SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 8 of 8

    Thread: مکہ اور مدینہ نزدیک تھا

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      مکہ اور مدینہ نزدیک تھا



      مکہ اور مدینہ نزدیک تھا
      جاوید چوہدری




      ملک شام اور شہر دمشق مسلمانوں کے پانچ مقدس ترین شہروں اور ملکوں میں شمار ہوتا ہے، شام انبیاء، صحابہ، اولیاء اور مؤرخین کا ملک ہے، آپ دمشق کی جس گلی میں نکل جائیں، آپ کو وہاں کسی نہ کسی نبی، صحابی، ولی یا مسلم اسکالر کا مزار ملے گا، دمشق اور حلب دونوں شہر مذہبی سیاحت کے عظیم مراکز ہیں، دمشق کی جامع امیہ میں ایک چبوترا ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے، حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور اسی چبوترے پر ہو گا۔
      اسی مسجد کے ساتھ حضرت یحییٰ علیہ السلام اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مزارات بھی ہیں، یہ ابن خلدون کا ملک بھی تھا، یہ حضرت ہابیل اور حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا ملک بھی تھا اور حضرت بلال ؓ،حضرت خالد بن ولید ؓ ،عمار بن یاسر ؓ ،حضرت حجر بن عدیؓ ، حضرت ابودرداءؓ ، حضرت امیرمعاویہ ؓ ، حضرت بی بی زینب ؓ ،حضرت اویس قرنیؓ ،حضرت ام کلثوم بن علیؓ ،حضرت سکینہ بنت امام حسینؓ ،حضرت رقیہ بنت امام حسینؓ ،حضرت فضا کنیز حضرت فاطمہؓ ،حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ،امام ابن تیمیہؒ اورامام نوائیؒ بھی اسی ملک میں مدفون ہیں، شام کو تین اور اعزازات بھی حاصل ہیں، یہ ملک دنیا کی قدیم ترین آرگنائزڈ سولائزیشنز میں شمار ہوتا ہے۔
      دنیا کا 80 فیصد حصہ جب پتھر اور غار کے دور سے گزر رہا تھا شام میں اس وقت باقاعدہ حکومت بھی تھی اور میونسپل کمیٹیوں کا نظام بھی۔ فرعون شام سے مصر گئے تھے اور انھوں نے وہاں ایسا نظام حکومت تشکیل دیا تھا جو آج کے جدید اذہان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، دمشق اور حلب دنیا کے قدیم ترین شہروں میں بھی شمار ہوتے ہیں، شام کا دوسرا اعزاز اس کا انسانی حسن ہے، شام میں پچھلے چھ ہزار سال سے دنیا کی خوبصورت ترین نسلیں آباد ہیں، مصر کے فرعون، روم کے قیصر، ایران کے شہنشاہ، عرب کے خلیفہ اور ترکی کے عثمانی اپنی بیگمات، اپنی خادماؤں، اپنی کنیزوں اور اپنی آیائیوں کا انتخاب شام سے کرتے تھے، آپ دنیا بھر کے میڈیا پر شامی مہاجرین دیکھ رہے ہیں۔
      آپ کو یقینا ان لوگوں کا حسن و جمال مبہوت کر دیتا ہو گا، یہ شام کے غریب اور عام لوگ ہیں، آپ ان عام لوگوں کو سامنے رکھ کر شام کے خاص لوگوں کا تصور کیجیے، آپ کی آنکھیں دیکھنا بھول جائیں گی اور یہ وہ راز ہے جس کی وجہ سے آج تک جس بادشاہ، جس جرنیل اور جس سیاح نے شام میں قدم رکھا وہ وہاں سے واپس نہ جا سکا اور اگر گیا تو اس کا دل دمشق کی کسی گلی کے کسی موڑ پر ہی سسکتا رہ گیا اور تیسرا اعزاز، یہ وہ ملک ہے جس نے عالم اسلام کو وہ لازوال ادارے دیے تھے جن پر ہم آج بھی فخر کرتے ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کا پولیس کا محکمہ ہو، ریگولر آرمی کا تصور ہو، ویلفیئر اسٹیٹ کا فارمولہ ہو یا پھر ڈاک کا نظام ہو، یہ تصورات دمشق سے مدینہ پہنچے تھے۔
      آپ نے گلیڈی ایٹر اور بین ہر جیسی فلموں میں ایسی گھوڑا گاڑیاں دیکھی ہوں گی جن کی دونوں سائیڈز پر درجنوں تلواریں اور درانتیاں لگی تھیں، یہ گاڑیاں راستے میں آنے والے تمام گھوڑوں اور فوجیوں کا قیمہ بنا دیتی تھیں، یہ گاڑیاں شام کی ایجاد تھیں اور شام وہ واحد ملک تھا جس کی فتح کے لیے نبی اکرم ؐ نے اپنی حیات میں لشکر تیار کیا تھا، یہ لشکر روانہ بھی ہوا لیکن رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد راستے سے واپس آ گیا، حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے خلیفہ کا حلف اٹھایا تو آپ کی پہلی سرکاری مہم اس لشکر کی دوبارہ روانگی تھی، آپؓ نے لشکر کے سالار 17 سالہ غلام زادے اسامہ بن زیدؓ کو گھوڑے پر بٹھایا، اپنا ہاتھ غلام زادے کی رکاب پر رکھا اور مستقبل کے خلفاء راشدین کے ساتھ پیدل چل کر اس لشکر کو مدینہ سے رخصت کیا اور دمشق کو 41 ہجری سے 132 ہجری تک اسلامی دارالسلطنت کی حیثیت بھی حاصل رہی لہٰذا آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں آپ شام کو مقدس پائیں گے۔
      آپ اب شام کے اردگرد موجود ممالک کو بھی دیکھیے، شام 9 مقدس ترین مسلمان ملکوں کے ہمسائے میں واقع ہے، شام کی سرحدیں ترکی، عراق، اردن، لبنان، مصر، سعودی عرب، یمن، ایران اور عمان سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملتی ہیں، ان نو ممالک میں شامی قبائل بھی موجود ہیں اور شامیوں کے ہم ملک اور ہم عقیدہ لوگ بھی۔ ان نو ملکوں میں ہزاروں سال سے رابطے بھی استوار ہیں، نبی اکرم ؐ نے اپنی تجارتی زندگی کا آغاز شام کے تجارتی قافلوں سے کیا تھا، مسلمانوں کے مقدس شہر دمشق اور حلب مسلمانوں کے دوسرے مقدس ترین شہروں مدینہ، مکہ، نجف، قم، استنبول، قونیہ، قاہرہ، جارڈن سٹی، صنعاء، تبوک اور بیروت سے زیادہ دور نہیں ہیں، ان شہروں کے درمیان کوئی سمندر اور بلند و بالا پہاڑ بھی موجود نہیں ہیں۔
      آپ اگر دمشق اور حلب سے پیدل نکلیں تو آپ چند دن بعد کسی نہ کسی مقدس شہر میں داخل ہو جائیں گے، ان نو مقدس ممالک میں شام کے ہم مذہب اور ہم مسلک لوگ آباد ہیں، دمشق سے لے کر ازمیر، قم، صنعاء اور قاہرہ تک پانچ وقت اذان ہوتی ہے، پانچ وقت جماعت کھڑی ہوتی ہے، صدقہ اور خیرات بھی دی جاتی ہے، نقاب، حجاب اور اسکارف لیا جاتا ہے، قرآن مجید پڑھا جاتا ہے، حلال گوشت کھایا جاتا ہے اور ایک اللہ اور ایک رسولؐ کو مانا جاتا ہے لیکن جب 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے اور شامی خاندان ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں تو یہ لوگ برادر اسلامی ممالک کے بجائے، یہ لوگ مقدس ترین مکہ، مدینہ، قم، نجف، جارڈن اور بیروت کے بجائے اس یورپ کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جہاں حلال گوشت نہیں ملتا، جہاں مسجدیں نہیں ہیں، جہاں چرچ کی گھنٹیاں بجتی ہیں، جہاں اسکارف، نقاب اور حجاب کی اجازت نہیں، جہاں تبلیغ جرم ہے۔
      جہاں داڑھی، نماز اور تلاوت کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جہاں اسکولوں میں سیکولر تعلیم دی جاتی ہے، جہاں بچیاں مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں آپ انھیں بوائے فرینڈ رکھنے سے نہیں روک سکتے اور جہاں رہنے کے لیے آپ کو انگریزی، فرنچ، جرمن، یونانی اور آسٹرین زبان سیکھنا پڑتی ہے اور جہاں آپ کو ان عیسائی، یہودیوں اور لادین لوگوں کے ساتھ رہنا پڑے گا جو پچھلے 14 سو سال سے عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
      آپ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھئے گا، شام اور یورپ کے درمیان کوئی زمینی راستہ موجود نہیں، شامیوں کو یورپ پہنچنے کے لیے سیکڑوں میل لمبے سمندر پار کرنا پڑ رہے ہیں، یہ لوگ شام سے ترکی پہنچتے ہیں، استنبول یا ازمیر سے کشتیوں میں بیٹھ کر یونان پہنچتے ہیں یا ہزاروں میل کا سفر طے کر کے مصر سے تیونس اور لیبیا پہنچتے ہیں اور وہاں سے سمندر کا خوفناک سفر طے کر کے اٹلی پہنچتے ہیں یا پھر تیونس سے الجزائر اور مراکش جاتے ہیں اور وہاں سے سمندر میں اتر کر اسپین پہنچتے ہیں، یہ سفر انتہائی خطرناک ہے اور خاندان کے خاندان سمندر میں ڈوب کر مر رہے ہیں۔
      یہ درست ہے مہاجرین ترکی، لبنان، اردن، عراق اور مصر میں بھی پناہ گزین ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ان پانچوں ممالک سے روزانہ سیکڑوں ہزاروں لوگ بھاگ کر یورپ پہنچ رہے ہیں، یورپ پچھلے ماہ سے شامی مہاجرین کا خوفناک ہدف ہے، یونان کے ساحلوں پر ہزاروں کشتیاں اتر چکی ہیں، یہ لوگ یونان اتر کر سنٹرل یورپ کی طرف چل پڑتے ہیں، یونان، بلغاریہ اور رومانیہ مہاجرین کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں، ٹرین سروس، یورپ کو ملانے والی بس سروس اور بڑی شاہراہیں بند کر دی گئی ہیں لیکن شامی مہاجرین ریلوے ٹریک اور سڑکوں پر پیدل چل پڑتے ہیں، یہ پیدل ہنگری پہنچتے ہیں، یہ وہاں سے آسٹریا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ پہنچتے ہیں، جرمنی ایک لاکھ سے زائد مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔
      اس فرانس میں بھی اس وقت 24 ہزار شامی مہاجرین پہنچ چکے ہیں جہاں چند ماہ قبل مسلمانوں نے تعلیمی اداروں میں اسکارف کی اجازت نہ دینے پر شدید احتجاج کیا تھا، برطانیہ بھی شامی مہاجرین کو پناہ دینے پر مجبور ہو چکا ہے جب کہ اسپین اور اٹلی میں موجود پناہ گزین بھی کیمپوں کے دروازے توڑ کر جرمنی اور فرانس کی طرف دوڑ رہے ہیں، یہ لوگ یورپ پہنچنے کے لیے اس قدر بے تاب ہیں کہ یہ ایلان جیسے بچوں تک کی قربانی دے رہے ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟۔
      عالم اسلام کو کبھی نہ کبھی مذہبی، سماجی اور نسلی عصبیت کو سائیڈ پر رکھ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس کیوں کا جواب تلاش کرنا پڑے گا، ہمیں حقائق کو بہرحال ماننا ہو گا اور وہ حقائق یہ ہیں، ملک میں اگر جبر، بدامنی، بے انصافی اور غربت ہو تو لوگ انبیاء، صحابہ، اولیاء اور اسکالرز کے دمشق سے بھی نقل مکانی کر جاتے ہیں، یہ اس مسجد کو بھی چھوڑ جاتے ہیں جہاں حضرت عیسیٰ ؑ اتریں گے یا جہاں دن میں سیکڑوں بار اللہ کی رحمت برستی ہے۔
      حقائق یہ ہیں، انسان جب گھر چھوڑتا ہے تو یہ امن اور آزادی کے لیے مقدس ترین شہروں کے قریب سے گزر کر ان ملکوں، ان شہروں کی طرف دوڑ پڑتا ہے جہاں ان کے ایمان، ان کی نسلوں کے ایمان اور ان کی تہذیب کے ایمان تک کی گارنٹی نہیں ہوتی اور حقائق تو یہ ہیں امن، انصاف، عزت، جمہوریت، انسانی حقوق اور ترقی کے برابر مواقعے انسان کو اگر یہ سہولتیں ان ملکوں میں بھی نظر آئیں جن کو یہ صدیوں تک اپنے ایمان، اپنی تہذیب کا دشمن سمجھتا رہا ہو تو یہ سیکڑوں میل پیدل چل کر، کشتیوں میں بیٹھ کر، تیر کر اور اپنے ایلان کی قربانی دے کر بھی دشمن ملکوں میں پہنچ جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان پرامن زندگی کے لیے اذانوں، مسجدوں، تلاوتوں، حلال گوشت اور حجاب والے ملک چھوڑ کر چرچوں، گھنٹیوں، فحاشی، نیوڈ بیچز، کلبوں، شراب خانوں اور بوائے اینڈ گرلز فرینڈز کے معاشروں میں چلا جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان کو جب چوائس مل جائے تو یہ مقدس شہروں کے بجائے میونخ، بڈاپسٹ، پیرس اور لندن کا رخ کرتا ہے اور آپ کو اگر اب بھی یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ سے جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کا یہ بیان نکال کر فریم کرا لیں اور یہ فریم اپنی میز پر رکھ لیں۔
      اینجلا مرکل نے حیرت سے کہا میں حیران ہوں، جرمنی آنے والے شامی مسلمانوں کو مکہ اور مدینہ نزدیک پڑتا تھا آپ اینجلا مرکل کا یہ فقرہ اپنی میز پر رکھ لیں، مجھے یقین ہے، آپ زندگی میں جب بھی کنفیوژ ہوں گے، یہ ایک فقرہ آپ کو دو سکینڈ میں کنفیوژن سے نکال لے گا، آپ کو حقائق جاننے میں دیر نہیں لگے گی۔



      Similar Threads:

      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (03-01-2016)

    3. #2
      UT Poet www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Dr Maqsood Hasni's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      2,263
      Threads
      786
      Thanks
      95
      Thanked 283 Times in 228 Posts
      Mentioned
      73 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      82

      Re: مکہ اور مدینہ نزدیک تھا

      wah
      shandar malomaat share ki gaee hain


    4. The Following 2 Users Say Thank You to Dr Maqsood Hasni For This Useful Post:

      intelligent086 (03-01-2016),Moona (03-01-2016)

    5. #3
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      158

      Re: مکہ اور مدینہ نزدیک تھا

      Wah
      zabardast


    6. #4
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      510

      Re: مکہ اور مدینہ نزدیک تھا

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post


      مکہ اور مدینہ نزدیک تھا
      جاوید چوہدری




      ملک شام اور شہر دمشق مسلمانوں کے پانچ مقدس ترین شہروں اور ملکوں میں شمار ہوتا ہے، شام انبیاء، صحابہ، اولیاء اور مؤرخین کا ملک ہے، آپ دمشق کی جس گلی میں نکل جائیں، آپ کو وہاں کسی نہ کسی نبی، صحابی، ولی یا مسلم اسکالر کا مزار ملے گا، دمشق اور حلب دونوں شہر مذہبی سیاحت کے عظیم مراکز ہیں، دمشق کی جامع امیہ میں ایک چبوترا ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے، حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور اسی چبوترے پر ہو گا۔
      اسی مسجد کے ساتھ حضرت یحییٰ علیہ السلام اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مزارات بھی ہیں، یہ ابن خلدون کا ملک بھی تھا، یہ حضرت ہابیل اور حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا ملک بھی تھا اور حضرت بلال ؓ،حضرت خالد بن ولید ؓ ،عمار بن یاسر ؓ ،حضرت حجر بن عدیؓ ، حضرت ابودرداءؓ ، حضرت امیرمعاویہ ؓ ، حضرت بی بی زینب ؓ ،حضرت اویس قرنیؓ ،حضرت ام کلثوم بن علیؓ ،حضرت سکینہ بنت امام حسینؓ ،حضرت رقیہ بنت امام حسینؓ ،حضرت فضا کنیز حضرت فاطمہؓ ،حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ،امام ابن تیمیہؒ اورامام نوائیؒ بھی اسی ملک میں مدفون ہیں، شام کو تین اور اعزازات بھی حاصل ہیں، یہ ملک دنیا کی قدیم ترین آرگنائزڈ سولائزیشنز میں شمار ہوتا ہے۔
      دنیا کا 80 فیصد حصہ جب پتھر اور غار کے دور سے گزر رہا تھا شام میں اس وقت باقاعدہ حکومت بھی تھی اور میونسپل کمیٹیوں کا نظام بھی۔ فرعون شام سے مصر گئے تھے اور انھوں نے وہاں ایسا نظام حکومت تشکیل دیا تھا جو آج کے جدید اذہان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، دمشق اور حلب دنیا کے قدیم ترین شہروں میں بھی شمار ہوتے ہیں، شام کا دوسرا اعزاز اس کا انسانی حسن ہے، شام میں پچھلے چھ ہزار سال سے دنیا کی خوبصورت ترین نسلیں آباد ہیں، مصر کے فرعون، روم کے قیصر، ایران کے شہنشاہ، عرب کے خلیفہ اور ترکی کے عثمانی اپنی بیگمات، اپنی خادماؤں، اپنی کنیزوں اور اپنی آیائیوں کا انتخاب شام سے کرتے تھے، آپ دنیا بھر کے میڈیا پر شامی مہاجرین دیکھ رہے ہیں۔
      آپ کو یقینا ان لوگوں کا حسن و جمال مبہوت کر دیتا ہو گا، یہ شام کے غریب اور عام لوگ ہیں، آپ ان عام لوگوں کو سامنے رکھ کر شام کے خاص لوگوں کا تصور کیجیے، آپ کی آنکھیں دیکھنا بھول جائیں گی اور یہ وہ راز ہے جس کی وجہ سے آج تک جس بادشاہ، جس جرنیل اور جس سیاح نے شام میں قدم رکھا وہ وہاں سے واپس نہ جا سکا اور اگر گیا تو اس کا دل دمشق کی کسی گلی کے کسی موڑ پر ہی سسکتا رہ گیا اور تیسرا اعزاز، یہ وہ ملک ہے جس نے عالم اسلام کو وہ لازوال ادارے دیے تھے جن پر ہم آج بھی فخر کرتے ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کا پولیس کا محکمہ ہو، ریگولر آرمی کا تصور ہو، ویلفیئر اسٹیٹ کا فارمولہ ہو یا پھر ڈاک کا نظام ہو، یہ تصورات دمشق سے مدینہ پہنچے تھے۔
      آپ نے گلیڈی ایٹر اور بین ہر جیسی فلموں میں ایسی گھوڑا گاڑیاں دیکھی ہوں گی جن کی دونوں سائیڈز پر درجنوں تلواریں اور درانتیاں لگی تھیں، یہ گاڑیاں راستے میں آنے والے تمام گھوڑوں اور فوجیوں کا قیمہ بنا دیتی تھیں، یہ گاڑیاں شام کی ایجاد تھیں اور شام وہ واحد ملک تھا جس کی فتح کے لیے نبی اکرم ؐ نے اپنی حیات میں لشکر تیار کیا تھا، یہ لشکر روانہ بھی ہوا لیکن رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد راستے سے واپس آ گیا، حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے خلیفہ کا حلف اٹھایا تو آپ کی پہلی سرکاری مہم اس لشکر کی دوبارہ روانگی تھی، آپؓ نے لشکر کے سالار 17 سالہ غلام زادے اسامہ بن زیدؓ کو گھوڑے پر بٹھایا، اپنا ہاتھ غلام زادے کی رکاب پر رکھا اور مستقبل کے خلفاء راشدین کے ساتھ پیدل چل کر اس لشکر کو مدینہ سے رخصت کیا اور دمشق کو 41 ہجری سے 132 ہجری تک اسلامی دارالسلطنت کی حیثیت بھی حاصل رہی لہٰذا آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں آپ شام کو مقدس پائیں گے۔
      آپ اب شام کے اردگرد موجود ممالک کو بھی دیکھیے، شام 9 مقدس ترین مسلمان ملکوں کے ہمسائے میں واقع ہے، شام کی سرحدیں ترکی، عراق، اردن، لبنان، مصر، سعودی عرب، یمن، ایران اور عمان سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملتی ہیں، ان نو ممالک میں شامی قبائل بھی موجود ہیں اور شامیوں کے ہم ملک اور ہم عقیدہ لوگ بھی۔ ان نو ملکوں میں ہزاروں سال سے رابطے بھی استوار ہیں، نبی اکرم ؐ نے اپنی تجارتی زندگی کا آغاز شام کے تجارتی قافلوں سے کیا تھا، مسلمانوں کے مقدس شہر دمشق اور حلب مسلمانوں کے دوسرے مقدس ترین شہروں مدینہ، مکہ، نجف، قم، استنبول، قونیہ، قاہرہ، جارڈن سٹی، صنعاء، تبوک اور بیروت سے زیادہ دور نہیں ہیں، ان شہروں کے درمیان کوئی سمندر اور بلند و بالا پہاڑ بھی موجود نہیں ہیں۔
      آپ اگر دمشق اور حلب سے پیدل نکلیں تو آپ چند دن بعد کسی نہ کسی مقدس شہر میں داخل ہو جائیں گے، ان نو مقدس ممالک میں شام کے ہم مذہب اور ہم مسلک لوگ آباد ہیں، دمشق سے لے کر ازمیر، قم، صنعاء اور قاہرہ تک پانچ وقت اذان ہوتی ہے، پانچ وقت جماعت کھڑی ہوتی ہے، صدقہ اور خیرات بھی دی جاتی ہے، نقاب، حجاب اور اسکارف لیا جاتا ہے، قرآن مجید پڑھا جاتا ہے، حلال گوشت کھایا جاتا ہے اور ایک اللہ اور ایک رسولؐ کو مانا جاتا ہے لیکن جب 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے اور شامی خاندان ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں تو یہ لوگ برادر اسلامی ممالک کے بجائے، یہ لوگ مقدس ترین مکہ، مدینہ، قم، نجف، جارڈن اور بیروت کے بجائے اس یورپ کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جہاں حلال گوشت نہیں ملتا، جہاں مسجدیں نہیں ہیں، جہاں چرچ کی گھنٹیاں بجتی ہیں، جہاں اسکارف، نقاب اور حجاب کی اجازت نہیں، جہاں تبلیغ جرم ہے۔
      جہاں داڑھی، نماز اور تلاوت کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جہاں اسکولوں میں سیکولر تعلیم دی جاتی ہے، جہاں بچیاں مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں آپ انھیں بوائے فرینڈ رکھنے سے نہیں روک سکتے اور جہاں رہنے کے لیے آپ کو انگریزی، فرنچ، جرمن، یونانی اور آسٹرین زبان سیکھنا پڑتی ہے اور جہاں آپ کو ان عیسائی، یہودیوں اور لادین لوگوں کے ساتھ رہنا پڑے گا جو پچھلے 14 سو سال سے عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
      آپ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھئے گا، شام اور یورپ کے درمیان کوئی زمینی راستہ موجود نہیں، شامیوں کو یورپ پہنچنے کے لیے سیکڑوں میل لمبے سمندر پار کرنا پڑ رہے ہیں، یہ لوگ شام سے ترکی پہنچتے ہیں، استنبول یا ازمیر سے کشتیوں میں بیٹھ کر یونان پہنچتے ہیں یا ہزاروں میل کا سفر طے کر کے مصر سے تیونس اور لیبیا پہنچتے ہیں اور وہاں سے سمندر کا خوفناک سفر طے کر کے اٹلی پہنچتے ہیں یا پھر تیونس سے الجزائر اور مراکش جاتے ہیں اور وہاں سے سمندر میں اتر کر اسپین پہنچتے ہیں، یہ سفر انتہائی خطرناک ہے اور خاندان کے خاندان سمندر میں ڈوب کر مر رہے ہیں۔
      یہ درست ہے مہاجرین ترکی، لبنان، اردن، عراق اور مصر میں بھی پناہ گزین ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ان پانچوں ممالک سے روزانہ سیکڑوں ہزاروں لوگ بھاگ کر یورپ پہنچ رہے ہیں، یورپ پچھلے ماہ سے شامی مہاجرین کا خوفناک ہدف ہے، یونان کے ساحلوں پر ہزاروں کشتیاں اتر چکی ہیں، یہ لوگ یونان اتر کر سنٹرل یورپ کی طرف چل پڑتے ہیں، یونان، بلغاریہ اور رومانیہ مہاجرین کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں، ٹرین سروس، یورپ کو ملانے والی بس سروس اور بڑی شاہراہیں بند کر دی گئی ہیں لیکن شامی مہاجرین ریلوے ٹریک اور سڑکوں پر پیدل چل پڑتے ہیں، یہ پیدل ہنگری پہنچتے ہیں، یہ وہاں سے آسٹریا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ پہنچتے ہیں، جرمنی ایک لاکھ سے زائد مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔
      اس فرانس میں بھی اس وقت 24 ہزار شامی مہاجرین پہنچ چکے ہیں جہاں چند ماہ قبل مسلمانوں نے تعلیمی اداروں میں اسکارف کی اجازت نہ دینے پر شدید احتجاج کیا تھا، برطانیہ بھی شامی مہاجرین کو پناہ دینے پر مجبور ہو چکا ہے جب کہ اسپین اور اٹلی میں موجود پناہ گزین بھی کیمپوں کے دروازے توڑ کر جرمنی اور فرانس کی طرف دوڑ رہے ہیں، یہ لوگ یورپ پہنچنے کے لیے اس قدر بے تاب ہیں کہ یہ ایلان جیسے بچوں تک کی قربانی دے رہے ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟۔
      عالم اسلام کو کبھی نہ کبھی مذہبی، سماجی اور نسلی عصبیت کو سائیڈ پر رکھ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس کیوں کا جواب تلاش کرنا پڑے گا، ہمیں حقائق کو بہرحال ماننا ہو گا اور وہ حقائق یہ ہیں، ملک میں اگر جبر، بدامنی، بے انصافی اور غربت ہو تو لوگ انبیاء، صحابہ، اولیاء اور اسکالرز کے دمشق سے بھی نقل مکانی کر جاتے ہیں، یہ اس مسجد کو بھی چھوڑ جاتے ہیں جہاں حضرت عیسیٰ ؑ اتریں گے یا جہاں دن میں سیکڑوں بار اللہ کی رحمت برستی ہے۔
      حقائق یہ ہیں، انسان جب گھر چھوڑتا ہے تو یہ امن اور آزادی کے لیے مقدس ترین شہروں کے قریب سے گزر کر ان ملکوں، ان شہروں کی طرف دوڑ پڑتا ہے جہاں ان کے ایمان، ان کی نسلوں کے ایمان اور ان کی تہذیب کے ایمان تک کی گارنٹی نہیں ہوتی اور حقائق تو یہ ہیں امن، انصاف، عزت، جمہوریت، انسانی حقوق اور ترقی کے برابر مواقعے انسان کو اگر یہ سہولتیں ان ملکوں میں بھی نظر آئیں جن کو یہ صدیوں تک اپنے ایمان، اپنی تہذیب کا دشمن سمجھتا رہا ہو تو یہ سیکڑوں میل پیدل چل کر، کشتیوں میں بیٹھ کر، تیر کر اور اپنے ایلان کی قربانی دے کر بھی دشمن ملکوں میں پہنچ جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان پرامن زندگی کے لیے اذانوں، مسجدوں، تلاوتوں، حلال گوشت اور حجاب والے ملک چھوڑ کر چرچوں، گھنٹیوں، فحاشی، نیوڈ بیچز، کلبوں، شراب خانوں اور بوائے اینڈ گرلز فرینڈز کے معاشروں میں چلا جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان کو جب چوائس مل جائے تو یہ مقدس شہروں کے بجائے میونخ، بڈاپسٹ، پیرس اور لندن کا رخ کرتا ہے اور آپ کو اگر اب بھی یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ سے جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کا یہ بیان نکال کر فریم کرا لیں اور یہ فریم اپنی میز پر رکھ لیں۔
      اینجلا مرکل نے حیرت سے کہا ’’ میں حیران ہوں، جرمنی آنے والے شامی مسلمانوں کو مکہ اور مدینہ نزدیک پڑتا تھا‘‘ آپ اینجلا مرکل کا یہ فقرہ اپنی میز پر رکھ لیں، مجھے یقین ہے، آپ زندگی میں جب بھی کنفیوژ ہوں گے، یہ ایک فقرہ آپ کو دو سکینڈ میں کنفیوژن سے نکال لے گا، آپ کو حقائق جاننے میں دیر نہیں لگے گی۔

      Khoob surat tajziya


    7. The Following 2 Users Say Thank You to Dr Danish For This Useful Post:

      intelligent086 (03-01-2016),Moona (03-01-2016)

    8. #5
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: مکہ اور مدینہ نزدیک تھا

      Quote Originally Posted by Dr Maqsood Hasni View Post
      wah
      shandar malomaat share ki gaee hain
      Quote Originally Posted by UmerAmer View Post
      Wah
      zabardast
      Quote Originally Posted by Dr Danish View Post
      Khoob surat tajziya
      پسند اور آراء کا بہت بہت شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    9. #6
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: مکہ اور مدینہ نزدیک تھا

      @intelligent086 Thanks 4 informative sharing

      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    10. The Following User Says Thank You to Moona For This Useful Post:

      intelligent086 (03-01-2016)

    11. #7
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: مکہ اور مدینہ نزدیک تھا

      Quote Originally Posted by Moona View Post
      @intelligent086 Thanks 4 informative sharing




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    12. #8
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: مکہ اور مدینہ نزدیک تھا

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post


      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •