Nice Sharing
Thanks For Sharing
لہراتے، بل کھاتے، بلبلاتے، اٹھلاتے، آنکھیں دکھاتے اور دل کو جلاتے۔۔۔جب سڑکوں پر جائیں، ان افراد سے پالا پڑتا ہے۔ ان حضرات کو عرف عام میں ڈرائیور کہا جاتا ہے، لیکن نوعیت اور خصوصیت کے اعتبار سے ہم نے انہیں مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ مجبور ڈرائیور: یہ حضرات یا تو عادت سے مجبور ہوتے ہیں، یا پھر خارش سے۔ کبھی سیدھی گاڑی نہیں چلاتے۔ شاید تعلق خاص بازار کی بالائی منزل سے ہوتا ہے، اسی لیے گاڑی چلانے کو بھی رقص کرنے جیسا سمجھتے ہیں۔ سالے ڈرائیور: یہ کسی ٹریفک وارڈن یا اعلیٰ افسر کے سالے ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں قوانین کی خلاف ورزی پر پکڑا جائے، یہ اپنے بہنوئی کو فون ملا دیتے ہیں۔ ٹریفک کے پچاس فیصد مسائل کے ذمہ دار یہ ہوتے ہیں، باقی پچاس فیصد کی ذمہ داری ان کے بہنوئیوں پر عائد ہوتی ہے۔ قدرتی ڈرائیور:یہ وہ ڈرائیور ہیں جنہیں کسی ایمرجنسی کے دوران بریک لگاتے ہوئے یاد آتا ہے، ‘‘اوہ! بریک آئل تو آج بھی نہیں ڈالا۔’’ان کی گاڑی انجن کی طاقت سے نہیں اللہ کی قدرت سے چلتی ہے۔انجن آئل جب تک مکمل گھائل نہ ہوجائے، نہیں بدلواتے۔ جب گاڑی پچاس کی رفتار سے اوپر جاتی ہے، اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔ اکثر یہ سانحہ سڑک کے بیچ رونما ہوتا ہے، اور مرحومہ جاتے جاتے کئی صحیح سلامت گاڑیوں کو بھی روگ لگا جاتی ہیں۔ کمزور ڈرائیور: یہ گاڑی نہیں چلاتے، گاڑی انہیں چلاتی ہے۔ اسٹیئرنگ یوں پکڑتے ہیں جیسے بے قابو گھوڑے کی باگ تھام رکھی ہو۔ دوران سفر ان کے چہرے کی ہوائیاں اور سواریوں کے ہوش۔۔۔دونوں محو پرواز رہتے ہیں۔ شہزور ڈرائیور: یہ مہران کار بھی چلائیں تو لگتا ہے شہزور ڈالا چلا رہے ہیں۔ سڑک کو والد صاحب سے ورثے میں ملنے والی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اسی لیے لوگ بھی ان کی ڈرائیونگ پر انہیں کچھ نہیں کہتے، جو کہنا ہوتا ہے ان کے والد صاحب کو ہی کہتے ہیں۔ انتہائی ڈرائیور: یہ وہ موٹرسائیکل سوار ہیں جو اپنی سواری کو احساس کمتری میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے۔ موٹرسائیکل کیلیے مخصوص انتہائی بائیں لین میں چلانے کے بجائے بالکل درمیان میں یا تقریباً دائیں چلاتے ہیں۔پھر ضروری نہیں کہ وہ جس لین میں چلا رہے ہوں، اسی میں چلاتے رہیں۔ جب آپ انہیں اوورٹیک کرنے لگیں گے یہ مزید دائیں ہو جائیں گے۔ چونکہ عقب کی صورتحال دکھانے والا آئینہ نصب کرنا بھی موٹرسائیکل کی توہین سمجھتے ہیں، اس لیے ارد گرد کی ٹریفک کی بے چارگی قطعاً نہیں دیکھ پاتے۔ آخ تھو ڈرائیور:غصہ تھوکیں نہ تھوکیں، سڑک پر بلغم یا پان کی پیک ضرور تھوکتے ہیں۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ پھوار لامحالہ پیچھے آنے والوں پر گرے گی۔ پھوار کا شکار کوئی شخص صدائے احتجاج بلند کرتا ہے تو معافی مانگنے کے بجائے بحث کرنے لگتے ہیں۔ طبیعات کے اصولوں سے ثابت کرتے ہیں کہ جس زاویے سے انہوں نے تھوکا اس طول اور عرض بلد پر تو کوئی آ ہی نہیں رہا تھا۔ شوخے ڈرائیور: ایسے ڈرائیور ایک پہیے پر موٹرسائیکل چلانا بڑی قابلیت سمجھتے ہیں، اسی لیے اپنے میں مزید کوئی اہلیت پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔ گاڑی سے سائیلنسر نکلوا کر یوں خوش ہوتے ہیں جیسے ڈاکٹری کا امتحان پاس کرلیا ہو۔ باضابطہ ڈرائیور: یہ وہ حضرات ہیں جو باقائدہ لائسنس یافتہ ہوتے ہیں، اور ان کا لائسنس کسی اعلیٰ شخصیت نہیں بلکہ ذاتی محنت کانتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں ٹریفک کے ضابطوں کاعلم بھی ہوتا ہے اور وہ ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ٹیلی فونک ڈرائیور: چاہے ٹریفک قوانین کا خون ہو جائے، یہ دوران ڈرائیونگ فون ضرور سنیں گے۔فون افسر کا ہو تو انتہائی تیز رفتار والی لین میں گاڑی چلائیں گے، اور افسر کی ڈانٹ ڈپٹ سے ہونے والی خجالت کا بدلہ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں سے لیں گے۔ فون دلنوازمحبوبہ کا ہو تو بھی انتہائی تیز رفتار والی لین میں رہیں گے، ہاں گاڑی کی رفتار بہت دھیمی ہو گی۔ چونکہ کان فون سے آنے والی آواز سن رہے ہوتے ہیں اس لیے دیگر گاڑیوں کے ہارن اورگاڑیوں میں سوار افراد کے کوسنے نہیں سن سکتے۔گاڑی چلا تے ہوئے اکثر روکنا بھول جاتے ہیں، اور گاڑی رکی ہو تو چلانا بھول جاتے ہیں۔ اوندھے ڈرائیور: ایسے ڈرائیوروں کا ہر کام الٹا ہوتا ہے۔۔۔ ون وے کی خلاف ورزی کر لیتے ہیں، ذرا سا آگے جا کر یو ٹرن نہیں لیتے۔ اسپیڈ بریکر آئے تو ریس دے دیتے ہیں، اور اشارہ سبز ہو جائے تو بریک لگا دیتے ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ ڈرائیور معاشرے کا ہو، یا گاڑی کا۔۔۔احتیاط اور اصولوں کی پاسداری ہی کامیاب سفر کی ضامن ہوا کرتی ہے۔ جہاں قوائد کا دامن چھوٹ جائے، وہاں نظم و ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ بجانے لگتا ہے۔ایسے میں سفر تو کٹ جاتا ہے، منزل کہیں دور رہ جاتی ہے۔ ذرا یہ تو بتائیے، آپ کس قسم کے ڈرائیور ہیں؟ ٭…٭…٭
Similar Threads:
Nice Sharing
Thanks For Sharing
بہت ہی پیاری شئیرنگ کی ہے
آپکی مزید اچھی اچھی شئیرنگ کا انتظار رہے گا
بہت بہت شکریہ
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
پسندیدگی کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks