Moona (03-01-2016)
ٹینشن + ٹینشن x ٹینشن
سعد اللہ جان برق
قصہ تقریباً وہی ہے کہ
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تکبات اس سے شروع ہوئی کہ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی نے شاعری شروع کر دی اور ہم سے ایک عدد تخلص کا طالب ہوا، ہم نے پہلے تو عرض کیا کہ ’’قہر خداوندی‘‘ سے اچھا کوئی تخلص ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نہ صرف تمہارے حسب حال حسب کمال اور حسب کمال و جمال سب کچھ ہے لیکن عقدہ یہ کھلا کہ اسی نامراد قہر خداوندی سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہی تو وہ اچھا سا تخلص ڈھونڈ رہا ہے۔پھر مثال دیتے ہوئے کہا کہ اکثر لوگ حج اس لیے کرتے ہیں تاکہ اپنے خاندانی پیشہ ورانہ نام سے پیچھا چھڑا سکیں، پھر ایک شخص کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دیکھو ہر کوئی اسے فلاں ڈوم، فلاں ڈوم کہتا تھا لیکن اس نے کمال ہوشیاری سے مذہبی لبادہ اوڑ لیا چنانچہ آج کل لوگ اسے اپنے پرانے خاندانی نام کے بجائے فلاں پیرصاحب کہتے ہیں، جب ہم سمجھ گئے کہ اس کم بخت کمبل سے اب پیچھا چھڑانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی خاندانی پیشہ ورانہ نام سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوتا ہے تو ہم نے اپنا تخلص ’’ٹینشن‘‘ رکھنے کا مشورہ دیا اور اس نے اسے فوراً قبول بھی کر لیا بلکہ تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بین الاقوامی بلکہ بین العالمی اور بین السیارتی تخلص ہو گا کیونکہ دنیا میں آج تک کوئی ’’انسان‘‘ پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔جس پر یہ تخلص چسپاں نہ ہوتا ہو بلکہ کچھ لوگوں پر تو یہ تخلص اتنا پھبتا ہے جیسے ماں کی کوکھ سے یہی تخلص لے کر پیدا ہوا ہو، اب ہمیں کیا معلوم تھا کہ جو تخلص ہم نے طنزاً تجویزا تھا وہ اسے اتنا پسند آئے گا اور فوراً اسے رجسٹرڈ بھی کروا لیا یعنی علامہ بریانی عرف برڈفلو سے جا کر فوراً بول ڈالا کہ آیندہ مجھے اسی تخلص سے پکارا اور لکھا جائے اور تمام کاغذات میں بھی درستگی کی جائے۔حالانکہ یہ تخلص تجویزتے ہوئے ہم سنجیدہ بالکل بھی نہیں تھے بلکہ ایک طرح سے غصے میں تھے یا زیادہ صحیح الفاظ کے مطابق ’’ٹینشن‘‘ میں تھے کیوں کہ ابھی ابھی ایک ’’سیاسی ٹینشن‘‘ سے نمٹ کر بیٹھے تو جو تازہ ترین بلدیاتی انتخابات میں ہارا ہوا تھا، بلکہ اس کے جانے کے بعد ہم اس بات پر سوچ بچار شروع کرنے والے تھے کہ کیا آج کل کوئی ایسا بندہ بشر اس ملک میں موجود ہے جو اس تخلص کا صحیح اور اصل حق دار نہ ہو، ہم نے تو جدھر بھی نگاہ کی، ٹینشن ہی ٹینشن پاتے تھے، چھوٹے ٹینشن، بڑے ٹینشن، زنانہ ٹینشن، مردانہ ٹینشن، سیاسی ٹینشن، اقتصادی ٹینشن، تعلیمی ٹینشن اور نہ جانے کیا کیا۔آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے
بجھتے بجھتے ایک زمانہ لگتا ہےاور ٹینشن کے بارے میں سب سے زیادہ باوثوق اور مستند رائے حضرت باوا آدم کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے کیوں کہ ان کو ’’اماں حوا‘‘ نے ’’پل دو پل‘‘ میں ٹینشن دی تھی ، وہ اتنی صدیاں گزرنے پر بھی جوں کی توں ہے۔ ایک باٹنی کے علامہ نے تو یہ تک کہا ہے کہ ٹینشن کی پیداوار آدم زادوں اور حوا زادوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔اس نے مالتھس کے نظریہ آبادی کو فالو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹینشن کی فصلیں کھمبیوں کی طرح ہوتی ہیں کہ جہاں سے ایک کھمبی اکھاڑ دو تو وہاں پر کل چار کھمبیاں اگ آئی ہوئی ہوتی ہیں ۔ٹینشن پہ ٹینشن، ٹینشن پہ ٹینشن، دن دونی رات چوگنی رفتار سے ٹینشن ہیں کہ پیدا ہوئی جارہی ہیں اور اب تو مزید تجربات کے بعد جو نیا سلسلہ چلا ہے اس میں تو باقاعدہ نرسریاں قائم کی جارہی ہیں جنھیں بلدیاتی ٹینشن کہا جاتا ہے۔ ہماری ایک ’’ٹینشن‘‘ ایسی بھی ہے جو آتی تو ہے۔ہماری ٹینشن دور کرنے کے لیے لیکن جب جاتا ہے تو دو چار اور ٹینشن بھی ہماری پہلے والی ٹینشن کے ساتھ جمع کر چکی ہوتی ہے، یوں کہیے کہ ہماری یہ ٹینشن جو اپنے آپ کو ہماری دوست کہتی ہے اور ہمیشہ دشمنی کر کے جاتی ہے، ہو بہو ہمارے سیاسی لیڈروں، ممتاز رہنماؤں اور خادموں پر گئی ہے۔ یہ ٹینشن اس کٹیگری سے تعلق رکھتی ہیں جس میں درد کا علاج مزید درد سے کیا جاتا ہے، یہ خاص قسم کا علاج یا تھراپی ہمارے غالب سے منسوب ہے کیوں کہ ان کا نظریہ تھا کہ … درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا … یارنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیںاور یہ بالکل ہی سچ ہے ہم نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہوا ہے ایسے کئی لوگ ہم نے دیکھے ہیں جو درد سے چلاتے چیختے تھے لیکن کسی اچھے معالج کے دست شفا سے بالکل پرسکون ہو گئے نہ درد رہا نہ چیخنا چلانا، صرف چھوٹا سا کفن دفن کا کام رہ گیا تھا سو وہ تو ویسے بھی دوسرے لوگ کر دیتے ہیں، چنانچہ پیشہ ور ماہر اور تجربہ کار ٹینشن یا ٹینشن کے تقسیم کار کوشش کرتے ہیں کہ ٹینشن کو حد سے بڑھا کر کسی کو ’’ٹینشن مکت‘‘ کیسے کیا جاتا ہے۔پرانی اردو میں ان ٹینشنوں کو دوست کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا چنانچہ سجاد حیدر یلدرم نے اپنی ٹینشنوں کو مارکر پکارا تھا کہ مجھے ٹینشنوں سے بچاؤ ۔ ویسے جراثیم، وائرس اور دوستوں کی طرح ’’ٹینشنوں‘‘ کا کچھ پتہ نہیں کہ زندگی کی کس گلی میں چمٹ جائیں لیکن سب سے زیادہ خطرناک ٹینشنوں کی قسم وہ ہے جن سے آپ کہیں بھی بچ نہیں سکتے بلکہ گھوم پھر کر ان ہی کے پاس آنا پڑتا ہے۔وہ گھریلو ٹینشن ہوتی ہیں اور یہ ایک عجیب سا معاملہ ہے کہ آدمی خود ہی ان ٹینشنوں کو باقاعدہ ڈولی میں بٹھا کر لاتا ہے اور پھر عمر بھر انھیں اپنے متھے مارتا رہتا ہے۔ یوں کہیے کہ اپنے اچھے بھلے پاؤں لے کر اور ان ہی پاؤں پر چل کر جتنی ہو سکے تیز دھار کلہاڑی ڈھونڈتا ہے اور پھر جوتے اتار کر اس پر کودنا شروع کر دیتا ہے، اس سلسلے میں ہمارے ساتھ ایک بڑی پیچیدہ پرابلم ہو گئی۔ بچوں نے ہماری حالت زار دیکھ کر اپنی والدہ کو ’’ٹینشن‘‘ کا اعزازی خطاب دیا جس کا ہمیں بالکل بھی علم نہیں تھا لیکن جب ’’ٹینشن‘‘ کو پتہ چلا تو مت پوچھیے کہچاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے
ڈھکے چھپے الفاظ میں بھی نہیں بلکہ سیدھے سیدھے دوٹوک الفاظ میں اس کا سارا الزام ہم پر دھرا اور اس بہانے نئی نئی ٹینشن کری ایٹ کرنے لگیں۔
Similar Threads:
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Moona (03-01-2016)
Nice Sharing
Thanks for sharing
intelligent086 (03-01-2016),Moona (03-01-2016)
@intelligent086 Thanks 4 informative sharing
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
intelligent086 (03-01-2016)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks