SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: آیت اظہارِ دین اور خلافت معاویہ رضی اللہ ع

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      آیت اظہارِ دین اور خلافت معاویہ رضی اللہ ع

      ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا۔

      وہ (اللہ) ہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو (کتاب) ہدایت اور دین حق دے کر تا کہ غالب کر دے اسے تمام دینوں پر اور (رسول کی صداقت پر) اللہ کی گواہی کافی ہے۔(سورۃ الفتح، ۸۲)

      قرآن مجید میں سورۃ التوبہ کی آیت ۳۳، اور سورۃ الصّف کی آیت ۹، میں بھی اظہارِ دین کا اعلان معمولی لفظی تغیّر کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مذکورہ دونوں مقامات پروَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا کے بجائے وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ کے الفاظ آئے ہیں۔

      نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو رفتہ رفتہ تقریباً تمام عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف ہو گیا۔ ایک طرف مشرک قبائل تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن ہو گئے۔ دوسری طرف سرمایہ دار یہود و نصاریٰ تھے جو ہر قیمت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام کر دینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور تیسری طرف منافقین تھے جو بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے مگر ان کا مقصد بھی یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں گھس کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کو اندر سے ڈائنا میٹ کر دیں۔

      اس طرح طاقت، سرمایہ اور اندرونی سازشیں، سہ طرفہ مخالفتوں کے طوفان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح اپنی تحریک چلا رہے تھے کہ تھوڑے سے غلاموں اور کمزور لوگوں کے سوا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی نہ تھا۔ مکہ کے سربر آوردہ لوگوں میں سے گنتی کے چند آدمی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے نکلے ان کا بھی یہ حال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آتے ہی وہ خاندان سے کٹ گئے اور ان کی قوم ان کی بھی اسی طرح دشمن ہو گئی جس طرح وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمن تھی۔

      یہ تحریک یوں ہی چلتی رہی یہاں تک کہ حالات اس قدر شدید ہو گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر جانا پڑا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی جو پہلے ہی نہتے اور کمزور تھے۔ مدینہ منوّرہ میں اس حالت میں جمع ہوئے کہ اپنے وطن میں جو کچھ ان کے پاس تھا وہ بھی چھن چکا تھا۔ مدینہ منوّرہ میں ان لوگوں کی بے کسی کا یہ حال تھا کہ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جنکے رہنے کے لیے باقاعدہ کوئی مکان نہیں تھا وہ چھپر پڑے ہوئے ایک چبوترے پر زندگی گزارتے تھے۔ اسی مناسبت سے ان کا نام اصحاب صفّہ پڑ گیا تھا۔

      چند انسانوں کا یہ بے سر و سامان قافلہ مدینے کی سر زمین پر اس طرح پڑا ہوا تھا کہ ہر آن یہ خطرہ تھا کہ چاروں طرف اس کے پھیلے ہوئے دشمن اس کو اچک لے جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ ان ساری مخالفتوں کے علی الرغم اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کر کے رہے گا۔

      کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔

      اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بے شک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ یقیناًاللہ تعالیٰ زور آور غالب ہے۔ (المجادلہ، ۱۲)

      سورۃ التوبہ آیت ۳۳، اور سورۃ الصّف آیت ۹، کے سیاق و سباق پر نظر ڈالنے سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِءِوْا۔۔۔یُرِیْدُوْنَ لِیُطُفِءِوْا۔۔۔میں اہل کتاب کو چیلنج ہے اور ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ۔۔۔میں مشرکین عرب کو۔۔۔ کیونکہ سر زمینِ حجاز میں ان ہی گروہوں سے اسلام کا مقابلہ تھا بعد میں یہ میدانِ مقابلہ بہت وسیع ہو گیا۔

      پھر سورۃ التوبہ اور سورۃ الصف میں غلبے کی جس بشارت کو وَ لَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَاور وَ لَوْ کَرِہَ الْمْشْرِکْوْنَکے الفاظ سے مؤکد کیا گیا ہے تو سورۃ الفتح میں وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا کے الفاظ سے تسلی دی گئی ہے کہ اس بشارت کو یہود و نصاریٰ، مشرکین اور دیگر کافر خواہ کتنا ہی بعید از قیاس سمجھیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور اس کی صداقت کے لیے اللہ کی گواہی کافی ہے۔

      یہ بات بھی ملحوظِ نظر رہے کہ سورۃ الفتح صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ بظاہر اس مغلوبانہ صلح سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو بڑا رنج پہنچا لیکن یہ سورۃ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجروح دلوں کے لیے مرہم ثابت ہوئی جب کہ سورۃ التوبہ پوری کی پوری فتح مکہ اور غزوہ حنین کے بعد مختلف اوقات میں نازل ہوئی، سورۃ التوبہ، سورۃ الفتح اور سورۃ الصف کی آیات اظہارِ دین میں جس غلبے کی بشارت دی گئی ہے اس سے دلائل و براہین کا غلبہ مراد ہے یا سیف و سنان اور قوت و اقتدار کا غلبہ؟

      مذکورہ بشارت میں دونوں قسم کا غلبہ مراد ہے۔ دلائل و براہین کا غلبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ تو ہر پیغمبر کو حاصل رہا ہے اور یہ غلبہ مادی قوت کے سامنے بظاہر کامیابی نہیں کہلاتا۔ جیسے فرعون استدلال کے میدان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دلائل و معجزات کے سامنے ہار گیا لیکن مادی قوت کے بل بوتے پر وہ غالب رہا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو ملک چھوڑنا پڑا۔

      اسی طرح دلائل کے میدان میں قریش مکہ نے پے در پے شکستیں کھائیں مگر قوت و اقتدار کے غلبے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہجرت اختیار کرنا پڑی۔ پھر مذکورہ بشارت کے مطابق چند سالوں میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت تک سارا عرب اسلام کا گہوارہ بن چکا تھا اور اس کے ساتھ حبش، مصر، ایران، شام، روم اور دوسرے ممالک تک اسلام کی دعوت کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔ غزوہ احزاب میں خندق کی کھدائی کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کشفی صورت میں قیصر و کسریٰ کے خزانوں کا مسلمانوں کے قبضہ میں آنا مشاہدہ فرمایا۔

      علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں کہ:

      امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم لوگ شام کی طرف ہجرت کرو گے تو وہ تمہارے لیے فتح کر دیا جائے گا۔

      معلوم ہوتا ہے کہ شام فتح ہونے کے ساتھ ہی عربوں کا مسکن بن گیااور آج بھی ان کی آبادی وہاں سب سے زیادہ ہے۔

      پھر ارشاد ہوا کہ عراق مفتوح ہو گا اور لوگ وہاں بھی اپنی سواریوں کو ہنکاتے ہوئے اہل و عیال کو لے کر آئیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر تھا اگر وہ سمجھتے۔۔۔

      حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم عنقریب مصر فتح کرو گے جہاں کا قیراط مشہور ہے جب اس کو فتح کرو تو وہاں کے باشندوں کے ساتھ نیکی سے پیش آنا کیونکہ تمہارے اور ان کے درمیان تعلق اور رشتہ ہے۔( حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی اور حضرت اسماعیل کی ماں ہاجرہ مصر کی تھیں)

      بحر روم جس کو بحر اخضر اور بحر متوسط بھی کہتے ہیں۔ یورپ اور ایشیا اور اب گویا اسلام اور عیسائیت کی حد فاصل ہے اور اس زمانہ میں یہ رومیوں کی بحری قوت کی جولانگاہ تھا۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خواب راحت سے مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور فرمایا اس وقت خواب میں میری امت کے کچھ لوگ تخت شاہی پر بادشاہوں کی طرح بیٹھے ہوئے دکھائے گئے۔ یہ بحر اخضر میں (جہاد کے لیے) اپنے جہاز ڈالیں گے۔ یہ بشارت سب سے پہلے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں پوری ہوئی اور دیکھا گیا ہے کہ دمشق کا شہزادہ یزید اپنی سپہ سالاری میں مسلمانوں کا پہلا لشکر لے کر بحر اخضر میں جہازوں کے بیڑے ڈالتا ہے اور دریا کو عبور کر کے قسطنطنیہ کی چہار دیواری پر تلوار مارتا ہے۔ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، جلد سوم۔ ص۹۹۵، ۱۰۶)

      شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی زیر عنوان عقبہ بن نافع اور ان کی فتوحات لکھتے ہیں کہ: اس علاقے (شمالی افریقہ) کی فتح کا اصل سہرا حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کے سر ہے۔ مصر کی فتوحات میں یہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔ بعد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ حکومت میں انہیں شمالی افریقہ کے باقی ماندہ حصے کی فتح کی مہم سونپ دی۔ یہ اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ مصر سے نکل کر دادِ شجاعت دیتے ہوئے تونس تک پہنچ گئے اور یہاں قیروان کا مشہور شہر بسایا۔ جس کا واقعہ یہ ہے کہ جس جگہ آج قیروان آباد ہے وہاں بہت گھنا جنگل تھا جو درندوں سے بھرا ہوا تھا۔

      حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ نے بربریوں کے شہروں میں رہنے کی بجائے مسلمانوں کے لیے الگ شہر بسانے کے لیے یہ جگہ منتخب کی تا کہ مسلمان یہاں مکمل اعتماد کے ساتھ اپنی قوت بڑھا سکیں۔ ان کے ساتھیوں نے کہا یہ جنگلتو درندوں اور حشرات الارض سے بھرا ہوا ہے لیکن حضرت عقبہ کے نزدیک شہر بسانے کے لیے اس سے بہتر کوئی جگہ نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا اور لشکر میں جتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے ان کو جمع کیا۔ یہ کل اٹھارہ صحابہ کرام تھے۔ ان کے ساتھ مل کر حضرت عقبہ نے دعا کی اور اس کے بعد یہ آواز لگائی: اَیَّتُہَا السِّباعُ وَالْحَشَرَاتُ نَحْنُ اَصْحَابُ رَسُوُلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وسلم اِرْحَلُوْا عَنَّا فَاِنَّا نَازِلُوْنَ فَمَن وَّ جَدْنَاہٗ بَعْدَ قَتَلْنَاہٗاے درندو اور کیڑو! ہم رسول اللہ کے اصحاب ہیں۔ ہم یہاں بسنا چاہتے ہیں لہذا تم یہاں سے کوچ کر جاؤ۔ اس کے بعد تم میں سے جو کوئی یہاں نظر آئے گا ہم اسے قتل کر دیں گے۔

      اس اعلان کا نتیجہ کیا ہوا؟ امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ: فَلَمْ یَبْقِ مِنْہَا شَئیٌ اِلَّا خَرَجَ ہَارِباً حَتیٰ اَنَّ السِبَاعَ تحم اَوْلادھاان جانوروں میں سے کوئی نہیں بچا جو بھاگ نہ گیا ہو۔ یہاں تک کہ درندے اپنے بچوں کو اٹھائے لے جا رہے تھے۔

      اس کے بعد عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جنگل کاٹ کر یہاں شہر قیروان آباد کیا، وہاں جامع مسجد بنائی اور اسے شمالی افریقہ میں اپنا مستقر قرار دیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کے دور میں عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ افریقہ کی امارت سے معزول ہو کر شام میں آباد ہو گئے تھے۔ آخر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دوبارہ وہاں بھیجنا چاہا لیکن آپ کی وفات ہو گئی۔ بعد میں یزید نے اپنے عہد حکومت میں انہیں دوبارہ افریقہ کا گورنر بنایا اس موقع پر انہوں نے قیروان سے مغرب کی طرف اپنی پیش قدمی پھر سے شروع کی اور روانگی سے پہلے اپنے بیٹوں سے کہا: میں اپنی جان اللہ تعالیٰ کو فروخت کر چکا ہوں لہذا اب (مرتے دم تک) اللہ کا انکار کرنے والوں سے جہاد کرتا رہوں گا۔

      اس کے بعد انہیں وصیتیں فرمائیں اور روانہ ہو گئے۔ اسی زمانے میں انہوں نے الجزائر کے متعدد علاقے تلمسان وغیرہ فتح کیے۔ یہاں تک کہ مراکش میں داخل ہو کر اس کے بہت سے علاقوں میں اسلام کا پرچم لہرایا اور بالآخر اسفیٰ کے مقام پر جو افریقہ کا انتہائی مغربی ساحل ہے بحر ظلمات (اٹلانٹک) نظر آنے لگا۔ اس عظیم سمندر پر پہنچ کر حضرت عقبہ نے وہ تاریخی جملہ کہا کہ: یا رب لو لا ہٰذا البحر لمفیت فی البلاد مجاہداً فی سبیلک پروردگار! اگر یہ سمندر حائل نہ ہوتا تو میں آپ کے راستے میں جہاد کرتا ہوا اپنا سفر جاری رکھتا۔

      اس کے بعد آپ نے اپنے گھوڑے کے اگلے پاؤں اٹلانٹک کی موجوں میں ڈالے، اپنے ساتھیوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ ہاتھ اٹھاؤ۔ ساتھیوں نے ہاتھ اٹھا دیے تو عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ نے یہ اثر انگیز دعا فرمائی: یا اللہ! میں غرور و تکبر کے جذبے سے نہیں نکلا اور تو جانتا ہے کہ ہم اسی سبب کی تلاش میں ہیں جس کی آپ کے بندے ذوالقرنین نے جستجو کی تھی اور وہ یہ ہے کہ بس دنیا میں تیری عبادت ہو اور تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیاجائے۔ اے اللہ! ہم دین اسلام کادفاع کرنے والے ہیں تو ہمارا ہو جا اور ہمارے خلاف نہ ہو۔ یا ذوالجلال والاکرام (جہانِ دیدہ، ص۶۰۱۔۰۱۱)


      اس دعا کو آیات اظہارِ دین کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد بعثت اور تمام باطل ادیان پر دین حق کے غلبے کی پیش گوئی کو آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثار اعوان و انصار بالخصوص خلفائے راشدین (بشمول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ) نے اپنے اپنے ادوار میں پورا کر دکھایا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور امارت و خلافت کو نکال کر قوت و اقتدار اور سیف و سنان کے غلبے کی پیش گوئی کیوں کر ثابت کی جا سکتی ہے؟

      اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں دونوں قسم کا غلبہ حاصل رہا اور تمام (سبائی، یہودی اور عیسائی) سازشی عناصر زیرِ زمین گھس جانے پر مجبور ہو گئے۔

      نیز یہ غلبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک ہی موقوف نہیں رہا بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کم از کم بارہ خلفاء تک ضرور قائم رہا۔ لَا یَزَالُ الْاِسْلَامُ عَزِیْزاً اِلیٰ اِثْنَیْ عَشَرَ خَلِیْفَۃً۔۔۔لَا یَزَالُ ہٰذا الدِّیْنُ عَزِیْزاً مُنِیْعًا اِلیٰ اِثْنَیْ عَشَرَ خَلِیْفَۃً(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش والخلافۃ فی قریشہ جلد۲، ص۹۱۱)

      جب کہ صحیح بخاری میں یہ الفاظ آئے ہیں: یَکُوْنُ اثْنَا عَشَرَ اَمِیْراً۔۔۔کُلُّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ

      (صحیح بخاری کتاب الاحکام، باب بلاعنوان بعد از باب الاستخلاف، رقم الحدیث ۲۲۲۷)

      سنن ابی داؤد کی روایت میں بتایا گیا ہے کہ: لَا یَزَالُ ہٰذا الدِّیْنُ قَاءِمٌ حَتّیٰ یَکُوْنَ عَلَیْکُمْ اِثْنَا عَشَرَ خَلِیْفَۃً کُلُّہُمْ تَجْتَمِعُ عَلَیْہِ الْاُمَّۃُ(سنن ابی داؤد، کتاب الفتن، باب الملاحم جلد ۲۔ ص۹۳۲)

      جامع ترمذی میں یَکُوْنُ مِنْ م بَعْدِیْ اِثْنَا عَشَرَ اَمِیْراًکے الفاظ آئے ہیں۔ (جامع الترمذی، جلد دوم، ص۳۱۱)

      مذکورہ روایات میں بتایا گیا ہے کہ اسلام بارہ خلفاء کے دور تک ہمیشہ غالب رہے گا، کوئی بیرونی طاقت ان پر غلبہ نہ پا سکے گی، یہ سب کے سب قریش میں سے ہوں گے اور ان سب پر امت کا اجماع ہو گا۔

      علامہ سید سلیمان ندویؒ بارہ خلفاء کی بحث میں لکھتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ خلفاء کے ہونے کی بشارتیں حدیث کی مختلف کتابوں میں مختلف الفاظ میں آئی ہیں۔۔۔ علمائے اہل سنت میں سے قاضی عیاض اس حدیث کا یہ مطلب بتاتے ہیں کہ تمام خلفاء میں سے بارہ وہ شخص مراد ہیں جن سے اسلام کی خدمت بن آئی اور وہ متقی تھے۔

      حافظ ابن حجر، ابو داؤد کے الفاظ کی بنا پر خلفائے راشدین اور بنی امیّہ میں سے ان خلفاء کو گناتے ہیں جن کی خلافت پر تمام امت کا اجتماع رہا یعنی

      ۱۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ۲۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ۳۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۴۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ۵۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ۶۔یزید ۷۔عبدالملک ۸۔ولید ۹۔سلیمان ۰۱۔عمر بن عبدالعزیز ۱۱۔یزید ثانی ۲۱۔ہشام

      (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد سوم، ص۴۰۶۔ تحت اخبار غیب یا پیش گوئی)

      حسب ذیل کتب میں بھی معمولی تغیّر کے ساتھ بارہ خلفاء کے نام آئے ہیں: (فتح الباری، جلد۳۱۔ ص۴۱۲، منہاج السنۃ لابن تیمیۃ جلد۴۔ ص۶۰۲، تاریخ الخلفاء للسیوطی مترجمہ شمس بریلوی، الصواعق المحرقۃ لابن حجر ہیتمی، ص۱۲، شرح فقہ اکبر لملا علی قاری، ص۴۸، تکملہ فتح الملہم للشیخ محمد تقی عثمانی جلد۳۔ ص۴۸۲)

      محدثین کی مذکورہ تشریح سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی ہشام بن عبد الملک اموی کے دور خلافت میں پوری اور سچی ثابت ہوئی۔ مذکورہ اموی خلفاء کو یہ شرف حاصل رہا کہ ان پر پوری امت متفق و مجتمع تھی، ان کے ادوار میں تمام عالم اسلام کا ایک ہی سیاسی مرکز تھا۔ ایک ہی خلیفہ کا حکم پوری اسلامی دنیا پر چلتا تھا اور نہ صرف اندرونِ مملکت اسلام غالب تھا بلکہ کسی بیرونی قوت کو خلافتِ اسلامیہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔

      بہر حال آیات اظہارِ دین میں بیان کردہ غلبہ کی پیش گوئی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور (جو ۰۱۱ھ تک رہا ہے) یقینی طور پر شامل ہے۔

      قرآن کریم سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے: فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغَالِبُوْنَپس یقیناًاللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی۔ (المائدہ، ۶۵)

      ایک دوسرے مقام پر قرآن عزیز نے حزب اللہ کو لشکر کا نام دیا ہے۔

      وَ اِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغَالِبُوْنَاور ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا۔ (الصّٰفٰت، ۳۷۱)

      مذکورہ تفصیل اور قرآن و حدیث کے دلائل سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہو گئی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت راشدہ میں دونوں قسم (یعنی دلائل اور قوت و اقتدار و سیف و سنان) کا غلبہ حاصل رہا ہے کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مجتہد صحابی اور خود بھی بہ لسان نبوت قَوِیٌّ اَمِیْنٌ تھے۔

      (مجمع الزوائد ، جلد۹، ص۶۵۳)

      حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے قوی و غالب ہونے کی ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ : ابن عساکر نے روایت کی عروہ بن رویم سے کہا کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا کہ مجھ سے کُشتی لڑ۔ تو اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تجھ سے کُشتی لڑتا ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کبھی مغلوب نہ ہو گا۔

      چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اعرابی کو پچھاڑ دیا تو جب یوم صفّین ہو چکا تو علی رضی اللہ عنہ نے (عروہ سے) کہا کہ اگر تو اس حدیث کو مجھ سے ذکر کر دیتا تو میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ نہ کرتا۔

      (ازالۃ الخفاء، جلد چہارم، ص۸۱۵۔ مترجمہ مولانا عبدالشکور لکھنویؒ ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیف و سنان کا غلبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں دین حق کو حاصل ہوا جب ایران و روم کی دو سپر پاور حکومتیں پاش پاش ہوئیں اور دنیا میں کوئی حکومت مسلمانوں کو چیلنج کرنے والی نہ رہی۔ اس عہد میں اسلامی خلافت کا رقبہ ۲۲لاکھ مربع میل تک پہنچ گیا تھا۔

      حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں ایران و روم کے باقی ماندہ علاقے فتح کر کے اس کا رقبہ ۴۴ لاکھ مربع میل تک پہنچا دیا تھا۔ قرآن مجید میں غلبۂ اسلام اور تمکین دین کے جو وعدے کیے گئے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق جو بشارتیں دی تھیں ان میں سے اکثر خلفائے ثلاثہؓ کے دور میں پوری ہو گئی تھیں۔

      حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے دور امارت میں مذکورہ فتوحات میں برابر کے شریک تھے لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دست برداری کے بعد جب خود انہوں نے زمامِ خلافت اپنے ہاتھ میں لی تو انہوں نے نہ صرف اپنی قابلیت سے اندرونی و بیرونی شورشوں کو فرو کیا بلکہ مزید علاقے فتح کر کے اسلامی خلافت کا رقبہ ۵۶ لاکھ مربع میل تک پہنچا دیا۔ اس طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دنیا کے نصف سے زائد رقبے پر دین اسلام کا پھریرا لہرا کر اسے ادیانِ باطلہ پر غالب کر دیا۔

      پروفیسر قاضی محمد طاہر علی الہاشمی
      بشکریہ نقیب ختم نبوت



      Similar Threads:

      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. #2
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      158

      Re: آیت اظہارِ دین اور خلافت معاویہ رضی اللہ ع

      JazakAllah


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: آیت اظہارِ دین اور خلافت معاویہ رضی اللہ ع







      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •