Nice Sharing
Thanks For Sharing
مصطفی ملک ، فیصل آباد
سر، ایک ضروری بات کرنی ہے آپ سے ؟ جی ، آجائیں ، اس نے آہستہ سے کرسی سرکائی اور میرے سامنے بیٹھ گیا ، آفس میں بطور اسسٹنٹ کام کرنے والا نوجوان مجھے کئی دنوں سے پریشان نظر آرہا تھا ،اس سے پہلے کہ میں اس سے پوچھتا ،شائد وہ خود ہی بتانے کے لئے آگیا ، سر۔۔۔کچھ پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ہے ،گھر میں کچھ پریشانی ہے ، میں نے پوچھا ،کتنے ؟جی بیس ہزار ، جی آئندہ تنخواہ پر لوٹا دوں گا ، میں نے پوچھا کہ تمہاری تنخواہ توپندرہ ہزار ہے تم بیس ہزار کیسے لوٹا دو گے؟بس جی اگلے ماہ ایک کمیٹی نکلنی ہے۔ مجھے آج ہی اہلیہ نے پچیس ہزار روپے دیئے تھے بیٹی کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے لئے ، میں نے اس کی مشکل حل کرنے کے لئے اسے دراز سے بیس ہزار روپے نکال کر دے دیئے۔ ابھی وہ کمرے سے نکلا ہی تھا کہ دوسرا اسسٹنٹ آ گیا ، کہنے لگا ،سر کتنے پیسے لے گیا ؟ کیا مطلب۔۔۔ سر جی آپ تو بھولے بادشاہ ہیں ، اس کا تو کام ہی یہی ہے ، کریڈٹ کارڈ بنوانے کا شوق تھا ، اب ادائیگیاں نہیں ہو رہی ہیں ، میں نے انہیں بتایا کہ وہ مجھ سے پیسے لینے نہیں بلکہ اپنے کارڈز کے سلسلہ میں مشورہ کرنے آیا تھا۔میں نے اسے اگلے دن بلالیا ، بھائی کیا بنا تمہاری پریشانی کا ؟ جی۔۔ جی ، وہ ۔۔ جی بھائی مجھے اصل بات بتاؤ گے تو میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں گا۔ وہ چند لمحے خلاؤں میں گھورتا رہا ، اچانک اٹھ کر زمین پر بیٹھ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گیا ،میرے لئے یہ غیر متوقع صور حال تھی ، سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں ، بس وہ ایک ہی بات کئے جارہاتھا ، سر مجھے بچا لیں ، میرے بہت چھوٹے بچے ہیں ، میں خود کشی کر لوں گا ، میرے بچے رُل جائیں گے سر۔۔۔ میں نے کہا کہ بھائی حوصلہ کرو ، کچھ بتاؤ گے تو بات بنے گی ناں۔ سر۔۔۔ میں نے ایک کریڈٹ کارڈ بنوا لیا تھا ، تین لاکھ کا ، پہلے چند ماہ تو بہت مزا آیا ، بیوی اور بچوں کو لے کر خوب گھومے ، اسی کے لون پر موٹر سائیکل بھی لے لی ، پھربیوی کی بہن کی شادی تھی ، بیگم کے کہنے پر جی بھر کے شاپنگ بھی کر لی اور اس کی بہن کے لئے تحائف بھی لے لئے ، بیگم کہنے لگی ،بنک کا کیا ہے ، قسطوں میں ہی تو واپس کرنا ہے ،ایک سال تک تنخواہ سے جیسے تیسے قسطیں دیتا رہا ہوں ، ایک سال بعد دیکھا ، وہ تین لاکھ تو وہیں کہ وہیں اور الٹا کچھ انٹرسٹ اور اوپر چڑھ گیا ہے ،تنخواہ ان کو دیتا ہوں تو کھانے کے لئے کچھ نہیں بچتا ، ان کو نہیں دیتا تو بنک ریکوری افسران گھر آکر گالی گلوچ کرتے ہیں ، سر میں تباہ و برباد ہو گیا ہوں ، بس اب خود کشی کرلینی ہے۔میں نے اسے حوصلہ دیا ،اسے اٹھا کر کرسی پر بٹھایا اور کہا کہ پہلے پانی پیو پھر بات کرتے ہیں ،اس کو حوصلہ دیا اور اس کے لیے چائے بنوائی۔ اس کی ساری رام کہانی سننے کے بعد میں نے اسے کہا بنک کے اہلکار آئیں تو انہیں پیسے جمع نہیں کروانے بلکہ انہیں مجھ سے ملوانا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک نوجوان کے ساتھ اسی طرح کا المناک واقعہ پیش آیا جب بنک کے ریکوری نمائندوں نے اسے ڈرایا دھمکایا اور اس کے گھر جاکر گالی گلوچ کی جس کے نتیجہ میں اس نے خود کشی کرلی توعدالت عالیہ نے نوٹس لیا ،جس کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان نے یہ قوانین لاگو کردیئے کہ بنک کا کوئی بھی نمائندہ بغیر اپنے کلائینٹ سے ایڈوانس ملاقات کے اس کے گھر یا دفتر نہیں جا سکتا ، اس کے علاوہ اس کے کسی عزیز سے پوچھ گچھ نہیں کر سکتا اور اگر اس سے ملاقات ہو بھی تو دن کے اوقات میں ہو گی۔ اگلے ہی دن اس نے بتایا کہ بنک کا ایک نمائندہ آیا ہے میں نے اس کو ملاقات کے لئے بلوا لیا ، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اسٹیٹ بنک کے قوانین کا مطالعہ کیا ہے ، تم کس بنیاد پر اس کو اور اس کے گھر والوں کو ڈرا دھمکا رہے ہو ،جائیں ہم رقم ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ، آپ اپنے بنک کو بتا دیں کہ وہ بنکنگ کورٹ میں ہمارے خلاف دعویٰ کر دے۔ ہم الٹا تمہارے خلاف کیس بنوائیں گے ۔اسے بات کی سمجھ آ گئی۔میں نے اسے کہا کہ اگر آپ نے اپنی رقم واپس لینی ہے تو کوئی پلان بنا کر لے آئیں،ہم اپنی سہولت کے مطابق آپ کو رقم واپس کردیں گے۔ کریڈٹ کارڈ ایک شیطانی چال ہے لوگوںکوپھنسانے کی ،اس کا انجام صرف ڈیفالٹر کی شکل میں سامنے آتا ہے۔اس وقت پاکستان میں ان ڈیفالٹرز کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جو بے چارے گھر پر’’نہیں ہوتے‘‘ فون پر’’نہیں ہوتے‘‘ اور آفس یا کاروبار پر’’نہیں ہوتے‘‘ کیونکہ ان سب کو بنک کے ہرکاروں کا ڈر ہوتا ہے جو کہلاتے تو ریکوری افسر ہیں لیکن دراصل ’’ بھائی لوگ‘‘ یا’’کن ٹٹے ‘‘ ہوتے ہیں‘‘کریڈٹ کارڈ ایک دھوکہ کا نام ہے جس کے چکر میں ہزاروں لوگ اپنے گھر برباد کر چکے ہیں کیونکہ ایڈوانس رقم بغیر کسی محنت کے حاصل ہوتی ہے، اس لئے اسی طرح خرچ ہو جاتی ہے ، پھر انسان اس کی ادائیگی کرنے کے لئے مزیدکریڈٹ کارڈ بنوا لیتا ہے، پھر اس کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے تودوستوں سے ادھار ، گھر کی اشیاء، بیوی کے زیور تک بکنے کے لئے آجاتے ہیں، مگر مکمل ادائیگیاں نہیں ہوپاتیں اور انسان سود درسود کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے ۔ اگر بات عدالتوں تک چلی جائے تو وکلاء کے اخراجات ، پیشیوں پرپورے پورے دن کا ضیاع ،پھر سزا اورگرفتاری کا خطرہ۔پھر اس کا حل کیا ہے ، بس اس کا حل یہی ہے کہ اپنے اخراجات کو محدود رکھیئے۔ سود کو اللہ رب العزت نے اپنے سے جنگ قرار دیا ہے تو پھر کون اللہ سے جنگ جیت سکتا ہے۔
Similar Threads:
Nice Sharing
Thanks For Sharing
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks