کی زندگی پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ سبھی دنیادی آلائشات سے کنارہ کش ہوگیا۔ حتی کہ اس نے شاہی زندگی کو بھی تیاگ دیا اور جنگلوں میں رہائش اختیار کرلی۔محمد کاشف علی کا کہنا ہے: راجہ بھرتری تو خود راج پاٹ تیج کر، اپنے بھائی وکرم جیت کو تاج و تخت سونپ کر واردِ ٹلہ ہوا جبکہ کے راجہ سلواہن کا بیٹا پورن، گرو گورکھ ناتھ کا بھگت بنا تھا۔ آج بھی سیالکوٹ کی تاریخی اور ثقافتی کہانی تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک پورن بھگت کا قصہ سماعتوں کی گلیوں سے ہو کر نہ گزرے۔ لوک روایات کے بیانیے میں مبالغہ تو ہوسکتا ہے مگر قدیم ہند کی تاریخ نگاری لوک روایات سے ہی اتنی ضخیم ہوئی ہے۔ لوک روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مخصوص سماج کی مشترکہ یاداشت ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے بھلے اس میں جزئیات کی آمیزش ہوتی رہے۔یہ مقدس پہاڑ ٹلہ گورکھ ناتھ سے ٹلہ بالناتھ بنا اور پھر عالم میں ٹلہ جوگیاں کا نام پایا، مغل بادشاہ اکبر کا وقائع نویس ابوالفضل اسے ٹلہ بالناتھ کے نام سے ہی ’’آئینِ اکبری‘‘ میں جگہ دیتا ہے اور اسی کے مطابق اکبر نے 1581ء میں اس جوگیوں کے اس مقدس پہاڑ کی یاترا کی۔ شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی کے وسط میں جرنیلی سڑک سے منسلک دینہ میں قلعہ روہتاس جو بنوا رکھا تھا تو اس کے بعد جب مغل شاہان یہاں سے گزرا کرتے تو یقیناً قیام تو کرتے ہوں گے اور کچھ ٹلہ کی زیارت بھی کرتے ہوں گے، بہر کیف تاریخ میں نورالدین جہانگیر بادشاہ کا ذکر تو مل ہی جاتا ہے کہ وہ ایک بار تو جوگیوں کے مقدس پہاڑ تک آیا۔آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق وہ: بھرتری ہری قدیم ہندوستان کا سنسکرت کا عظیم فلسفی، ماہر لسانیات ،شاعر اور نجومی تھا۔ راج پاٹ چھوڑ کر جوگی بن گیا۔ وہ جدت پسند نظریہ ساز ہونے کے ساتھ ساتھ پانینی کے بعد سنسکرت کا سب سے اہم ماہر لسانیات بھی تھا۔ڈاکٹر نیر عباس نیر نے بڑے کمال کی کہی ہے:افلاطون نے یہ بحث Cratylas میں اٹھائی ہے۔ بالعموم یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ زبان اور دنیا کے رشتے پر غور کرنے والا پہلا آدمی افلاطون ہے، جو درست نہیں ہے۔ افلاطون سے کہیں پہلے بھرتری ہری یہ بحث پیش کر چکا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بھرتری ہری اور افلاطون دونوں زبان اور دنیا کے رشتے کو حقیقی اور فطری قرار دیتے ہیں۔ آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق اس کی چار کتابیں دسیاب ہیں: شرنگار شتک: اس شتک میں سو شلوک ہیں اس میں بھرتری ہری نے عشق و محبت کی باتیں کی ہیں۔ نیتی شتک: کہا جاتا ہے کہ جب بھرتری ہری اجین کا راج کمار تھا تب اس نے نیتی شتک لکھا تھا جس کا مطلب سیاست ہے ، اس شتک میں اس دور کی سیاست کی عکاسی ہے۔ ویراگیہ شتک : جب بھرتری ہری نے سنیاس لے لیا اور اپنا راج پاٹ چھوڑ کر فقیری اختیار کیا تو اس نے ویراگیہ شتک لکھا اس کا مطلب ہے معرفتِ الہٰی اور فقیری۔واکیہ پدیہ صرف نحو کی ایک کتاب شامل ہے۔ سید یعقوب شمیم کے مطابق: 1670 میں اس کی اخلاقی نظموں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا تھا اس کے علاوہ Schiefmer اور Weber نے اس کی نظمیں لاطینی میں ترجمہ کے ساتھ شائع کیں۔ بھرتری ہری کی نظموں کا ترجمہ جرمنی زبان میں Bohler اور Schtz نے کیا ہے۔ Prof. Tawney کی تصنیف Indian Artiquiary میں ان نظموں کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا گیاآزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا کے مطابق:اقبال بھرتری ہری کے قول وعمل سے بہت متاثر ہیں اور تمام انسانوں کی فلاح کا راستہ بتاتے ہیں ۔ بھرتری ہری کے اس فکر وعمل سے اقبال نے بہت فائدہ اٹھایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ بھرتری ہری کے اس فکر کا اثر اقبال کے کلام میں ہمیں جابجا نظر آتا ہے ۔ اسی لیے علامہ اقبال نے بال ِجبریل کا آغاز اس شعر سے کیا ہے۔پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگرمر د ناداں پر کلام ِ نر م و نازک بے اثراقبال بھرتری ہری کی عظمت کے اس قدر قائل تھے کہ بھرتری ہری کو فلک الافلاک پر جگہ دی ہے جس کو ہم جنت الفردوس کے نام سے جانتے ہیںاس کی شاعری کے بارے سید یعقوب شمیم کا کہنا ہے: آج بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں بالخصوص شمالی ہند کے علاقہ اجین میں بھرتری ہری کے خیالات لوک گیتوں اور لوک نظموں کی صورت میں موجود ہیںعلامہ کی وسعتِ نظری اور کشادہ دلی نے انہیں سرزمین ہند کے عظیم فلسفی اور شاعر بھرتریہری کا بھی دلدادہ بنا دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی مشہور کتاب بال جبریل کے سر ورق پر بھرتری ہری کے شعرکا ترجمہ لکھا ہے۔ کسی شعری مجموعے کی ابتداء میں کسی دوسرے فلسفی کے شعر کے موجودگی کا منفرد اعزاز کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہوگا ۔سید یعقوب شمیم کے مطابق: اقبال نے اس کے کلام کا منظوم ترجمہ بھی پیش کیا ہے جنہیں بھگوت گیتا کی تعلیمات کا خلاصہ کہا جاسکتا ہے۔ایں خدایان تنک مایہ زسنگ اندو زخشتبرترے ہست کہ دور است ز دیر و کنشتاس کا انتقال ۶۵۱ء میں ہوا تھا مواد کی حصولی کے لیے ان ویب سائٹسز سے شکریے کے ساتھ مدد لی گئی ہے۔http://www.urdulinks.com/urj/?p=544http://humshehrionline.com/?p=9181#s...ری سے منسوب اس روایت کی مثال‘ اشارتی سہی ان کے کلام میں بھی ملتی ہیں۔ مثلامیں ہوں جس کا پریمیوہ ہے دوجے مرد کی دوانیاور دوجا مرد دوسرینار کے دَر کا سیلانیپر وہ دوجی نار پیار کیماری مرتی ہے مجھ پرسو سو لعنت کام دیو١ پرمجھ پر اور اس پر اور اس پرترجمہ تاج قایم خانی ١-کام دیو‘ محبت کا دیوتا۔۔۔۔۔کیا عورت حقیقت میں کسی شخص سے محبت کرتی ہےوہ ۔۔۔بیک وقت۔۔۔ ایک انسان سے باتیں کرتی ہےدوسرے کی طرف نگاہ غلط انداز سے دیکھتی ہےاور تیسرے کی یاد کو سینے سے لگائے رکھتی ہےمجموعہ شرنگارشتک ۔۔۔۔۔مجموعہ شرنگارشتک میں موجود کلام عیش کوشی سے تعلق کرتا ہے۔ عورت کے حسن و جمال اور لذت کوشی پر مبنی ہے۔تیاگی ہونے سے پہلے وہ عورت کے کس قدر دلداہ تھے اس کا اندازہ ان کی ان دو نظموں سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے: وہ زاہد جو عورت کی تحقیر کرتا ہے‘ نہ صرف خود فریبی میں مبتلا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ کیونکہ ریاضت اس لیے کی جاتی ہے کہ بہشت ملے۔ اور بہشت کے حصول سے غرض اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپسراؤں ۔۔۔حوروں۔۔۔۔ کا وصل نصیب ہو۔جے کشن چوھدری نے اس خیال سے ملتی خیام کی ایک رباعی بھی درج کی ہے۔گویند بہشت وجود عین خواہد بودو آنجا مے ناب و انگبین خواہد بودگرمائے و معشوق پرستیم رواستچوں عاقبت کار ہمیں خواہد بود مجموعہ شرنگارشتک ۔۔۔۔۔ایک حسین عورت کامدیو ۔۔۔۔عشق کا دیوتا۔۔۔ کا آلہءکار ہے۔ جس کے توسط سے دنیا کی سب عیش وعشرت میسر ہے جو احمق‘ عورتوں کا خیال چھوڑ بہشت کے تصور میں محو ہو جاتے ہیں۔ وہ کامدیو کے غم و غصہ کا شکار ہو کر سزا پاتے ہیں۔ جو ان کو مختلف صورتوں میں ملتی ہے۔ کبھی تو کامدیو ان کا لباس اترا لیتا ہے‘ کبھی سرمنڈاوا دیتا ہے۔ کسی کو جٹا دھاری بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور کسی کے ہاتھ میں کشکول دیکر در در کی بھیک منگواتا ہے۔ مجموعہ شرنگارشتک ۔۔۔۔۔ بھرتری ہری کے کلام میں خوب صورت غزلیاتی تشبیہات کا بھی استعمال ہوا ہے۔ جے کرشن چوھدری نے ان کا ترجمہ کرتے وقت اپنی حس جمالیات کا پوری ذمہ داری سے استعمال کیا ہے۔ مثلا ان کا یہ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: چاند سا خوب صورت مکھڑا کنول کو شرمانے والی مخمور آنکھیں‘ سونے کی چمک کو ماند کر دینے والا کندن سا جسم‘ بھنوروں سے بڑھ کر سیاہ گھنی زلفیں؛ طلائی کلس کی طرح چھاتیوں کا ۔۔۔ زہد شکن۔۔۔ ابھار‘ ہاتھی کی سونڈ کی طرح خوشنما اور گداز رانیں اور شیرنینی کلام۔ یہ سب جوان دوشیزاؤں کے فطری جوہر ہیں۔ جو انسان کے دل و دماغ کو تسخیر کر لیتے ہیں۔مجموعہ شرنگارشتک اس نظم کو پڑھ کر شاہ لوگوں کی ذہنیت اور کرتوت کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ اس سے قطعی الگ بات ہے کہ چوری خور مورکھ اسے نبی سے کچھ انچ ہی نیچے رکھتا ہے۔ وہ وہ گن ان میں گنواتا ہے جو ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے ہوتے یا ان سے کبھی اس کی بھولے سے بھی سلام دعا نہیں ہوئی ہوتی۔اسی کتاب میں دو نظمیں ایسی بھی درج ہیں جو آفاقی اور عملی زندگی کی عکاس ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: علم کے علم و فن کا چراغ محض اس وقت تک روشن ہے‘ جب تک کسی دل نواز حسینہ کے دامن حسن کا جھوکا اس تک نہ پہنچے۔۔۔۔۔۔۔انسان کو بزرگی‘ فہم و فراست‘ تمیز نیک و بد اور خاندانی وقار کا احساس تب تک رہتا ہے۔ جب تک اس کا جسم آتش عشق کے شعلوں سے محفوظ ہے! مجموعہ شرنگارشتک حسن زن اور عشق رن سے متعلق دو نظمیں ایسی بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جو زن گرفتنی کی انتہا کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ بھرتری ہری نے اس ضمن میں برہما دیو کو بھی بےدست و پا قرار دے دیا ہے۔ آپ بھی پڑھیں: بےانتہا محبت کی گرمجوشی میں عورت جس کام کو شروع کر دیتی ہے۔ اس کو روکنے میں برھما بھی بےدست و پا ہو جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔اس دنیا میں ایسے شہزور موجود ہیں جو بدمست ہاتھیوں کے جھنڈ کو خاظر میں نہیں لاتے اور غضب ناک شیروں سے الجھنا ایک کھیل سمجھتے ہیں۔ لیکن مجھے اس بات کے کہنے میں اصرار ہے کہ ایسے بہادر بہت کم ہیں جو کامدیو کی پیدا کی ہوئی مستی کی تاب لا سکیں۔اس مضمون سے متعلق ایک شعر مولانا روم کا بھی درج کیا گیا ہے جو جے کرشن چوھدری کے ذوق اور فارسی دانی کا غماز ہے۔سہل شیرے واں کہ صفہا بشکندشیر آن است آنکہ خود را بشکندمجموعہ شرنگارشتک ایک نظم جو رنگین طبعتوں کے لیے عنوان لیے ہوئے ہے۔ یہ نظم عورت شوقینی کی جیتی جاگتی ایمجری کا درجہ لیے ہوئے ہے۔سب سے قابل نظارہ چیز کون سی ہےایک آہو چشم حسینہ کا محبت سے مسکراتا ہوا چہرا۔! سونگھنے کے لئے سب سے عمدہ چیز کون سی ہےحسینہ کا تنفس۔! سب سے زیادہ سامع نواز چیز کون سی ہےحسینہ کی شیریں کلامی۔! چھونے کے قابل سب سے زیادہ احساس آفریں چیز کون سی ہےحسینہ کا نازک اندام! تصور کے لیے سب سے بڑھ کر مسرت خیز چیز کون سی ہےحسینہ کا پربہار شباب اور وصال! مجموعہ شرنگارشتک بھرتری ہری کمال کے سراپا نگار ہیں۔ اس ذیل میں ان کی یہ نظم ملاحظہ فرمائیں: نازک اندام حسینہ! تیرے حسن کا کیا کہنا! بال بال میں موتی گندھے ہیں‘ دونوں آنکھیں کانوں کے نزدیک پہنچ گئی ہیں‘ دانت موتیوں کی لڑیوں کی طرح آنکھوں کو خیرہ کئے دیتے ہیں‘ چھاتیوں پر پڑا ہوا موتیوں کا خوشنما ہار اپنی جگہ آب وتاب دیکھا رہا ہے غرضٰکہ تو ان تمام خوبیوں کی حامل ہے‘ جو شرقی١ میں پائی جاتی ہیں۔ تیرا بدن شانتی کا گہوارہ ہے۔‘ تیرا جسم تمام برتوں۔۔۔ریاضتوں۔۔۔ اور آشرموں٢ کا مسکن ہے۔ لیکن ان سب سے بالاتر‘ تو ایک قابل احترام شکتی۔۔۔طاقت۔۔۔ ہے۔ جس نے مجھے گرویدہ کر رکھا ہے۔١ الہامی کتاب ٢ ہندو عقیدہ کے مطابق زندگی کے چار دور ہیں‘ برہمچریہ‘گرہست‘ ‘ بان برستھ اور سنیاسنوٹ۔ یہ حواشی جے کرشن چوھدری نے درج کیے ہیں۔مجموعہ شرنگارشتک بھرتری ہری نے اپنے کلام میں مختلف نوعیت کی تلمیحات کا بھی برمحل اور برجستگی سے استعمال کیا ہے۔ جے کرشن چوھدری نے ترجمہ میں ان کی اس بےساختگی کو مجروع نہیں ہونے دیا۔ چند ایک مثالیں باطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں: وہ زاہد جو عورت کی تحقیر کرتا ہے‘ نہ صرف خود فریبی میں مبتلا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ کیونکہ ریاضت اس لیے کی جاتی ہے کہ بہشت ملے۔ اور بہشت کے حصول سے غرض اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپسراؤں ۔۔۔حوروں۔۔۔۔ کا وصل نصیب ہو۔ مجموعہ شرنگارشتک شرنگارشستک میں کل سو نظمیں ہیں جن میں سے جے کرشن چودھری نے انیس نظموں کا ترجمہ کیا ہے ۔ حقی سچی بات تو یہ ہی ہے کہ جتنا بھی کیا ہے اچھا اور خوب کیا ہے۔ اسے اردو ادب میں خوش گوار اضافے کا نام نہ دینا بہت بڑی بدذوقی ہو گی۔جب بھرتری ہری کی دوسری کتاب نیتی شتک پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ وہ ہی عورت کا شوقین راجہ بھرتری ہری ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کوئی استاد‘ بھگت‘ اوتار‘ فلاسفر یا درس کار ہو۔ یہاں اس کا ہر لفظ سچائی کا پرچارک نظر آتا۔ جے کرشن چوھدری نے ترجمہ صاف شستہ اور بلیغ کیا۔ اسے سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ مفہوم نظم پڑھنے کے ساتھ ہی سامنے آ جاتا ہے۔ باطور درس کار ملاحظہ فرمائیں: جس انسان کے پاس رحم ہے اسے ڈھال کی کیا ضرورتغصہ ہے تو دشمن کی کیا حاجتقبیلہ ہے تو آگ کا کیا کام ١دوست نزدیک ہے تو نایاب دواؤں کی کیا حاجت برے لوگوں کی صحبت ہے تو سانپ کی کیا ضرورتاگر علم بےعیب ہے تو دولت کی کیا حاجتاگر لاج۔۔۔ عصمت ۔۔۔ ہے تو دوسرے گہنوں سے کیا فائدہاور اگر سخنوری ہے تو اس کے سامنے حکومت کیا ہےاس کے بعد تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی درج کر دیا گیا ہے۔تحمل ہو طبعیت میں تو جوش کی ضرورت کیاغضب پنہاں ہو فطرت میں تو دشمن کی ضرورت کیاچغل خوری کے ہوتے آتش سوزاں کی کیا حاجتجو ہوں احباب مخلص درد میں درماں کی کیا حاجتضرورت کیا ہے افعی کی‘ اگر موجود ہے دشمنتمنا کیوں ہو دولت کی‘ جو دل میں ہو علم کا مخزنجہاں شرم و حیا ہیں احتیاج حسن زیور کیاکمال شاعری پر آرزوئے تاج قیصر کیا١- انسانی تقسیم‘ بات کو پھلانے والےمجموعہ نیتی شتک زندگی کی تلخ ترین حقیقت کا طنزیہ اور تلخ انداز میں اظہار ملاحظہ فرمائیں۔ بلاشبہ اس میں ان کا تجربہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عملی زندگی میں دیکھیں‘ یہ ہی کچھ نظر آئے گا۔ : غلام کے فرائض بھی کتنے کٹھن ہیں۔ یوگیوں کے لیے بھی ان کا نبھانا مشکل ہے۔! دولت ہی تمام صفات کا ملجا و ماوا ہے۔ جو زردار ہے وہی عالی نسب ہے۔ وہی ہنرور؛ مرجع خلائق؛ فصیح الزمان اور دیکھنے کے لائق انسان ہے۔ اور بےزر کا ہر ہنر اور جوہر ایک ناقابل معافی گناہ! مجموعہ نیتی شتک اس کا منظوم ترجمہ جو تلوک چند محروم نے کیا ہے وہ بھی درج کیا گیا ہے۔جو ہے صاحب زر وہی ہے نجیب وہی فاضل دہر ہے اور ادیبوہی لائق دید ہے خوش بیان غرض زر میں شامل ہیں تمام خوبیاںاسی مضمون کی خیام کی دو رباعیاں بھی درج کی گئی ہیں۔در کیسہ زرے ہر کہ مہیا دارد چوں نور بچشم ہمہ کس داردزرگر پسرے دوش چہ نیکو گفتہ اشراف کسے کہ اشرافی ہا دارد۔۔۔۔۔گویند کہ مرد را ہنر می باید بانسبت عالی پدر می بایدامروز چناں شدہ است در نوبت ما کیں باہمہ ہیچ است و زر می بایداس کتاب کی ہر نظم قول زریں کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ نہیں اس میں مشاہدہ اور زندگی کا تجربہ بولتا ہے۔ زندگی کا تجزیہ کریں‘ یہ ہی کچھ نظر آئے گا۔ اس نے جیتی جاگتی زندگی کو کاغذ پر منتقل کر دیا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ یہ کہ اکیس سو سال پرانا ہے لیکن آج بھی یہ ہی کچھ عملی زندگی میں نظر آتا ہے۔ یہ نظم دیکھیے: غلام اگر چپ رہے تو گونگا‘ بول چال میں چست ہو تو باتونی‘ نزدیک رہے تو ڈھیٹ دور رہے تو بیوقوف قوت برداشت رکھتا ہو تو ڈرپوک اگر نہ رکھتا ہو تو رزیل کہلاتا ہے۔مجموعہ نیتی شتک اسی مضمون کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں: ۔۔اندریاں۔۔۔۔ حواس۔۔۔۔ وہی‘ نام بھی وہی‘ وہی تیز فہمی اور وہی خوش کلامی۔ لیکن جائے حیرت ہے کہ صرف دولت کے ہاتھ سے چلے جانے کے بعد وہی انسان کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔مجموعہ نیتی شتک حق سچ اور کھری کھری کو کسی مذہب دھرم شخص یا کسی مخصوص فرقے تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ ناہی ان حوالوں سے اسے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ اسے جو بھی کہے یا کرے گا وہ حق اور سچ ہی کہلائے گا۔ وہ کہا یا کیا قابل تحسین و قابل عمل ہی ہو گا۔ اس سے انحراف سراسر ظلم کے مترادف ہو گا۔ بھرتری ہری کے اس کہے کو دو ہزار سال زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن یہ کہا آج بھی اٹل ہے۔ ابنیاءکرام اور صلاحین بھی تو یہ ہی کہتے آئے ہیں۔ منفی قوتیں ان سے انحراف کرتی رہی ہیں اور آج بھی کرتی ہیں۔ حق سچ سچ کڑوا رہا ہے یہ بھی کہ زبانی کلامی تو بہت سے اسے ماننے کو تیار ہوں گے لیکن عملی طور پر اسے کھوہ کھاتے میں ڈالتے آئے ہیں۔ اب زرا یہ نظم ملاحظہ فرمائیں اور بےشک دھرم مذہب کو بھی بیچ میں لے آئیں۔ کوئی مذہب یا دھرم اس کہے سے انحراف نہیں کرے گاِ۔ جے کرشن چودھری نے ترجمہ کرتے کلام کے فصاحت و بلاغت کو یکسر مجروع نہیں ہونے دیا۔ مفہوم کی ادائیگی میں کوئی کجی باقی نہیں رہنے دی۔سیاست دان مذمت کریں یا تحسین‘ دولت رہے یا چلی جائے موت چاہے آج آ جائے یا ایک یگ کے بعد‘ لیکن حوصلہ مند لوگ انصاف کے راستے سے ایک قدم بھی ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ترجمہ جے کرشن چوھدری مجموعہ نیتی شتک اقبال یا اس سے اور لوگوں کا بھرتری ہری سے متاثر ہونا تعجب خیز نہیں۔ بھرتی ہری نے کہا: کنول کی نازک ڈنڈی۔۔۔ شاخ۔۔۔سے ہاتھی کو باندھا جا سکتا ہے‘ ہیرے کو سرسوں کے پھول سے بنیدھا جا سکتا ہے اور شہد کی ایک بوند سے کھارے سمندر کو میٹھا کیا جا سکتا ہے‘ لیکن مرد ناداں کو میٹھی باتوں سے رام کر لینا سعیءلاحاصل ہے۔اقبال نے اس کو اپنے ایک شعر میں‘ جو عرف عام میں ہے کچھ یوں باندھا ہے: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگرمرد ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثراسی قسم کے خیال کو بھرتری ہری نے اپنی ایک اور نظم میں یوں نظم کیا ہے: مگر مچھ کے جبڑے سے موتی نکال لینا بہت ممکن‘ متلام سمندر کو تیر کر عبور کرنا آسان‘ غضناک سانپ کو سر پر پھول کی طرح رکھ لینا سہل‘ پر یہ ناممکن ہے کہ جاہل کے دل سے جاگزیں کسی خیال کو ہٹایا جا سکے۔اس کی تاریخ میں ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ایسا ہی ہو رہا ہے۔بےشک یہ رویہ اہل علم حق دوستوں کے لیے تکلیف دہ اور ناقابل برداشت رہا ہے۔ اس ذیل میں بھرتری ہری کا کہنا ہے: دشوار گزار پربتوں پر درندوں کی بہتر صحبت بہتر لیکن بیوقوف ۔۔۔ ناہل ۔۔۔ کی صبت راجہ اندر کے محل میں بھی ناقابل برداشت۔! جےکرشن چوہدری نے اسی مضمون کے قریب تر تین شعرا کے بھی اشعار درج کیے ہیں جو ان کے شعری ذوق و شعور کا عمدہ نمونہ ہیں: تو رہائی جوز ناجنساں بجدصحبت ناجنس گورا راست و لحدمولانا رومخواہی کہ بدانی بیقیں دوزخ رادوزخ بہ جہاں صحبت نااہل بودخیامغربت میں ہے اجنبی مسافر جس طرحدانا کا یہی حال ہے نادانوں میںحالیمجموعہ نیتی شتک ایک طنزیہ انداز کی نظم ملاحظہ فرمائیں۔ یہ نظَم ہمارے چلن اور رویے کی عکاس ہے کہ ہم دولت کے کتنے حریص ہوگئے ہیں۔ اس کے حصول اور مزید حصول کے لیے کس سطع پر جا سکتےہیں۔ اس کا شائق کتنا گر سکتا ہے اس کی عکاسی انتہائی تلخ اور دکھ آمیز انداز میں کی گئی ہے۔ کہتے ہیں: چاہے قوم قعرمذلت میں گرے‘ اعلی صفات مٹی میں مل جائیں۔ انسانیت پہاڑ سے گر کر چکنا چور ہو جائے‘ خاندانی وقار تباہ ہو جائے اور اپنے پرائے چولھے میں پڑیں‘ لیکن ہمیں صرف دولت سے غرض ہے۔ جس کے بغیر قومی وقار‘ خاندانی وجاہت‘ علم و ہنر عزیز و اقارب ایک تنکے کی طرح حقیر ہیں۔مجموعہ نیتی شتک بھرتری ہری کی نظم میں سقراط کے اس قول کی عکاسی ملاحظہ فرمائیں "میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا"اس سے اس کی علم کی بھوک سامنے آتی ہے۔ بہت کچھ جاننے کے باوجود جاننے کی خواہش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ علم جتنا بھی حاصل کر لیا جائے کم نہیں بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ رب زدنی علما‘ یہ ہی تو ہے۔ بھرتری ہری کہتا ہے: جب میرا علم کم تھا میں خیال کرتا تھا کہ میں سب کچھ جانتا ہوں اور بدمست ہاتھی کی طرح غرور سے اندھا ہو رہا تھا‘ لیکن جب خوش قسمتی سے جب عارفوں سے ملاقات ہوئی اور ان کی صحبت سے کچھ حاصل ہوا تو حقیقت کا احساس ہوا کہ میرا علم کتنا محدود تھا۔ تب سے میرا غرور بخار کی طرح جاتا رہا۔ اس مضمون کی انہوں نے خیام کی ایک رباعی بھی درج کی ہے۔نابود دلم ز عشق محروم نشدکم بود ز اسرار کہ مفہوم نشداکنوں کہ ہمی بنگرم از رد کے خرد معلوم شد کہ ہیچ معلوم نشدخیاممجموعہ نیتی شتک انسانی فکر کے لیے رستہ تعین کرنے کا انداز ملاحظہ فرمائیں۔ ایک سچا اور کھرا درویش بھگت صوفی اور معلم اسی طور کی باتیں کرتا ہے۔ اس قسم کا چلن اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔کسی ذی روح کو مارنے اور کسی غیر کی دولت چھیننے سے پرہیز‘ سچ بولنے اور حسب توفیق خیرات کرنے سے محبت‘ دوسروں کی عورتوں کے متعلق باتیں کرنے سے نفرت‘ لالچ کے طوفان پر قابو پانا۔ گرو کے سامنے عجز کا اظہار‘ خلق خدا سے محبت‘ شاشتروں پر عقیدت اور دوسرے عقیدے کو یکساں طور پر دیکھنا۔۔۔رواداری۔۔۔ یہ چند ایسے رستے ہیں جو ابدی راحت کی منزل کو جاتے ہیں۔ مجموعہ نیتی شتک صحبت صالح‘ صالح کند صحبت طالع‘ طالع کند کو کیا خوبی سے تمثیلی انداز دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: پہلے پہل جب پانی دودھ سے ملتا ہے تو دودھ اسے اپنی تمام خوبیاں ۔۔۔رنگ روپ۔۔۔ دے دیتا ہے ۔۔۔اور دونوں یک جان ہو جاتے ہیں۔۔۔ بعد ازاں جب پانی ملے دودھ کو آگ پر ابالا جاتا ہے تو دودھ کو مصیبت میں دیکھ کر پانی اپنے آپ کو جلا دیتا ہے لیکن اپنے رفیق پر آنچ نہیں‘ آنے دیتا‘ دودھ بھی اپنے ساتھی کو تکلیف میں دیکھ کر جوش و خروش کا اظہار کرتا ہے اور اچھل کر آگ بجھا دینا چاہتا ہے اسے تب چین ملتا ہے جب پانی کے چند چھنٹے نہیں پا لیتا گویا دوست کو ایک بار پھر پا کر مطمن ہو جاتا ہے۔اس نظم کو رفاقت کی بےنظیر تمثیل کا عنوان دیا گیا ہے۔مجموعہ نیتی شتک ویراگ شتک بھرتری ہری کی تیسری شاعری کی کتاب ہے۔ جے کرشن چودھری نے اس کی تنتالیس نظموں کا ترجمہ کیا ہے۔ اس حصہ میں ناصرف ان کا لہجہ بدلا ہے بل کہ بات کرنے کے لیے انداز بھی مختلف اختیار کیے ہیں۔ ان نظموں کے مطالعہ سے اس عہد کی حیات کے اطوار بھی سامنے آتے ہیں۔ کچھ بدلا نہیں آج بھی وہ ہی معاشرتی اور معاشی چلن ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر ویسے ہی چلن اور ویسے ہی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ پیمانے وہ ہی ہیں لیکن لوگ وہ نہیں ہیں‘ ان کا چال چلن ہوبہو وہ ہی ہے۔ آواگون پر یقین نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے اصل فلسفے کی تہ تک پہنچا جا سکتا ہے یا شاید اس خطے کی یہ تاریخی سماجی اور معاشی واراثت کی آواگونی صورت ہے۔ بھرتری ہری کی شاعری کو آئینہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسا آئینہ جس میں منہ دیکھنا دونمبری کو کسی بھی صورت میں خوش نہیں آ سکتا۔حصول دولت کے لیے انسان کس طرح مشقت اٹھاتا ہے اس کی بھرتری ہری نے کمال چابکدستی سے عکاسی کی ہے۔ ان کا یہ طنزیہ انداز اپنی اصل میں انسان کی ہوس پر بہت بڑی چوٹ ہے۔ بہت کچھ ہاتھ لگ جانے کے باوجود مزید کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں: دولت کی تلاش میں زمین کھود ڈالی‘ پہاڑوں کی دھاتیں پگھلا ڈالیں‘ طوفانی سمندروں کو عبور کیا‘ راجاؤں کو کئی جتنوں سے خوش کیا۔۔۔طاقت اور دولت حاصل کرنے کےلیے۔۔۔ منتروں کا جاپ کرتے ہوئے طویل راتیں شمشان میں گذار دیں۔ لیکن مجھے ایک پھوٹی کوڑی تک نہ ملی۔۔۔یعنی جتنی دولت میں چاہتا تھا اتنی نہ ملی۔۔۔ اور میری خواہشات تشنہءتکمیل رہیں اے لالچ! تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ اب تو مجھے اپنے حال پر چھوڑ دے۔جے کرشن چوھدری نے اس مضموں کی خیام رباعیاں بھی درج کی ہیں: ایچرخ چہ کردہ ام ترا راست گو پیوستہ فگندہءمرا درتگ و پونائم ندہی تانبری کوئے بہ کوئے آبہم نہ دہی تانبری آب زردخیاممائیم فتادہ روز و شب در تگ و تاز ہر کیرہ نہادہ روئے در نشیب و فرازنہ ہیچ رہ آورد بجز رجن دگر نہ ہیچ پس افگند بجز راہ درازخیامچند از پئے حرص و آزائے فرسودہتاچند دوی گرد جہاں بےہودہخیاممجموعہ ویراگ شتک اسی مضموں کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں: میں بےفایئدہ دشوارگزار راستوں اور گھاٹیوں میں پھرتا رہا۔ اپنی اونچی جات کے مان کو چھوڑ ‘ میں رذیل لوگوں کی خدمت کرتا پھرا پر کچھ حاصل نہ ہوا۔ غیروں کے گھروں میں عزت و آبرو کھو کر‘ بچے کچھے ٹکروں پر جو ایک کوے کی طرح مجھے پھینکے گئے‘ بسر اوقات کرتا رہا۔ اور اس سے ١ہمکنار نہ ہو سکا۔اےلالچ! تیرا برا ہو‘ تو نے مجھے برے کاموں پر آمادہ کیا‘ کیا مجھے اتنا ذلیل کرنے پر بھی تجھے تسلی نہیں ہوئی۔تلوک چند محروم نے اس نظم کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔پھرا ہوں ایسے ملکوں میں جہاں دشوار تھیں راہیںملا کچھ بھی ثمر مجھ کو نہ اس آوارہ گردی کاغرور خانداں کو چھوڑ کر اوروں کی خدمت کیریاضت کی‘ مگر اس سے نہ میں نے کوئی پھل پایابھکاری بن کے میں مانند زاغاں کانپتے ڈرتے گھروں میں دوسروں کے جا کے کھاتا بھی رہا کھانامگر! افسوس ہے اے نفس دوں‘ اے بدنہاد ابتکتری تسکیں‘ ترے آرام کا پہلو نہیں نکلامحروماسی مضمون کی ایک خیام کی رباعی بھی درج کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں : بسیارد دیدم بگرد درد دشت یک کار من از دور جہاں راست نگشتوز ناخوشیءزمانہ باری عمرمگر خوش بگذشت یکدمے خوش نگذشتخیام١۔ سیریمجموعہ ویراگ شتک ہوس‘ لالچ پر گہری چوٹ ہی نہیں کرتے بل کہ دنیا سے محبت کے حوالہ سے جھوٹی امیدوں پر بھی ضرب لگاتے ہیں۔ انسان دنیا کی جھوٹی اور نائیدار خوشیاں حاصل کرنے کے لیے کتنا گر جاتا ہے اس کی عکاسی ملاحظہ فرمائیں: میں نے رذیل لوگوں کے تمسخر کو بخندہ پیشانی سنا‘ ابلتے ہوئے آنسوؤں کو دل ہی میں پی گیا‘ اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ‘ ان کو خوش کرنے کے لیے‘ ایک روکھی پھیکی ہنسی ہنسا‘ میں نے اپنے جذبات کو کچل ڈالا اور دل پر پتھر رکھ کر ان احمقوں کے سامنے سر جھکاتا پھرا‘ لیکن یہ سب بےسود تھا۔ اے فریب کار امید ابھی تو کتنے ناچ اور نچائیگی۔مجموعہ ویراگ شتک زرپرستوں کے منہ پر بھرتری ہری کا طمانچہ ملاحظہ فرمائیں۔ حصولی زر کے لیے شخص کس حد گر سکتا ہے۔ اس نظم کے مطالعے کے بعد باخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ انسان اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور ناہی انہیں اپنے لیے کافی سمجھتا ہے۔ اس کا یہ حیرتیہ انداز ضمیروں کو جھنجھوڑتا ہے۔کھانے کے لئے انواع و اقسام کے پھل باافراط ہیں‘ پینے کے لئے شیریں چشمے رواں ہیں‘ رات کی راحت کے لئے زمین کا بستر اور اوڑھنے کے لئے درختوں کی نرم و گداز چھالیں موجود ہیں۔ حیرانی ہے کہ انسان اتنی نعمتوں کو پا کر بھی شراب سے مدہوش اور نئی دولت پائے ہوئے بدمست امیروں کے سامنے ہاتھ پسارتا ہے‘ گڑگڑاتا ہے اور ان کے تمسخر کا نشانہ بن کر اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے۔نظم کے آزاد ترجمے کے بعد جے کرشن چودھری نے تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی درج کیا ہے۔خدمت گرانسان ہے زمانہ ساراہر ذرہ زمین کا‘ چرخ کا ہر تاراراحت کی ہوس میں چھوڑ کر راحت کوپھرتا ہے کہاں کہاں‘ یہ مارا مارااس مضمون سے میل کھاتا دو اور شعرا کا کلام بھی درج کیا گیا ہے۔دو قرض ناں اگر از گندم است یارجؤدوتائے جامہ اگر کہنہ است یا خودنوچہار گوشہءدیوار خود بخاطر جمعکہ کس نہ گوید ازیں بخیروآں جاروہزار بار نکوتر بہ نزد ابن یمنزفر مملکت کیقابار کیخسروابن یمندرد ہر کہر کہ نیم نانے داردوز بہر نشست آشیانے داردنے خادم کس بود نہ مخدوم کسےگو شادی بزی کہ خوش جہانے داردعمر خیاممجموعہ ویراگ شتک انسان کو فنا کے آگاہ کرکے اچھائی کی طرف مڑنے پر مجبور کرنے کا انداز بھی خوب اختیار کیا ہے۔ انہوں نے فنا کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے زندگی کی ناپائداری کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ انسان مزید کے حصول کے لیے جو حیلے حربے اختیار کرتا ہے بےمعنی اور لایعنی ہیں۔ انسان پر جب نائیداری کا فلسفہ کھلتا ہے تو وہ کانپ کانپ جاتا ہے۔ ہاں ہوس لالچ حرص اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور وہ انسان کو اسی خوف ناک ڈگر پر گامزن رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں: جس گھر میں پہلے بہت سے آدمی رہتے تھے آج وہاں صرف ایک ہے اور جہاں صرف ایک تھا وہاں آج بہت سے ہو گئے۔ ایک وقت آئیگا جب وہاں ایک بھی نہ رہیگا۔ یہ دنیا شطرنج کا تختہ ہے جس پر ہم محض مہروں کی طرح ہیں اور جہاں رات اور دن کے پاسوں کو پھینکتے ہوئے موت کا دیوتا۔۔۔مہاکال۔۔۔اپنی بیوی کے ساتھ کھیل میں مصروف ہے۔۔۔ہم سب موت کے کھیل کا سامان ہیں جنہیں وہ جب اور جہاں چاہتی ہے اٹھا کر رکھ دیتی ہے۔۔۔اسی مضمون کی عمر خیام کی رباعی بھی درج کر دی ہے: ۔۔مالعبگا نیم و فلک لعبت بازاز روئے حقیقی و نہ از روئے مجازبازیچہ ہمی کینم نرنطع وجودبر دیم بصذوق عدم یک یک بازعمر خیاممجموعہ ویراگ شتک اسی ذیل میں ایک اور بڑی ہی خوب صورت مثال ملاحظہ فرمائیں: دنیا کے عیش و آرام۔۔۔ کے اسباب۔۔۔کبھی ختم نہیں ہوتے ہم ہی ختم ہو جاتے ہیں۔۔۔ہم نے انہیں کھایا نہیں بلکہ ہم ہی ان کا نوالہ بن گئے۔۔۔ تپ۔۔۔ریاضتٰں۔۔۔نہ ہوئے جسم ان تپوں کا شکار ہو گئے‘ وقت کا خاتمہ نہیں ہوا۔ ہمارا عرصہءحیات ہی ختم ہو گیا۔۔۔وقت نہیں گیا ہمیں ہی دنیا سے جانا پڑا۔۔۔ خواہشات بوڑھی۔۔۔کمزور۔۔۔نہیں ہوئیں ہم بوڑھے ہو گئے۔اس نظم کا منظوم ترجمہ جو تلوک چند محروم کا کیا ہوا ہے بھی درج کر دیا گیا ہے: مزے ہم نے لوٹے نہیں لذتوں کےہمیں بلکہ لذتوں نے لوٹ کھایاہمیں وہم تھا ہم نے تپ خوب تاپاحقیقت یہ تھی تپ نے ہم کو تپایاہمیں آہ! گزرے چلے جا رہے تھےبظاہر زمانے کو گززندہ پایاہوئے پیر ہم کاوربار ہوس میںہوس پہ بڑھاپا نہ زنہار آیاتلوک چند محروماس مضمون سے لگا رکھتی عمر خیام کی بھی ایک رباعی درج کر دی گئی ہے: افسوس کہ بےفایئدہ فرسودہ شیدیموزطاس سپہر سرنگوں سودہ شیدیمدرداندا متا کہ تاچشم زدیمنابودہ بکام خویش نابودہ شیدیمعمر خیاممجموعہ ویراگ شتک اسی نہج کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں: ہر صبح وشام ہماری زندگی کے گنتی کے دنوں کو گھٹاتے رہتے ہیں ہمیں دنیا کے کام دھندوں میں لگے رہنے سے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وقت کب اور کیوں کر گزر گیا۔ پیدائش بڑھاپا‘ مصیبت اور موت کو دیکھ کر بھی انسان کو اپنی حالت کا آحساس نہیں ہوتا۔۔۔معلوم یہ ہوتا ہے کہ۔۔۔دنیا گفلت کی شراب سے مخمور اپنی حقیقت سے بےخبر ہو چکی ہے۔اسی مضمون کے دو اور شعر بھی درج کیے گیے ہیں۔جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹی ہےزندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدعالم تمام حلقہءدام خیال ہےغالبمجموعہ ویراگ شتک اب ذرا تقابلی اور موازنانی انداز ملاحظہ فرمائیں: اے راجہ! تم دولت کے مالک ہو تو ہم جب تک الفاظ میں معنی ہیں زبان کے مالک ہیں‘ تم بہادر ہو تو ہم بھی کٹ حجتی سے لوگوں کے غرور کے بخار کو توڑ دینے کی طاقت رکھتے ہیں‘ اگر دولتمند تمہارے فرما بردار ہیں تو علم و ادب سے شغف رکھنے والے لوگ ہمارے سامنے بھی زانوئے ادب تہ کرتے ہیں۔۔۔اس طرح ہم دونوں ایک ہی حیثیت کے مالک ہیں۔۔۔پھر اگرہم سے تمہاری عقیدت نہیں تو ہم بھی تم سے راہ و رسم کے خواہاں نہیں۔اقبال نے بھرتری ہری کا مطالعہ کیا اور وہ اس کا قائل و مائل بھی ہے۔ اس نے اسی مضمون کو کچھ اس طرح سے کہا ہے: رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقیہمیشہ تازہ وشیریں ہے نغمہءخسرواقبالمجموعہ ویراگ شتک کہا اور کیا باقی رہ جاتا ہے۔ بھرتری ہری کو آج دنیا سے گئے دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کا کہا آج بھی باقی ہے۔ قارون شداد وغیرہم کی دولت اور جاہ و جلال مٹی میں مل چکے ہیں لیکن کہا آج بھی باقی ہے۔ مقتدر کو کوئی نہیں جانتا ملا عمر ابو حمادی کے نام سے لوگ واقف نہیں ہیں لیکن منصور کا کہا کیا آج بھی باقی ہے اور زوال سے پرے پرے ہے۔ بھرتری ہری کی یہ نظم لفظ کی اہمیت و قیمت کو واضح کر رہی ہے۔ لفظ مرتے نہیں زندہ رہتے ہیں۔ بہت سی زبانیں نابود ہو گئیں لیکن ان کے الفاظ دوسری زبانوں میں شامل ہو کر آج بھی معنویت کے حامل ہیں۔ سقراط بلاشبہ بہت بڑا آدمی تھا۔ اس نے کچھ نہیں لکھا لیکن اس کا کہا جو الفاظ پر مشتمل تھا‘ آج بھی زندہ ہے۔ ڈھائی ہزار سال گزر جانے کے باوجود کہا معنویت کا حامل ہے۔ شاعر سے متعلق عمومی رویے کا بڑی خوب صورتی سے اظہار کیا ہے۔ اس سے وسیب کے تین نمایاں طبقے بےلباس ہو کر سامنے آ جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے گا: شاعر کی قدر و منزلت کون کرتا ہےعالم حسد کی آگ میں جل اٹھتے ہیں‘ امیر دولت کے غرور میں مست ہو کر بےاعتنائی برتتے ہیں اور عوام جہالت کا شکار ہیں۔ اس لئے روح پرور شاعری کا چشمہ دل ہی میں سوکھ جاتا ہے۔اسی مضموں کے تین شعر جوش ملیح آبادی کے بھی درج کر دیے گئے ہیں۔شعر کو‘ بہروں میں ممکن ہی نہیں حسن قبولشاعر ہندوستان ہے اصل میں جنگل کا پھولجس کے گردوپیش رہتا ہے بہام کا ہجومروندتے ہیں جس کو چوپائے جھلستی ہے سمومجہل کا دریا ہے اور ناقدریوں کی لہر ہےشاعر ہندوستاں ہونا خدا کا قہر ہےجوش ملیح آبادیمجموعہ ویراگ شتک خصیہ سہلا شاعر ناصرف چوپڑی کھاتے آئے ہیں بل کہ انہیں درباری ہونے کے سبب عوامی اور عمومی و خصوصی قدرومنزلت بھی ملتی آئی ہے۔ اس کے برعکس ناصرف بےنام و نشان رہے ہیں‘ بھوک کی آگ کا بھی شکار رہے ہیں۔اب ذرا تمثیلی اور حیرتیہ طور ملاحظہ فرمائیں: پروانہ تیز جلتی آگ۔۔۔شمع۔۔۔ میں کود پڑتا ہے کیونکہ اسے سمجھ نہیں کہ یہ جلا دیتی ہے‘ نادان مچھلی اپنی لاعلمی کی وجہ سے ماہی گیر کے کانٹے میں گوشت کے ٹکڑے پر لپکتی ہے۔ اور اپنی موت نہیں دیکھتی۔ لیکن کیا جائے حیرت نہیں کہ ہم جو دنیا کے نشیب و فراز سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ دنیاوی خوہشات دکھوں کے جال ہیں ان میں پھنستے ہیں اور بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی شامل کر دیا گیا ہے: پروانہ ہے بےخرد پتنگا ہے شمع پر جل کے جان دیتامچھلی بھی تو عقل سے عاری ہے پھنس جاتی ہے جال میں بچاریلیکن ہم صاحب خرد ہیں آگاہ تمیز نیک و بد ہیں پھر بھی دام ہوس میں پھنس کر کر لیتے ہیں حال اپنا ابترمجموعہ ویراگ شتک جس خوبی سے انہوں نے انسانی فکر کی تربیت کا اہتمام کیا ہے‘ دل کو گھائل کرتا ہے۔ یا پھر سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کسی عمدہ تخلیق کا یہ ہی تو کمال ہے کہ وہ انسان کو غور کی دعوت دیتی ہے۔انسانی حیات کی ناپائیداری کو خوب صورت مثالوں سے واضح کرکے انسان کو راستی کی طرف لوٹنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس ذیل میں یہ نظم ملاحظہ فرمائیں: دنیا کے عیش وعشرت کے سامان اتنے ناپائیدار ہیں جتنی بجلی جو ایک لمحے کے لئے بادلوں میں کوندتی ہے۔ جوانی کا زمانہ کچھ لمحہ رہنے والی چند پانی کی بوندونکی طرح ہے جو بادلوں سے چمٹی رہتی ہیں اور جنہیں ہوا کے تھپیڑے ادھر سے ادھر بکھیر دیتے ہیں‘ جوانی کی امنگ پہاڑی نالے کی باڑھ کی طرح تند اور تیز ہے اسلئے دانا لوگ ہمت اور حوصلہ سے اپنے من پر قابو پاکر جوگ کرتے ہیں۔اسی مضمون کا ایک شعر اقبال کا بھی درج کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو: ہر شے مسافر ہر شے راہی کیا چاند تارے‘ کیا مرغ و ماہیمجموعہ ویراگ شتک اسی نہج کی ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں: آغاز میں ماں کے بطن میں انسان سکڑا ہوا تکلیف کی حالت میں لٹکا رہتا ہے‘ عالم شباب میں اپنی محبوبہ کی مفارقت میں رنج و غم سے ہمکنار ہوتا ہے‘ بڑھاپے میں جوان اور خوبصورت عورتوں کی بھبتیاں سہتا ہے۔ اے انسان! بتا تو سہی‘ کیا دنیا میں ایسی چیز بھی ہے جو تجھے خوشی دے سکے۔ اسی مضموں کا ایک شعر غالب کا بھی درج کر دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ہے وحشت کی خواہش ساقی‘ گردوں سے کیا کیجئےلئے بیٹھا ہے دوچار جام واژگوں وہ بھیمجموعہ ویراگ شتک زندگی منفی گزر سکتی ہے مثبت بھی۔ استعمالات درست ہو سکتے ہیں غلط بھی۔ گویا منفی اور مثبت پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ غلط شخص کچھ بھی کر لے اس کے استعمالات درست سمت اختیار نہیں کرتے۔ گویا ضدین کا فلسفہ چلتا رہتا ہے۔ اب شخص پر منحصر ہے کہ وہ کون سی راہ لیتا ہے۔ اس کی پہچان بھی اسی حوالہ سے ہی ترکیب پائے گی۔ بھرتری ہری نے بڑی خوبی سے اس معاملے کو پیش کیا ہے۔ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں: دنیا میں ہر چیز کا برا استعمال کیا جا سکتا ہے ایک عقلمند آدمی جب علم حاصل کر لیتا ہے تو اس کا غرور اور جہالت مٹ جاتی ہے لیکن وہی علم پا کر بدقماش شخص کا دماغ بگڑ جاتا ہے۔ خداپرست آدمی کیلئے تنہائی ۔۔۔گوشہ نشینی۔۔۔ راہ نجات ہے لیکن ایک زانی کے لیے باعث تسکین نفس۔ ! مجموعہ ویراگ شتک بڑھاپے کی کیا خوب صوتی سے تصویر کشی کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انسانی چلن کو بھی اجاگر کر دیا گیا ہے۔ بھرتری ہری کی اس ذیل میں دو نظمیں ملاحظہ فرمائیں: اب جبکہ بڑھاپے نے آ گھیرا ہے‘ نفسانی خوہشات سرد پڑ گئی ہیں‘ جسم کمزور ہو گیا ہے اور خوددار کا احساس جاگتا رہا ہے‘ دوست اور عزیز سدھار گئے ہیں اٹھا نہیں جاتا‘ لاٹھی کے سہارے دوچار قدم چلتے ہیں آنکھوں کی بینائی کم ہو گئی ہے اور کچھ سوجھتا نہیں۔ افسوس! پھر بھی یہ ڈھیٹھ جسم موت کے خیال پر کانپ اٹھتا ہے۔تلوک چند محروم کا منظوم ترجمہ بھی نظم کے نثری ترجمے کے بعد درج کر دیا گیا ہے۔ مطالعہ فرمائیں: خواہش لذات فانی مر چکیدور اپنا ختم عزت کر چکیہمدم و ہم سن جو اپنے دوست تھےراہئیے ملک بقا سب ہو گئےہو گیا دشوار اٹھنا بےعضااور آنکھوں میں اندھیرا آ گیاکیا کہوں اے جسم بےغیرت تجھےموت! بھی ہے باعث حیرت تجھےمحروماسی مضمون کی ایک رباعی خیام کی بھی پیش کی گئی ہے۔ مطالعہ فرمائیے: ایام شباب رفت دخیل دحشمشتلخت مرا عیش دلے نے چشمشایں قامت ہمچو تیر من گشتہءکماںرہ کردہ ام از عصا و خوش مے کشمشعمر خیامبڑھاپا ایک خوفناک بھیڑیے کی طرح دروازے کے اندر جھانک رہا ہے‘ بیماریوں نے دشمنوں کی طرح صحت کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا ہے‘ زندگی پانی کی طرح ایک ٹوٹے ہوئے برتن سے آہستہ آہستہ بہہ رہی ہے کیا یہ حیرانی نہیں کہ انسان‘ ان حالات کی روشنی میں بھی برائی ہی کرتا چلا جائے۔گویا آدمی کسی بھی حالت میں ہو نفسانی خواہشات سے چھٹکارے کی کوشش نہیں کرتا۔ برائی زندگی سے جھونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے بل کہ انسان ہی اس سے خلاصی پانے کی طرف نہیں آتا۔اسی مضمون کا ایک شعر سعدی جب کہ دو اشعار فخرالدین عراقی کے بھی درج کر دیے گیے ہیں: ۔۔اے کہ پنجاہ رفت دور خوابی شاید ایں پنج روز دریابی سعدیافسوس کہ ایام جوانی بگذشتسرمایہءعیش جاودانی بگذشتتشنہ بکنار جوئے چنداں خفتمگر جوئے من آب زندگانی بگذشت فخرالدین عراقیمجموعہ ویراگ شتک



      Last edited by Ubaid; 01-10-2018 at 04:39 PM.

    7. The Following User Says Thank You to Ubaid For This Useful Post:

      Dr Maqsood Hasni (01-10-2018)

    8. #5
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائز¬

      Info
      Nyc Sharing

      t4s


      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    9. The Following User Says Thank You to Moona For This Useful Post:

      Dr Maqsood Hasni (01-11-2018)

    10. #6
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائز¬

      ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی تخلیق کا منتقل کرنا بلاشبہ بڑا مشکل گزار کام ہے۔ اس کے لیے دونوں زبانوں میں مہارت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ باطور خاص شاعری کا ترجمہ اور بھی مشکل ہوتا ہے۔

      ماشاءاللہ
      اہم معلوماتی تحریر
      شیئر کرنے کا شکریہ




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    11. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Dr Maqsood Hasni (01-11-2018)

    12. #7
      UT Poet www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Dr Maqsood Hasni's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      2,263
      Threads
      786
      Thanks
      95
      Thanked 283 Times in 228 Posts
      Mentioned
      73 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      82

      Re: بھرتری ہری اور اس کی شاعری کا تعارفی جائز¬

      tovajo ke liay mamnoon hoon


    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    http:urdutehzeb.comshowthread.php31362-بھرتری-ہری-اور-اس-کی-شاعری-کا-تعارفی-جائزہ

    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •